کشمیر۔۔۔ لہو کا دریا

574

عرفان اللہ اسماعیل
وہ اپنے مکان کے ملبے پر بیٹھا رو رہا تھا۔ اس کی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی۔ اب کون بچا تھا کہ اس کا سہارا بن جاتا! اس کی بوڑھی ماں جو بیماری کی وجہ سے ایک قدم بھی نہیں چل سکتی تھی، ظالموں نے اس کو بھی معاف نہیں کیا۔ اس کی چھوٹی بہن گڑیا جو ہر وقت ضد کرتی تھی کہ بھیا میرے لیے کھلونے لائو،آج وہ بھی خاموش تھی۔اس کی مسخ شدہ لاش اس کے سامنے پڑی ہوئی تھی۔ وہ تو اپنی ماںکے لیے دوائی لینے گیا تھا۔ اسے کیا خبر تھی کہ واپس لوٹے گا تو اس کا گھر قبرستان بنا ہوگا!
آخر ہمارا قصور کیا تھا؟ ہم نے ان کا کیا بگاڑا تھا؟کیوں ہمیں مارا گیا اور کیوں ہمیں مارا جاتا ہے؟ میرے والد نے تو آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی تھی۔کیا اپنے حقوق کے لیے لڑنا اور آواز بلند کرنا جرم ہے؟ اگر جرم ہے تو میں بھی یہ جرم کروںگا۔
ابھی تک وہ یہی سوچ رہا تھا اور اس کے آنسو جاری تھے کہ یکایک اسے احساس ہوا کہ کوئی اس کے پیچھے کھڑا ہے۔
’’شہباز انکل آپ‘‘… یہ کہہ کر بلال ان سے لپٹ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ’’انکل ان ظالموں نے میری زندگی برباد کردی۔ کچھ بھی نہیں چھوڑا میرے لیے۔ انکل میں ان ظالموں سے اپنی بوڑھی والدہ اور چھوٹی بہن کا بدلہ ضرور لوں گا، نہیں چھوڑوں گا ان بھارتی فوجیوں کو‘‘۔ بلال کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
’’بیٹا حوصلہ کرو اور اللہ پر بھروسا رکھو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اپنے آپ کو سنبھالو، آنسوؤںکو روک لو۔ رونے سے کچھ نہیں ہوتا بیٹے، آگے بڑھنے سے ہوتا ہے۔ آگے بڑھو اور ان ظالموں کا مقابلہ کرو۔ تم جیسے نوجوان اگر ان کے مقابلے میں آئیں گے تو ان بھارتی فوجیوں کی ہمت نہیں ہوگی کہ ہم پر حملہ کریں اور ہماری مائوں، بہنوں کی تذلیل کریں اور ان کو شہید کریں۔‘‘
اب وہ قدرے سنبھل چکا تھا۔ انکل شہباز کی باتیں اسے اچھی لگنے لگیں اور اس کی ہمت بڑھنے لگی۔ اس موقع پر اُس نے فیصلہ کیا کہ ان بھارتی فوجیوںکا مقابلہ کریں گے جنہوں نے ہمارے ملک پر قبضہ کیا ہے، جنہوں نے ہمارے حقوق سلب کیے ہیں، جنہوں نے ہمارے گھروں کو ویران کردیا ہے۔
پھر وہ آگے بڑھتا گیا اور دشمن کی صفوں کو چیرتا گیا۔ اس نے دشمن کی نیندیں اڑادیں لیکن کسی بے گناہ پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور نہ ہی کسی بھارتی فوجی کی ماں، بہن اور بیوی کو مارا، نہ ہی ان کی تذلیل کی، بلکہ اُن سے لڑائی کی جو اُس کے مقابلے میں آئے۔ اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیا کہ کسی عام شہری کو قتل مت کرنا،کسی عام شہری پر ہاتھ مت اٹھانا۔
بلال مجاہدین کا کمانڈر بن گیا۔ اس نے بھارتی فوج کی صفوں میں کھلبلی مچادی۔ وہ بھارتی فوجیوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا۔ اس کے سر کی قیمت لگائی گئی۔ بھارت نے ہر طرف اپنے کارندوں کو پھیلادیا تاکہ بلال کو پکڑا جا سکے۔ چھاپہ مار کارروائیاں کی گئیں، کرفیو نافذکیا گیا، لیکن ہر دفعہ انہیں ناکامی ہوئی۔
……٭……
میجر راجیش کمار پارک میں بیٹھا کسی سے فون پربات کررہا تھا کہ یکایک دروازہ کھلا اور سپاہی راہول ہانپتا ہوا آیا۔
