سوشل میڈیا اور ابلاغ فحش کی لامحدود سرحدیں

760

پاکستان کی حدود میں گذشتہ ہفتہ بھر میں ہونے والے چند رپورٹ شدہ واقعات کی شرمناک خبروں پر ایک نظر ۔’’کوہاٹ میں شادی سے انکار پر طالبہ کا قتل‘‘۔ ’’کوئٹہ میں 13سالہ لڑکی سے زیادتی اور قتل کے جرم میں اُس کا بھائی گرفتار‘‘۔ ’’لاہور میں باپ کی بیٹی سے زیادتی‘‘۔’’ہری پور میں لڑکے سے پانچ افراد کی زیادتی۔‘‘اور پھر’’ملک میں زلزلے کے شدید جھٹکے۔ لوگ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔‘‘ایسا لگا کہ کہیں زمین نے تو اپنا غصہ نہیںدکھا دیا ، اگر اپنی روش نہیں بدلی تو کیا یہ اُس عذاب کا سگنل تو نہیں جو غافل اقوام پر نازل ہوتا رہا۔قرآن مجیدمیں تو اللہ نے واضح الفاظ میں حکم سنا دیا کہ ’’ اگر تم نہیں تو پھر کسی اور قوم کو اٹھائے گا ‘‘ عاد و ثمود ، قوم لوط و دیگر کے انجام کوہمارے لیے بار بار عبرت کی جانب متوجہ کیا گیا ہے ۔سورۃ النورمیں بہت واضح طور پر فرمایا گیا کہ ’’ جو لوگ چاہتے ہیںکہایمان لانے والوں کے گرو ہ میں فحش پھیلے وہ دنیا و آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں ۔‘‘
ہمارا عمومی موضوع تو سوشل میڈیا کا ایک راؤنڈ اَپ ہوتا ہے ، جس میں اس ہفتہ شاہ رخ جتوئی کی دوبارہ سپریم کورٹ کے حکم پر گرفتاری کا معاملہ شامل رہاجس کے ضمن میں عدلیہ کے کردار کو جہاں سراہا گیا وہاں دیگر مثالوں کو بھی یاد دلا کر متوجہ کیا گیا ۔ویسے اس پورے ایشو میں سوشل میڈیا پر مچائے گئے شور کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔پاکستانی معاشرے میں جہاں طاقتور اور کمزور طبقات کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے اُس میں سوشل میڈیا پر دل کھول کر ’’بھڑاس ‘‘نکالنے کے کچھ تو فوائد ضرور نظر آئے ۔اسی دوران مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی کی جانب سے اپنے قائد کی محبت کے نشے میں ڈوب کر عدلیہ کے خلاف کی گئی ہرزہ سرائی پر بالآخر سپریم کورٹ آف پاکستان سے توہین عدالت پر سخت سزا سنا دی گئی ۔کمرہ عدالت کے باہر اُن کے ساتھ پولیس سلوک کی ویڈیو نے خاصے تبصرے جنم دیے اور ایک جانب ہمدردی کی صدائیں تو ایک جانب عدلیہ کے وقار کی بلندی پر ستائش تو ایک جانب نہال ہاشمی کی کمزوری اور کراچی سے تعلق پر بھی باتیں کی گئیں ۔ان سب میں مقبول الذکر یہ سوال تھا کہ دیگر اداروں اور طاقتور سیاست دانوں کی باری کب آئے گی؟ماضی کی کئی مثالیں لوگ ڈھونڈ ڈھوند کر یاد دلانے لگے۔یہ ایک خاص بات ضرور میں سوشل میڈیا کی قرار دیتا ہوں کہ کسی بھی ایشو پر عوام کو ثبوتوں کے ساتھ ماضی کے کیسز ضرور یاد دلا دیتا ہے ۔ٹوئٹر پر تو ملک بھر کا ٹپ ٹرینڈ رہا ۔جاوید چوہدری نے اپنی ایک مختصر ٹوئیٹ میں ایک چینی کہاوت بیان کرتے ہوئے کہاکہ ’’ بندر کو ڈرانے کے لیے مرغی کو قتل کر دو۔