رائو انوار سے غلطی ہوگئی

292

اوریا مقبول جان
پولیس مقابلوں میں دہشت گردوں کو مارنے والے راؤ انوار سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔ غلطی بھی ایسی جس نے اس کی دہشت گردی کے خلاف برسرِ پیکار ایک ’’عالمی شہرت یافتہ پولیس افسر‘‘ کی ’’شہرت‘‘ داؤ پر لگا دی۔ وہ اگر تھوڑی دیر صبر کر لیتا، نقیب اللہ کو مزید چند ماہ اپنی قانونی طور پر ’’غیر قانونی‘‘ حراست میں رکھ لیتا، دیگر لاپتا افراد کی طرح اس کی بھی خبر نہ ہونے دیتا، انتظار کرتا ہے کہ اس کے چہرے پر ایسی داڑھی بڑھ آئے جس سے وہ کسی مسجد کا خطیب یا موذن، کسی تبلیغی گشت پر نکلا ہوا شخص یا کسی مسجد میں مستقل خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے والا نظر آئے۔ اس کا وزیرستان سے ہونا ہی اس کے کردار کو مشکوک کرنے کے لیے کافی تھا۔ اس کو ایک ایسی شلوار بھی پہنائی جاسکتی تھی جو اس کے لمبے قد پر پوری نہ آتی اور لگتا کہ وہ مستقل شرعی حکم کی پابندی کا عادی ہے اور ٹخنوں سے اوپر اپنی شلوار رکھتا ہے۔ مسلسل قید تنہائی اس کے چہرے سے بشاشت چھین کر مردنی، خوف اور اذیت کے آثار پیدا کر دیتی۔ اسے اپنے مستقبل سے بے یقینی کا احساس نفسیاتی مریض بنا چکا ہوتا۔ ایسے تمام لوگوں کو جو ایک طویل عرصہ لاپتا ہونے کی فہرست سے اچانک نمودار ہوتے ہیں، ان کی داستانیں دل دہلانے دینے والی ہوتی ہیں۔ چھ فٹ لمبا اور پانچ فٹ چوڑا ایک سیل جس کے ایک کونے میں دو فٹ اونچی دیوار سے پردہ بنا کر باتھ روم بنایا گیا ہو تاکہ آپ رفع حاجت کرنے جائیں تو سامنے والے سپاہی کی نظروں سے اوجھل نہ ہو جائیں۔ آپ کو اس سیل میں لا کر پھینک دیا جائے اور دنیا بھر میں کسی کو بھی اس کی خبر نہ ہو کہ آپ کہاں ہیں۔ آپ کو بھی ایک عرصہ وہاں گزرنے کے بعد یقین سا ہونے لگے کہ آپ کی موت یہیں آئے گی۔ ایسے میں اگر آپ کو باہر نکال کر پولیس مقابلے میں مارنے کا فیصلہ کر دیا جائے تو موت آپ کے لیے اذیتوں سے نجات کا شاندار راستہ بن جاتی ہے۔ آپ کسی پیشی پر تو جا نہیں رہے ہوتے کہ پولیس والے آپ کو حلیہ درست کرنے کے لیے کہیں۔ آپ کو ایک ہولناک انجام کی طرف لے جایا جانا ہوتا ہے اور جب پولیس والے آپ کو ایک ویران جگہ پر گاڑی سے دھکا دے کر اپنی مغلظات بھری زبان میں کہتے ہیں کہ ’’بھاگ لو جتنا بھاگنا ہے‘‘ ایسے میں آپ اس تھوڑی سی مہلت میں پوری رفتار سے بھاگنا چاہتے ہیں لیکن کیا کریں، گولیوں کی رفتار آپ سے کئی گنا تیز ہوتی ہے۔ موت آپ کے تعاقب میں آپ تک پہنچ جاتی ہے۔ شاید یہی کچھ نقیب اللہ کے ساتھ ہوا ہوگا۔ لیکن راؤ انوار سے غلطی ہوگئی۔ اگر نقیب اللہ چند ماہ مزید حراست میں گزار لیتا تو اس کا چہرہ یقیناً اس شخص ضرور ملتا جلتا ہوتا جسے پاکستانی اور عالمی میڈیا ’’دہشت گرد‘‘ بنا کر گزشتہ سترہ سال سے پیش کر رہا ہے تو پھر راؤ انوار نقیب اللہ کی لاش پر پاؤں رکھ کر تصویریں بنواتا، اس کے چہرے کے کلوز اپ میڈیا کو پیش کرتا۔ سول سوساٹی اور میڈیا اسے داد دیے بغیر نہ رہتی کہ وہ ایک ایسا پولیس افسر ہے جس نے دہشت گردی کے خاتمے میں مثالی کردار ادا کیا ہے، اسی کی وجہ سے شہر میں امن قائم ہوا ہے، لوگ سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔
لیکن راؤ انوار سے غلطی ہوگئی۔ اسے اندازہ تک نہیں تھا کہ وہ سول سوسائٹی جو اسے داڑھی والے مولوی نما لوگوں کو پولیس مقابلے میں پار کرنے پر کچھ نہیں کہتی، وہ آج یقین ہی نہیں کررہی ہیں کہ اس نے ایک دہشت گرد مارا ہے۔ وہ سوچتا ہوگا کہ میں نے درجنوں مولوی نما لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر دعویٰ کیا کہ یہ دہشت گرد ہیں، ان کا طالبان سے تعلق ہے، یہ فلاں فلاں دھماکوں میں ملوث تھے۔ سب کے سب مجھ پر یقین کر کے گھروں کو لوٹ گئے اور چین کی نیند سو گئے۔ لیکن یہ ماڈل نما بالوں کی جدید تراش خراش والا نقیب اللہ، جو اپنی بچیوں کے ساتھ تصویریں بھی کھینچوا چکا تھا، ایسے شخص کو پولیس مقابلے میں مارنا تو گلے میں پڑ گیا۔ پوری ’’سول سوسائٹی‘‘ اس کے لیے کھڑی ہو گئی۔