’’سر! ابھی ابھی یہ اطلاع ملی ہے کہ بلال رام پور کی جانب آرہا تھا اور اس کے ساتھ کوئی اور نہیں ہے، وہ اکیلا ہے۔‘‘
یہ سننا تھا کہ میجر راجیش کمار کی باچھیں کھل گئیں، کیونکہ یہی موقع تھا کہ اس کی ترقی ہوجاتی اور اس کا گریڈ بڑھایا جاتا۔
’’کم آن! سپاہیوں سے کہو کہ فوراً گاڑیوں میں بیٹھ جائیں اور رام پور کی جانب چلیں، جلدی‘‘۔ راجیش کمار نے چلاّتے ہوئے کہا
’’لیکن یاد رکھنا، زندہ پکڑنا، مارنا نہیں اسے۔‘‘
بلال تیز تیز قدم اُٹھاتا رام پور کی طرف جارہا تھا کہ اچانک آواز آئی ’’ہلنا نہیں، تمھیں ہر طرف سے گھیرا جاچکا ہے، بصورتِ دیگر تم پر فائرنگ کی جائے گی‘‘۔ اسپیکر کے ذریعے اعلان کیا گیا۔
بلال کے لیے خاصی پریشان کن صورتِ حال تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے! اچانک اس کے ذہن میں آئیڈیا آیا اور اس نے فوراً بندوق کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ٹریگر دبا دیا۔ انھیں فائرنگ کی توقع نہیں تھی، وہ اس اچانک فائرنگ سے بوکھلا گئے اور کئی بھارتی فوجی جہنم واصل ہوگئے۔ لیکن اسی اثناء میں بائیں جانب سے ایک سنسناتی ہوئی گولی آئی اور بلال کے گھٹنے میں پیوست ہوگئی۔ بلال گر پڑا اور اس کے گھٹنے سے خون بہنے لگا۔ اس کی ہمت جواب دے گئی، وہ مزید مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔
آخرکار بلال کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا اور جیل منتقل کردیا گیا۔
……٭……
بلال کو بہت سخت سزا دی گئی تھی۔ اس کے ناخن پلاس کے ذریعے نکالے جا چکے تھے، اس کی آنکھوں کو زخمی کردیا گیا تھا، سخت سے سخت اذیت دی گئی تھی، مگر بلال ان سب اذیتوں اور صعوبتوں کے باوجود ثابت قدم رہا اور اس نے عزم و استقلال کا مظاہرہ کیا۔ وہ باطل کے آگے سرنگوں نہیں ہوا، اس نے ہمت اور حوصلہ نہیں ہارا تھا، وہ پہاڑ کی طرح اپنے مقصد سے چمٹا ہوا تھا، کیوںکہ وہ جانتا تھا کہ وہ حق پر ہے، اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا، اس کا ضمیر مطمئن تھا۔
’’تم لوگ صرف پیسے کی خاطر لڑتے ہو، مگر ہم اپنے ملک کی آزادی کی خاطر لڑتے ہیں۔ ہمارا مقصد آزادی کا حصول ہے‘‘۔ بلال میجر راجیش کمار سے کہہ رہا تھا۔ ’’’تم لوگ بزدل اور ڈرپوک ہو، تم مردوں سے مقابلے کی سکت نہیں رکھتے، عورتوں سے لڑتے ہو، لیکن ہم لوگ تمھاری عورتوں پر ہاتھ نہیں اُٹھاتے، ان کی تذلیل نہیں کرتے، بلکہ تم جیسے خبیثوں سے لڑتے ہیں، تم لوگوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلاتے ہیں۔‘‘
’’بس کر ابے او مسلّے، ورنہ تیرا جسم گولیوں سے چھلنی کردوں گا‘‘۔ راجیش کمار کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا، وہ مزید کچھ سننا نہیں چاہتا تھا۔
’’ہم گولیوں اور دھمکیوں سے نہیں ڈرتے، اگر ہم گولیوں اور دھمکیوں سے ڈرتے تو تمھاری بربادی کا مشن لے کر نہ نکلتے‘‘۔ میجر راجیش کمار کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اس نے فوراً فائر کرکے کئی گولیاں بلال کے جسم کے آر پار کردیں، بلال دھڑام سے نیچے گر گیا، اس کے لہو کے قطرے فرش کو رنگین کرگئے، لیکن اس کا مسکراتا چہرہ یہ پیغام دے رہا تھا کہ ایک جان کیا، ہزار جانیں ہوں وہ بھی اپنی وادی پر قربان کردیں گے۔
٭٭٭

