ہمہ جہت، ہمہ صفت اور فخر ادب فخرالدین بلے کی بازیافت کا سفر

577

خالد معین
دوسرا اور آخری حصہ
وہ جن لوگوں کے ساتھ رہا، جن کے ساتھ ہے۔جن سے علمی اورادبی موضوعات پر تبادلہ خیال کرتا ہے۔ ان سے مضامین لکھوائے جائیں تو بلے کے کئی نئے رخ سامنے آئیں گے۔ آ پ کو یاد ہوگا کہ بلے کے پاکستان چلے جانے کے بعد بھی مولانا حسرت موہانی سے ملاقات ہوتی تو وہ بلے کی خیریت کے حوالے سے ضرور پوچھتے تھے۔ وہ بلے کے قدردان کیوں تھے؟ یہ کون بتائے گا؟ بابائے اردو مولوی عبدالحق کوبلے میں کیا نظر آیا؟ ہم نہیں جانتے۔ جو ہوچکا، اس پر پچھتاوا بے سود ہے۔ ہمیں بلے کے اندر جو جہان آباد ہیں، انہیں دریافت کرنا ہوں گے۔ پھر بلے کا ایک شعر سناتے ہوئے بھائی قمر رئیس نے مجھے یہ بھی کہا کہ تم اسے شعر نہ سمجھنا بلکہ ایک سچائی ہے، جس سے بلے کی شخصیت اور فکر کی وسعتوں کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ شعر آپ بھی سُن لیں۔
ہے ایک قطرئہ خود ناشناس کی طرح
یہ کائنات مری ذات کے سمندر میں
ڈاکٹر فوق کریمی صاحب نے اپنی اس تحریر میں بلے صاحب کے کچھ بنیادی خدو خال واضح کر دیے ہیں ۔اس سلسلے میں اب بلے صاحب کے ایک اور رفیق علامہ سید غلام شبیربخاری کی جانب چلتے ہیں،وہ کہتے ہیں :
خوش لباسی ان کی خوش مزاجی کاآئینہ تھی۔طبیعت میں نفاست کوٹ کوٹ کربھری ہوئی محسوس ہوتی ۔جو ملے اسے اپنا گرویدہ بنالیتے ۔گفتگو میں طنز نہیں ،البتہ مزاح ضرور جھلکتاتھا۔دوسروں کو آگے بڑھتادیکھ کر جی اٹھتے ۔دل میں کسی کے لئے میل نہیں۔اعلیٰ ظرف ،دریا دل اور کشادہ نظر تھے۔تواضع ان کا خاصا اور مروت و رواداری ان کا شعار رہی۔خوش لباسی بھی عالم نوجوانی میں ان کی مقبولیت کاسبب بنی۔تھری پیس سوٹ،اور شوخ رنگ کی ٹائی۔ اس پر میچنگ شوز۔کبھی کبھار جواہر کٹ واسکٹ ،کرتہ شلوار، ۔شیروانی کے کالر والی بوشرٹ اور پینٹ۔شیروانی ۔کرتہ شلوار کے ساتھ کھسہ،میچنگ پینٹ شرٹ کے ساتھ میچنگ شوز۔زندگی کے آخری دور میں صرف سفید قمیض شلوار اور سفید شوزکو ترجیح دی۔
سرد موسم میں کالی،سفید یا سلیٹی رنگ کی چادر اوڑھنا پسند کرتے تھے۔ساتویں محرم الحرام کو سبزکرتا اور سفید شلوا راور دسویں محرم الحرام کو کالا کرتا اور سفید شلوار اُن کاپہناوا ہوتا۔یہ روایت عمر بھر برقرار رہی ۔ چلن ۔: فقیرانہ انداز : شاہانہ۔فکر:صوفیانہ ۔شیوہ:انسانیت سے محبت اور احترام ِ ِآدمیت
