ترکی کی شامی کردستان میں فوجی کارروائی

271

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل
کرد مسلمان دنیا کی ایک بدقسمت قوم ہیں جو طویل عرصے سے اپنی شناخت کی تلاش میں ہیں۔ کردوں کے ایک گائوں میں حنوط شدہ لاشوں کی ایک تصویر عرصۂ دراز سے میڈیا پر دکھائی دیتی ہے جن پر سابق عراقی ڈکٹیٹرصدام حسین نے کیمیائی گیس سے حملہ کیا تھا اور وہ اپنے گھروں میں بیٹھے بیٹھے ناگہانی موت کا شکار ہوگئے تھے۔ میں جب دورِ طالب علمی میں کراچی میں رہتا تھا تو میری ایک کرد نوجوان سے ملاقات ہوئی تھی، جو اپنے خاندان کے ساتھ عراق سے ایران اور پھر پاکستان آگیا تھا اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (UNHCR) کے ساتھ رجسٹریشن کے لیے کوشاں تھا۔ اُس کی زبانی پہلی مرتبہ کردوں کی حالتِ زار سے آگاہی ہوئی۔ پھر جب میں پشاور میں ایک بین الاقوامی اسلامی فلاحی ادارے کے ساتھ طبی شعبے کے مدیر کے طور پر کام کررہا تھا تو بڑے پیمانے پر عراق سے کردوں کی نقل مکانی کی خبریں ملیں، جو صدام حسین کے مظالم کی وجہ سے ایران میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، جن کی طبی خدمات کے لیے ہم نے پشاور سے ایک میڈیکل مشن ایران بھجوایا، جس نے کئی ماہ تک وہاں کام کیا تھا۔ ان کے ذریعے بھی کردوں پر مظالم کی دل خراش داستانیں سننے کو ملیں۔ حالانکہ صدام حسین بھی عقیدے کے لحاظ سے سنی تھا اور کرد قوم بھی سنی ہیں، اس کے باوجود عراق کی حکومت نے، جو سوشلسٹ بعث پارٹی پر مشتمل تھی، ان پر عرصۂ حیات تنگ کیا ہوا تھا۔
کردوں کی آبادی اندازاً اس وقت 3 کروڑ 60 لاکھ سے زائد ہے اور اس وقت چار ممالک ترکی، ایران، عراق اور شام میں تقسیم ہے۔ اس پورے علاقے کو اس لحاظ سے کردستان کہا جاتا ہے، جس کا رقبہ 3 لاکھ 90 ہزار کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔ کردوں کے بعض گروہ ’’گریٹر کردستان‘‘ کے نام سے اس کی آزادی کے لیے مہم چلا رہے ہیں، جب کہ زیادہ سیانے افراد اپنے اپنے ممالک میں خودمختاری کے لیے کوشاں ہیں۔ چونکہ ان کی سب سے زیادہ آبادی اور رقبہ ترکی میں ہے اس لیے سب سے زیادہ مشکلات بھی اس وقت وہیں ہیں۔ حالانکہ ترکی کی دوسری بڑی پارٹی کردوں کی ہے جس کی پارلیمنٹ میں دوسرے نمبر پر نشستیں ہیں، اس کے باوجود کردوں کی آزادی کے لیے برسرپیکار {PKK مسلسل دہشت گردی میں ملوث ہے جس کی وجہ سے اس کو ترکی حکومت نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے اور اس کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔
گزشتہ کئی برسوں میں PKK کے حملوں اور کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور یہ پارٹی ترکی کے لیے مسلسل دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ اب بھی ترک فوج نے شام کے علاقوں میں گھس کر جو فوجی کارروائی کی ہے وہ اسی PKK کے خلاف مہم کا حصہ ہے۔
عراق میں صدام حسین حکومت کے خاتمے اور امریکی فوجوں کی مدد سے شیعہ قیادت پر مشتمل عراقی حکومت کے قیام کا سب سے زیادہ فائدہ کردوں کو ہوا، جنہوں نے عراق میں کردوں کے لیے ایک خودمختار حکومت قائم کرلی، جس کا دارالحکومت اربیل شہر کو بنایا گیا۔ امریکیوں ہی کی مدد سے باقاعدہ فوج بھی قائم کرلی۔ 2014ء میں جب شام اور عراق میں ایک نئی مسلح تنظیم ’’داعش‘‘ ظہور میں آئی جس نے کچھ ہی عرصے میں شام و عراق کے ایک وسیع و عریض علاقے پر اپنی حکومت قائم کرلی اور ابوبکر البغدادی کی قیادت میں اپنی خلافت کا بھی اعلان کردیا، اس کا بڑا نقصان کردوں کو بھی ہوا اور اُن کے کئی علاقوں پر وہ قابض ہوگئے اور رقہ کو اپنا ہیڈ کوارٹر قرار دیتے ہوئے کردوں کا قتل عام بھی کیا۔ لیکن کردش فوج نے ان کا مقابلہ کیا اور بالآخر ان سے اپنے علاقے آزاد کروا لیے۔ لیکن اب یہ پورا معاملہ ایک بین الاقوامی دنگل کی صورت اختیار کرچکا ہے جس میں ہمسایہ ممالک ایران، ترکی، سعودی عرب کے علاوہ امریکا، روس، فرانس، برطانیہ جیسی بڑی طاقتیں اپنی پوری قاہرانہ طاقت کے ساتھ موجود ہیں، جس میں کردوں کی حیثیت بھی ایک مہرے کی بن چکی ہے۔