‘‘اسی طرح ’’ عقلمند کو اشارہ کافی ‘‘ کی ضرب الامثل بھی اس ٹرینڈ کے ساتھ پوسٹوں میں خاصی وائرل رہی ۔ہمیشہ کی طرح ماروی سرمد جیسے طبقات کو اس پر بھی آگ لگی اور انہیں کچھ نہیں ملا تو ’’ مولوی خادم حسین کی وفائے رسول ﷺ مارچ میں کی گئی ایک تقریر کا ٹکڑا شیئر کراتے ہوئے یاد آ گیا کہ اُنہیں کب سزا دی جائے گی‘‘، چونکہ ماروی سرمد جیسوں کو عقیدہ رسالت چھو کے بھی نہیں گزرا تو وہ عشق رسالت ﷺ کی سرحدوں کا تصور ہی نہیں کر سکتیں ، اسلیے سوشل میڈیا پر سیاق و سباق سے علیحدہ کلپس شیر کر کے اپنے شیطانی آقاؤں کے مشن پر عمل پیرا ہیں ۔بہر حال عدلیہ ان ایکشن والا معاملہ آگے بڑھا اور بات نہال ہاشمی سے ہوتی ہوئی دو حکومتی وزراء طلال چوہدری (داخلہ)اور دانیال عزیز (نجکاری)تک جا پہنچی جنہیں سپریم کورٹ نے توہین عدالت نوٹس جاری کر دیئے۔عوام نے عدلیہ کی شجاعت و بہادری پر داد دیتے ہوئے BravoSupremeCourtکا ہیش ٹیگ شروع کیا جو کہ تادم تحریر ٹرینڈ لسٹ میں نہیں آیا مگر غالب ترین امکان ہے کہ یہ ہیش ٹیگ بھی مقبول ترین ٹرینڈ بن جائے گا۔مریم نواز شریف صاحبہ نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر نہا ل ہاشمی کی ڈی پی ( ڈسپلے پکچر) لگا کراپنے تینتالیس لاکھ ٹوئٹر فالوورز کو اپنی ٹوئیٹ سے یہ پیغام بھی دیا کہ ’’کیا کوئی عدالت ساٹھ ججوں کو بچوں سمیت گھروں میں قید کرنے والے، بالوں سے پکڑ کر چیف جسٹس کو گھسیٹنے والے کے ساتھ یہی سلوک کرنے کی ہمت رکھتی ہے ؟‘‘اس کے علاوہ سزا پر بھی خاصی بات جاری رہی۔ ایک اور موضوع جو زینب کیس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر وارد ہوا تھا ، وہ کراچی میں نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل اور قاتل ایس پی راؤ انوار کی عدم گرفتاری پر مبنی تھا۔31جنوری کو جرگہ ختم ہونے کے بعد گو کہ یہ موضوع ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ سے باہر آگیا لیکن اگلے ہی دن پشتون لانگ مارچ کے عنوان سے دوبارہ راؤ انوار کے لیے سخت اذیت کی صورت میں ابھر ا۔کراچی میں لگے جرگہ کے بارے میں خوب انفارمیشن، ڈس انفارمیشن، دلچسپ تجزیہ تبصرہ چلتے رہے کہ یہ سب زمین پر قبضہ کے لیے ہے ، راؤ انوار کے سرپرست جرگہ لپیٹنا چاہتے ہیں ،وغیر وغیرہ۔بہر حال جو کچھ سوشل میڈیا پر ظاہر ہو رہا ہے اُس کے مطابق دار الحکومت میں ہونے والا یہ لانگ مارچ اے این پی ( عوامی نیشنل پارٹی) کا پاور شو محسوس ہورہاہے اور خاصی تعصبانہ پوسٹوں کا ایک جامع سلسلہ اس ضمن میں جاری ہے ۔جاری ہے ۔زینب کے کیس میں تو مجرم پکڑا گیا تھا مگر یہاں مجرم تا حال مفرور ہے اس لیے تواتر سے جاری شور میں حکومت مخالف مواد بھی شامل ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سندھ کے وزیر پلاننگ و سابق وفاقی وزیر میر ہزار خان بجارانی اور اُن کی اہلیہ کی کراچی میں اُن کے گھر میں ہونے والی قتل کی لرزہ خیز واردات بھی ٹوئٹر ٹرینڈ میں شامل ہو کر موضوع بنی رہی جس میں پیپلز پارٹی کے ہر سطح کے ذمہ داران اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی تعزیتی بیانات شامل تھے۔