فطرت:مسکرانا۔برائی کابدلہ بھلائی سے دینا۔پریشاں حال لوگوں کی دلجوئی کرنا،بائیں ہاتھ کو خبردئیے بغیر دائیں ہاتھ سے ضرورت مندوں کی مدد کرنا۔مثبت پہلووں پر ہمیشہ نظر رکھا۔
شوق:کتب بینی ،بزم آرائی اورشب بیداری شعبے:علم و ادب،فنون ،ثقافت،تصوف،آثار قدیمہ،مذاہبِ عالم، تحقیق، سیاحت، معدنی وسائل، صحافت، تعلقات عامہ
محکمے:اطلاعات،تعلقات عامہ،سیاحت، پروٹوکول، آرٹس کونسل،سوشل ویلفئیر،بلدیات،وزارت مذہبی امور،وزارت ِ اقلیتی امور،اور وزارت سمندرپار اس ذاتی اور عمیق تجزیے نے بلے صاحب کی شخصیت کے کچھ مزید رنگ آشکار کیے ،تاہم ایک عالم ،شاعر ،ادیب ،ہمہ جہتی علمی و ادبی مصروفیات میں مبتلا رہنے والے ایک معروف اور اعلا سرکاری افسر کے پورے شخصی تشخص اور پورے تخلیقی کارناموں کو چند سطروں میں کیسے سمیٹا جا سکتا ہے ۔یہ بھی ٹھیک ہے کہ بلے صاحب پر اُن کی زندگی میں نام ور ادیبوں ،ناقدوں اور شعرا نے اُنہیں خراج ِ تحسین پیش کیا ،لیکن ایک بڑے سرکاری افسر کے لیے چاہے وہ کتنا ہی قلندرانہ مزاج کیوں نہ رکھتا ہو جو کچھ کہا جاتا ہے ۔اُسے ایک طبقہ منہ دیکھے کی تعریف سے تعبیر کرتا ہے ۔اس لیے اب جب کہ فخر الدین بلے صاحب موجود نہیں ،اُن کی تخلیقی شخصیت اور تخلیقی کاموں پر عہد ِ حاضر کے ناقد ین کو ایک نئے سرے سے توجہ دینی چاہیے ۔یہ بات بلے صاحب کے لیے بھی نیک فال ہوگی اور یوں نئی نسل کے لیے اُن کے تخلیقی قدو قامت سے آگہی کی صورت بنے گی ۔آنس معین کا جادو تو کم وبیش ابھی تک برقرار ہے ۔ اس باکمال نوجوان شاعر نے اپنے اندر بڑا گہرا سفر کیا ۔وہ اپنے باطن میں پُرشور دریا اور ظاہر میں خاموش سمندر کی طرح تھا ،مگر ساحل سے جانے اُسے کیوں بیر سا تھا ،شاید اسی لیے وہ اپنے ہی گرداب اور شدت ِ احساس کی نذر بھی ہوگیا ۔آنس معین جب تک جیا ذات کے گہرے ادراک سے گزرا اور آگہی کی آگ میں جلتے ہوئے جدید لہجے کے کئی جان دار شعر قرطاس پر اتار کے ایک دن اچانک سب کو حیران کرتا ہوا، اپنے جسم و جاں کے تمام عذابوں سے بے نیازانہ گزر گیا ۔
آنس معین جدید شعرو ادب کا ایک ایساقابل ِ توجہ حوالہ ہے ،جو فخر الدین بلے کے ذکر کے بغیر اُدھورا تصور کیا جائے گا ۔آنس کی غزل کے تیور حیرت انگیز طور پر بلے صاحب کی غزل کے تیوروں کے قریب نظر آتے ہیں ۔اس بات کی گواہی بلے صاحب کی غزل میں بہ درجہ اُتم موجود ہے ۔
میں کیا بتائوں کہ قلب و نظر پہ کیا گزری
کرن نے قطرہ ء شبنم میں جب شگاف کیا
(فخر الدین بلے)
میں اپنی ذات کی تنہائی میں مقید تھا