گزشتہ برسوں میں جب شام میں برسراقتدار بشارالاسد کے خلاف ایک عوامی بغاوت کا آغاز ہوا اور کئی مسلح گروہ وجود میں آئے جس کے نتیجے میں شام بھی کئی حصوں میں تقسیم ہوکر عالمی طاقتوں کی عسکری کارروائیوں کی آماج گاہ بن گیا تو اس کا فائدہ بھی وہاںکی کرد قوم کو ہوا، اور اس نے اپنے آپ کو منظم کرکے ایک منظم فوج کی حیثیت اختیار کرلی، جس کو ایک بار پھر امریکیوں نے مسلح کیا، اور انہوں نے دیگر سنی مسلح گروہوں کے ساتھ مل کر شامی فوج سے لڑنے کے بجائے اپنے علاقوں کی آزادی اور خودمختاری کے لیے لڑائی لڑی۔ شامی کرد علاقے میں ایک مسلح تنظیم YPG معرضِ وجود میں آئی جس نے کچھ ہی عرصے میں شام کے کرد نوجوانوں کو منظم کرکے ایک بڑے علاقے میں اپنی عمل داری قائم کی، جس کا مرکز آفرین نامی قصبہ بنا، اور ان علاقوں میں ترکی کی سرحد سے متصل دیہات بھی شامل تھے۔ چونکہ سرحد پار ترکی کے کرد بھی پہلے سے اپنی خودمختار اور آزادی کے لیے سرگرداں تھے اس لیے ان کے رابطے ترکی میں کرد تنظیم PKK سے بھی قائم ہوئے، جس کی بنا پر ترکی حکومت نے YPG پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا۔
گزشتہ ہفتے شروع ہونے والی کارروائی میں ترک فوج کی معاونت شام کی آزاد فوج (SFA) کے رضا کار بھی کررہے ہیں۔ پہلے دُور مار توپوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعے YPG کے ٹھکانوں پر حملے کیے گئے جس سے خاصا جانی نقصان ہوا، اور پھر برّی فوج نے ٹینکوں کی مدد سے زمینی کارروائی کی اور کئی کلومیٹر تک کرد علاقوں میں گھس کر کئی دیہات پر قبضہ کرلیا جس میں بصریہ پہاڑی بھی شامل ہے جو آفرین علاقے میں ایک اہم مقام ہے۔ برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے نے، جو شام میں ہونے والے واقعات کی مانیٹرنگ کررہا ہے، دعویٰ کیا ہے کہ اب تک 30 کے لگ بھگ عام افراد اس جنگ کی نذر ہوچکے ہیں جب کہ YPG سے تعلق رکھنے والے 38 لڑاکا بھی کام آئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہYPG کے مزاحمت کاروں نے ترک فوج اور اس کے ہمراہ آنے والے شامی رضا کاروں کو بھی سخت نقصان پہنچایا اور 5 ٹھکانوں کو تباہ کرنے اور 43 فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جس کی ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو نے تردید کی ہے، البتہ 2 ترک فوجی افسران کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے جس میں سارجنٹ موسیٰ اوزلگان اور لیفٹیننٹ اوگوزکان اوستہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ YPG نے ترکی کے علاقوں میں راکٹ فائر کیے ہیں جس کے نتیجے میں 2 شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنے تعزیتی بیان میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ترکی اپنی ملکی سالمیت اور عوام کی حفاظت کے لیے لڑے گا اور ہر وہ کارروائی کرے گا جس سے دہشت گردی کو روکا جاسکے۔ دریں اثناء امریکا، یورپی یونین اور فرانس نے ترکی کی فوجی کارروائی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس کو شام میں داعش کے خلاف کارروائیوں کے منافی قرار دیا ہے۔ امریکا کے سیکرٹری دفاع جم میٹس نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فوجی کارروائی کو روکے کیونکہ اس سے شام کے نسبتاً پُرامن علاقے میں جنگی صورتِ حال پیدا ہوگی اور داعش کے خلاف بین الاقوامی برادری کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا جس میں خود ترکی بھی شامل رہا ہے۔ جبکہ ترکی کے خلیجی اتحادی قطر نے ترکی کی حمایت میں بیان دیتے ہوئے اس کو ترکی کا حق قرار دیا ہے کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے ہر قسم کا قدم اٹھا سکتا ہے۔ ترکی نے اس مہم کو ’’زیتوں کی شاخ‘‘ کا نام دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اُس کے اس اقدام کو روسی حکومت کی آشیرباد بھی حاصل ہے۔ جو پہلے سے اپنی فوجی اور فضائی قوت کے ساتھ شام میں بشارالاسد حکومت کے تحفظ کے لیے موجود ہے اور جس کے بمبار جہازوں نے شدید بمباری کرکے شامی شہروں کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اس دعوے کی تصدیق اب تک ماسکو نے نہیں کی ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ 3 کروڑ 60 لاکھ آبادی پر مشتمل کرد قوم جو تقریباً 3 لاکھ 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر پھیلی ہوئی ہے اور چار مختلف ممالک میں منقسم ہے، اپنی شناخت کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن بظاہر اس کا امکان نظر نہیں آتا کہ یہ ایک بڑے ملک کی حیثیت اختیار کرلے۔ ایران میں موجود کرد اس وقت نسبتاً پُرامن ہیں اور ان کو تمام شہری حقوق بھی حاصل ہیں، ان کی آبادی 67 لاکھ 30 ہزار کے لگ بھگ ہے اور وہ ایران کے صوبے کردستان، کرمان شاہ، مغربی آذربائیجان، ایلام اور شمالی خراسان میں پھیلے ہوئے ہیں اور زیادہ تر سنی مسلمان ہیں۔ 1946ء میں جنگِ عظیم دوم کے بعد مہا آباد شہر کی مرکزیت میں ایک کردش ریاست قائم ہوئی تھی جو ایک سال بعد ختم ہوگئی تھی۔ شاہ ایران کے خلاف آیت اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی کردوں نے بھی حمایت کی تھی، لیکن بعد میں ایرانی حکومت کی پالیسی سے بدظن ہوکر کرد رہنما ملا رابئی نے 1996ء میں کرمان شاہ سے احتجاجی تحریک شروع کردی تھی۔ اس وقت بھی ایک گروپ PJAK کے نام سے ان علاقوں میں سرگرم عمل ہے۔
جس طرح پہلے عرض کرچکا ہوں کہ کردوں کی سب سے بڑی آبادی ترکی میں ہے۔ اناطولیہ کے علاقے میں کرد اکثریت میں ہیں جن کی آبادی 2 کروڑ کے لگ بھگ ہے اور وہ مسلسل ایک عرصے سے ترک حکومت سے برسر پیکار ہیں، جب کہ عراقی کردستان جس کی آبادی 57 لاکھ 65 ہزار ہے، اربیل میں اپنی علاقائی خودمختار حکومت بنا چکا ہے اور اس وقت تک عراقی حکومت میں بھی اس کی نمائندگی موجود ہے۔ شام میں کرد آبادی سب سے کم یعنی 20 لاکھ ہے اور اس وقت اپنی خودمختاری کے لیے کوشاں ہے۔ اگر یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو اس طرح کم از کم 2 ممالک میں وہ اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ یہ پورا کرد علاقہ پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے اور قرآن میں طوفانِ نوح میں جودی نامی جس پہاڑی چوٹی کا ذکر ہے وہ پہاڑ بھی اس میں شامل ہے۔ اس میں تیل کے ذخائر بھی موجود ہیں جو ترکی کے ذریعے ہی فروخت ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ترکی کی حکومت کردوں کے معاملے میں اپنے سخت گیر رویّے پر نظرثانی کرے اور افہام و تفہیم کے ساتھ اپنے ملک کی دوسری بڑی نسلی اکائی کے ساتھ معاملات طے کرے، وگرنہ عالمی طاقتیں مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کا شغل جاری رکھیں گی۔

حصہ