غیبت کا انجام

حذیفہ عبداللہ
موسم سرما کی تعطیلات کے بعد جب علی اسکول پہنچا تو اس نشست کے ساتھ ہی ایک نیا بچہ بیٹھا ہوا تھا علی نے نئے ساتھی سے تعارف حاصل کیا ہی تھا کہ کلاس ٹیچر داخل ہوئے اور علی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ علی بیٹا یہ آپ کا نیا ساتھی ہے اور ان کے والد کا حال ہی تبادلہ ہوا ہے اور آپ کے شہر میں آئے ہیں اس کا نام امجد ہے آپ کو امجد پر خصوصی توجہ دینا ہے تاکہ وہ گزشتہ چھ ماہ کے نصاب کو مکمل کر سکے آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے ویسے بھی آپ اس کے کلاس راہنما ہیں کیونکہ مانیٹر ہونے کے باعث ہر طالب کی معاملات پر توجہ دینا آپ کی ذمہ داری ہے۔
علی کو امجد کی صورت میں ایک نیا دوست مل گیا امجد کی رہائش بھی علی کے محلے میں ہی تھی اس طرح دونوں اسکول کے علاوہ کھیل کے میدان میں بھی ساتھ ہوتے ساتھ کھیلتے ساتھ پڑھتے اور ساتھ ہی اسکول جاتے۔ کچھ ہی دنوں میں علی نے محسوس کیا کہ امجد ایک ذہین طالب علم تو ہے لیکن اس میں ایک خراب عادت ہے اور وہ ہے دوسرے ساتھی کی عدم موجودگی میں ان کی برائی کرنا عیب نکالنا اور خرابیوں کو مزے لے کر بیان کرنا علی نے امجد کی توجہ اس خرابی کی طرف دلاتی تو امجد نے کہا کہ میں تو وہ ہی بات بیان کرتا ہوں جو اس فرد میں ہوتی ہے اور یہ کوئی غلط بات نہیں ہے علی نے کہا آپ کا یہ عمل غیبت ہے اگر کسی فرد میںوہ بات نہ ہو جو آپ بیان کر رہے ہیں تو بہتان ہوا۔ غیبت سے دوریاں ہوتی ہیں، دوستیاں ختم ہو جاتی ہیں اس سے اصلاح نہیں ہوتی ظاہر غلط عمل کا نتیجہ غلط ہی آتا ہے اور غیبت کرنے والا تنہا ہو جاتا ہے امجد علی کی بات کسی طور پر سمجھنے کو تیار نظر نہیں آرہا تھا اور اس نے اپنے عمل سے اس بات کو ثابت بھی کیا امجد کے اس فعل سے کئی دوستوں میں لڑائی ہوئی، اختلافات پیدا ہوئے اور جب درست بات سامنے آئی تو ہر لڑائی اور فساد کے پیچھے امجد کا ہاتھ کار فرما تھا رفتہ رفتہ امجد سے علی ہی نہیں بلکہ دیگر دوست بھی دور ہوتے گئے اور امجد تنہا ہوتا چلا گیا اب لوگ اس کی درست بات سننے کو بھی تیار نہیں تھے۔ علی نے کلاس مانیٹر ہونے کے حوالے سے کلاس ٹیچر کو صورتحال سے آگاہ کیا کلاس ٹیچر نے اگلے روز کلاس میں غیبت کے نقصانات پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غیبت ایک ایسا عمل ہے جس سے معاشرے میں خرابی پیدا ہوتی ہے، دوریاں بڑھتی ہیں دوستی دشمن میں بدل جاتی ہے لہٰذا ہر فرد کو اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ اپنی کسی بات سے ایسا تو نہیں کر رہا اگر ایسا کر رہا ہے تو وہ معاشرے کا ہی نہیں بلکہ اللہ کے نزدیک گناہ گار ہے۔
تمام بچے کلاس ٹیچر کی گفتگو بڑے غور سے سن رہے ہیں امجد بھی اپنے دل میں پشیمان تھا اسے احساس ہو چکا تھا کہ اس کی ایک بڑی عادت خرابی کا سبب بن رہی ہے۔
کلاس کے اختتام پر امجد نے کلاس ٹیچر سے ملاقات کی اور اعتراف کیا کہ اس کی ایک غلط عادت سے کلاس میں خرابیاں ہوئیں اور وہ وعدہ کرتا ہے کہ آئندہ ایسی کوئی بات نہیں کرئے اور خود کو معاشرے کا ایک بہتر بنائے گا۔
٭٭٭