پھر اس چٹان میں اک پھول نے شگاف کیا
(آنس معین )
ویسے تو بلے صاحب قادرالکلام شاعر ہیں اور اُنہوں نے غزل کے علاوہ نظم اور دیگر اصناف پر بھی بھرپور طبع آزمائی کی اور ایک سطح پر ہر صنف میں اپنی مخصوص انفرادیت کے نشان بھی چھوڑے ہی ،تاہم غزل میں اُن کی تخلیقی شخصیت کے رنگ شاید سب سے زیادہ نمایاں ہیں ۔فخر الدین بلے صاحب پر مذکورہ چند سطور یقینا اُن کے مجموعی تخلیقی سفر اور اُن کی شناخت کا مکمل احاطہ تو نہیں کرتیںمگر نئی نسل کے لیے ایک بنیاد ضرور فراہم کرسکتی ہیں ۔میں اپنے دوست اور بڑے بھائی ظفر معین بلے کا ممنون ہوں ،جنہوں نے میری توجہ اس جانب دلائی اور بلے صاحب کے فن اور شخصیت کے حوالے سے کچھ بنیادی رہ نمائی بھی فراہم کی ۔یہاں تک آتے آتے پوری تشفی تو خیر ابھی نہیں اور مزید گفت گو کا دل چاہتا ہے ،تاہم طوالت کا خوف بھی دامن گیر ہے ۔اس لیے بہتر ہے کہ ان سطور کا اختتام جمعرات 29 جنوری 2004ء میں جہان ِ فانی سے کوچ کرنے والے فخر الدین بلے صاحب کی ترو تازہ اور عصر ِ حاضر سے جڑی ہوئی غزل کے منتخب اشعار پر کیا جائے اور آپ سے اجازت طلب کی جائے۔آئیے ! بلے صاحب کے شعروں سے لطف اندوز ہوں اور اُن کی تلاش کے مکمل سفر کو مزید اُبھاریں ۔

ہے آب آب موج بپھرنے کے باوجود
دنیا سمٹ رہی ہے بکھرنے کے باوجود
میں اس مقام پر تو نہیں آگیا کہیں
ہوگی نہ صبح رات گزرنے کے باوجود
الفاظ و صوت و رنگ و تصور کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
ہے میرا سوچ سفر فلسفے کے صحرا میں
ہوا کے دوش پہ جیسے کوئی پتنگ چلے
کسی کا ہو کے کوئی کس طرح رہے اپنا
رہ ء سلوک پہ کیسے کوئی ملنگ چلے
وہ حال پوچھنے آئے تو میں خموش رہا
سوال خوب تھا لیکن جواب کیسا ہے
میں جانتا ہوں مگر تُو بھی آئینہ لے کر
مجھے بتا کہ مرا انتخاب کیسا ہے
اب شب ِ غم اگر نہیں نہ سہی
دامن ِ برگ ِ تر نہیں نہ سہی
دشت ِ پیما کے آس پاس اگر
کوئی دیوار و در نہیں نہ سہی
ہر نفس ایک تازیانہ ہے
آہ میں کچھ اثر نہیں نہ سہی
میں کیا بتائوں کہ قلب و نظر پہ کیا گزری
کرن نے قطرہ ء شبنم میں جب شگاف کیا
گُل ہائے رنگ رنگ روش در روش ملے
دامن ہی آرزو کا مری تنگ رہ گیا
عجائبات کی دنیا میں کچھ کمی تو نہیں
یہ ہو بھی سکتا ہے مجھ سا کوئی ہوا ہی نہ ہو
صبح کا انتظار ہے لیکن
بے یقینی ہے اعتبار کے ساتھ
میرے گھر میں بھی کہکشاں کی طرح
ربط قائم ہے انتشار کے ساتھ
پیڑ نعمت بہ دست و سر خم ہیں
ہے تفاخر بھی انکسار کے ساتھ

حصہ