اِن سب پر بات ہو سکتی ہے مگر میرے نزدیک جو اول اذکر معاملہ ہے جس سے مضمون کی ابتداء کی ہے وہ کچھ زیادہ ضروری ہے ۔گذشتہ ہفتہ کراچی میں پیما کی دعوت پر معروف دانشور احمد جاوید صاحب تشریف لائے ہوئے تھے ، اُن کے ساتھ دو نشستوں میں شرکت رہی جس میں اُن کی گفتگو کا موضوع جدیدیت اور الحاد تھا ۔انہوں نے بہت واضح الفاظ میں بتایا کہ الحاد کاسیلاب کس حد تک ہمارے درمیان پنپناشروع ہو گیا ہے ، ’’الحاد کی دو معروف شکلیں عام ہیں جن میں پہلی شکل خدا کے وجود کو سرے سے نہ ماننے اور دوسری شکل اپنے معاملات زندگی میں خدا سے لا تعلقی کا اظہار ہے ،یعنی خدا گویا ہے ہی نہیں ۔نہ میں اس کے اقرار کے دلائل تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتا ہوں نا اس کے انکار کی لاجک وضع کرنے سے کوئی میرا لینا دینا ہے ۔یہ دو متوازی رویے ایک دوسرے کی کمک کرتے ہوئے ہماری طرف یلغار کر چکے ہیں ، ہماری حفاظتی فصیلوں میں نقب لگا کر ہماری تہذیبوں میں داخل ہو چکے ہیں اور صرف تہذیبوں ہی میں نہیں ہمارے باطنی احوال میں بھی اپنی آمیزش کر چکے ہیں۔‘‘آپ دیکھیں کہ خدا خوفی اور تعلق باللہ سے کٹے ہوئے معاشروں کی حالت زار کیا ہو جاتی ہے اور وہاں شیطانی تہذیب اپنے بنیادی ہتھکنڈے یعنی فحاشی ( بحوالہ سورۃ البقرۃ 169، وہ تمہیں بدی اور فحاشی کا حکم دیتا ہے )کو فروغ دیتا ہے ۔
ایک جانب آپ زینب اور اس سے قبل پھر موجودہ ذرائع ابلاغ پر آنے والے دلخراش واقعات ہوں ، پھر سوشل میڈیا پر ہمارے مارننگ شوز کے کلپس ہوں جنہیں دیکھ کر ہر ذی شعور انسان پکار اٹھے کہ واقعی یہ شیطانی تہذیب ہے جس میں سوائے فحاشی کے فروغ کے کچھ نہیں سکھایا جا رہا۔آئیں، ذرا ایک نظر نیویارک پوسٹ کی اس حالیہ رپورٹ پر ڈالتے ہیں جس کے مطابق’’ چائلڈ پورن ، فیس بک پر دوبارہ تیزی سے فروغ پا رہا ہے ۔فیس بک کے ٹول استعمال کرتے ہوئے بی بی سی نے بچوں کی سو فحش تصاویر فیس بک انتظامیہ کو رپورٹ کیں ، جس میں سے صرف18ہٹا دی گئیں ۔اس کے علاوہ فیس بک کو کوئی 5ایکٹیو فیس بک اکاؤنٹس کے بارے میں اُن کے قوانین کی رو سے واضح شکایت کی گئی کہ یہ لوگ ’’پیڈوفائلز ‘‘ ہیں ، مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔‘‘( پیڈو فائلز ، اُس ذہنی مرض کا نام دیا گیا ہے جس میں کوئی شخص کم سن بچوں سے جنسی خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے)۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے ایک اور اہم پلیٹ فارم انسٹا گرام کا ذکر بھی ہو جائے ، جس کا استعمال پاکستان میں بھی تیزی سے فروغ پا رہا ہے ۔