نماز کی پابندی

ارم فاطمہ
گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں۔ نائلہ اور رمیز چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے ہی پلان بنا چکے تھے کہ ان چھٹیوں میں وہ اپنے وقت کو کیسے بہترین طریقے سے کام میں لائیں گے۔ چونکہ ان چھٹیوں میں ان کا اپنی نانی جان کے پاس راول پنڈی جانے کا ارادہ تھا اس لیے انہوں نے سوچا کہ پہلے ایک مہینے میں وہ اپنی چھٹیوں کا ہوم ورک روزانہ باقاعدگی سے کرکے ختم کرلیں گے اور پھر نانی جان کے گھر جا کر خوب مزے کریں گے۔
صبح ناشتے کے بعد ایک گھنٹہ ٹی وی دیکھتے اور پھر پروگرام کے مطابق اپنا ہوم ورک کرتے تھے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد رمیز کچھ دیر کے لیے گراؤنڈ میں کھیلنے چلا جاتا تھا اور نائلہ ٹی وی پروگرام دیکھتی یا پھر امی کے ساتھ گھر کے کام کرواتی تھی۔ اس طرح انہوں نے اپنے ترتیب دیے ہوئے پروگرام کے مطابق ایک مہینے میں اپنا چھٹیوں کا تمام کام مکمل کرلیا اور یہ فیصلہ کیا کہ آخری پندرہ دنوں میں امتحان کی تیاری کریں گے۔
جب وہ اپنی نانی جان کے گھر پہنچے تو وہ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ انہوں نے پوچھا کہ ان کی پڑھائی کیسی جارہی ہے تو وہ دونوں خوش ہوکر بتانے لگے کہ انہوں نے یہاں آنے سے پہلے ہی اپنا کام ختم کرلیا ہے۔
وہ بہت خوش ہوئیں اور انہیں شاباش دی۔
فجر کی آذان ہورہی تھی۔ نانی جان نماز پڑھنے کے لیے وضو کرنے اٹھیں تو انہوں نے دیکھا وہ دونوں بے خبر سورہے تھے۔ انہوں نے آواز دی اور ہلایا کہ اذان ہو رہی ہے۔نماز کا وقت ہورہا ہے۔ وہ دونوں آنکھیں ملتے کروٹ بدل کر سوگئے۔ صبح ناشتے کی میز پر انہوں نے ان سے پوچھا” صبح جب تمہیں نماز کے لیے اٹھارہی تھی تو کیوں نہیں اٹھے آپ لوگ ؟
ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ” ہم سے صبح جلدی نہیں اٹھا جاتا ” وہ کہنے لگیں ” اس کا مطلب تم دونوں نماز نہیں پڑھتے ؟ نائلہ کہنے لگی ” جب ہوم ورک کرلیتے ہیں اور امی نماز پڑھ رہیں ہوں تو ان کے ساتھ نماز پڑھ لیتی ہوں اور وہ بھی کبھی کبھی۔۔۔
انہوں نے رمیز کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگا ” میں ابو کے ساتھ جمعے کی نماز پڑھنے جاتا ہوں۔ ورنہ عام دنوں میں اسکول اور ٹیوشن کے بعد وقت نہیں ملتا کہ نماز پڑھ سکوں۔”
نانی جان کہنے لگیں ” نہایت افسوس کی بات ہے کہ تمہیں دنیا کے امتحان کی اتنی فکر ہے کہ اسے وقت پر پورا کرتے ہو اور آخرت کے امتحان کی بالکل پرواہ نہیں اس کی کوئی تیاری نہیں کرتے آپ لوگ۔۔ یاد رکھو
اگر آپ نماز کو وقت پر ادا کریں گے اور پابندی سے پڑھیں گے تو اس دنیا میں بھی کامیابی ملے گی اور آخرت میں پھی اللہ تمہارے مددگار ہوں گے”۔
رمیز اور نائلہ دونوں کے سر شرم سے جھکے ہوئے تھے۔ واقعی یہ تو انہوں نے سوچا پھی نہ تھا۔ دونوں نے نانی جان سے وعدہ کیا کہ اب وہ نماز کو سب سے زیادہ اہمیت دیں گے اور پابندی سے وقت پر نماز ادا کریں گے۔
نانی جان نے ان دونوں کو گلے سے لگالیا۔

حصہ