اس وقت انسٹا گرام کے 800ملین یعنی 80کروڑ صارفین ہیں ،اور بی بی سی کی ہی تحقیق شدہ رپورٹ کے مطابق بچوں کی فحش تصاویر کا ایک بڑا اڈا بنا ہوا ہے اور باوجود شکایات کے وہ تصاویر جو خود اُن کے بنائے قوانین کے برخلاف ہیں ،ہٹائی نہیں جا رہیں۔ٹائم میگزین میں کریگ گراس ( بانی آئی پیرنٹ ٹی وی) کی تین سال قبل کی ایک رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ پر 20ملین یعنی دو کروڑ فحش سائٹس موجود ہیں۔رپورٹ کے مطابق ٹمبلر اور اسنیپ چیٹ نے جس طرح سے نوجوان نسل کو پورن و گرافی کی لت میں مبتلا کیا ہے اُس کا کوئی توڑ نظر نہیں آ رہا۔اُس رپورٹ کے مطابق اگر والدین خود اپنے بچوں کو اس کا مثبت استعمال نہیں سکھائیں گے توپھر خرابی کے راستے کھولیں گے ۔پاکستان میں آپ ٹرینڈ دیکھیں تو آپ کو یوٹیوب پر ، فیس بک پر سب سے زیادہ مقبول اور وائرل تصاویر اور ویڈیوز بھی وہی ملیں گی جن میں فحاشی و عریانی کا عنصر ’’چٹپٹے ‘‘اور ایسے انداز سے پیش کیا گیا ہو کہ بس آپ نے اُسے ہر حال میں دیکھنا ہے ۔اقوام متحدہ کی جانب سے 2009میں کیے گئے ایک سروے کے ہولناک اعداد و شمار شاید آپ کو کچھ سمجھا سکیں ۔ اس سروے نے دنیا بھر سے (بذریعہ انٹرنیٹ)چائلڈ پور نو گرافی کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی کا تخمینہ 20ارب امریکی ڈالر لگایا ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ چائلڈ پور نو گرافی دنیا بھرکے قوانین میں جرم ہے۔یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق20لاکھ بچے دنیا بھر میں مختلف انداز سے زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں ۔یہ تو ایک سر سری سی جھلک تھی اُن اعداد و شمار کی جو یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ کس طرح سوشل میڈیا سماجی رابطوں کی آڑ میں جنسی بے راہ روی بلکہ بدترین جنسی دہشت گردی کا سامان بناہوا ہے۔اب اس منظر نامے کو احمد جاوید صاحب کے بیانیے ، قرآن کے مطابق شیطان کے ٹول(فحاشی)، ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے پروگرامات ، پھر سوشل میڈیا کے کردار کو باہم جوڑیں تو بات سمجھ آجائے گی ۔یہ بھی الحاد کی جانب دھکیلنے کی ایک کامل، آزمودہ اور کامیاب شکل ہے جس کا مقابلہ ایمان، خوف آخرت ، خوف خدا کے سوا کسی اور سے شاید ممکن نہیں ۔اس پوری ’’سائنس‘‘ میں نہ کہیں خدا کا تصور ہے ، نہ کہیں خدا خوفی صرف شہوانی خواہشات و جذبات کی تکمیل اور اُس کے حصول کی کوششیں ہیں جن کی کوئی سرحد نہیں ۔حلال ، حرام ، جائز ناجائز، سگے سوتیلے ، بچے ، بچیاں سب اس کی لپیٹ میں آ رہی ہیں۔الحاد اور اس کی تیزی سے پھیلتی فکر کے سامنے ’’تصور خدا‘‘ اور ’’خوف خدا کا کلچر ‘‘عام کرنے کے لیے اس موضوع پر مزید اعداد و شمار و تحقیقات کے ساتھ آگہی کے لیے گفتگو جاری رہے گی ۔

حصہ