شروع شروع میں جب کوئی مولوی مارا جاتا تھا تو مدرسے کے طلباء جلوس نکال لیا کرتے تھے لیکن اب تو بھلا ہو میڈیا کا اس نے ہم پولیس والوں کا کام اتنا آسان کردیا ہے کہ ہم کتنے ہی مولوی جیسی شکلوں والوں کو پولیس مقابلے میں پار کر دیں کوئی ایک حرف مذمت کا نہ منہ نکلتا ہے اور نہ تحریر کرتا ہے۔ سب ایک ہی تاثر لیے ہوئے ہیں ’’خس کم جہاں پاک۔‘‘
ایک زمانہ تھا جب پولیس مقابلوں کی خبریں ایسے لوگوں کے بارے میں آتی تھیں جنہیں پورا علاقہ جانتا تھا‘ لوگوں پر اُن کا خوف طاری ہوتا تھا‘ ہر کسی کو علم ہوتا تھا کہ فلاں ڈاکو کس دریا کے ساتھ والے بیلے میں اپنا ٹھکانہ بنائے ہوئے ہے، کون سا علاقہ ہے جہاں رات گئے تو کیا دن میں بھی گزرنے سے لوگ ڈرتے ہیں، شہر میں کسی کو بھی شراب، ہیروئن، چرس وغیرہ کی طلب ہو تو وہ کس شخص کے اڈوں سے میسر آسکتی ہے۔ ان لوگوں کے حلیے اور کردار اس دور کا واحد میڈیا ’’فلم‘‘ مصطفی قریشی اور سلطان راہی کی صورت میں پردۂ اسکرین پر پیش کرتا تھا۔ ایسے لوگ آج بھی دریاؤں کے بیلوں اور کچے کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی لیڈروں، وزیروں، زمینداروں، پتھارے داروں، نوابوں اور سرداروں کے ذاتی محافظوں میں شامل ہوتے ہیں لوگ ان سے ویسے ہی آج بھی تنگ ہیں لیکن بھلا ہو جمہوریت، الیکشن اور عوامی نمائندگی کا کوئی زبان نہیں کھول سکتا۔
اس وقت پورے پاکستان میں ہر ضلع میں مفرور ملزموں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اگر ہرضلع مفروروں کی تعداد صرف ایک ہزار ہی لگا دی جائے تو 108 اضلاع کے ایک لاکھ آٹھ ہزار مفرور بنتے ہیں۔ یہ یقیناً کم سے کم تعداد ہے کیونکہ صرف راولپنڈی ضلع کے مفروروں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی عظیم، مقدس، محترم، پاکباز اور اعلیٰ نسب پارلیمنٹ کے اراکین کے ذاتی گن مینوں اور گارڈوں کو روک کر اگر اسلام آباد کی پریڈ گراؤنڈ میں کھڑا کرکے تمام اضلاع کے پولیس افسروں کو وہاں بلایا جائے کہ اپنے اپنے علاقے کے مفرور چن لو تو اس ملک کے اضلاع کے آدھے سے زیادہ مفرور گرفتار ہو جائیں۔ باقی اسی پارلیمنٹ کے مفرور اراکین کے زیر اثر علاقوں کے پالتو بدمعاشوں، اسمگلروں، منشیات فروشوں اور پیشہ ور قاتلوں کے ڈیروں پر مل جائیں گے۔ بے شمار دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ممبر پارلیمنٹ کسی ڈی پی او کے دفتر میں کسی کام کی غرض سے جاتا ہے تو اس کی گاڑی میں دو تین مفرور اس کے گن مینوں کی صورت میں باہر موجود ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ ڈی پی او کو اس ممبر پارلیمنٹ نے وزیراعلیٰ سے خصوصی سفارش کر کے لگوایا ہوتا ہے اس لیے سب خاموش رہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ ڈی پی او اسے گاڑی تک چھوڑنے بھی آئے مفرورں پر ایک نظر ڈالے اور خاموشی سے اپنی ٹوپی سیدھی کرتا ہوا واپس چلا جائے۔
یہ تمام مفرور جنہیں میڈیا ایک زمانے سے فلمی کرداروں کی صورت ڈاکو، چور، قاتل، لٹیرے اور مفرور کے حلیے میں پیش کرتا رہا ہے۔ یہ سب آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ان کے ڈیروں پر آج بھی زینب جیسی معصوم لڑکیوں کے مجرموں کو مستقل پناہ ملتی ہے۔ یہ مفرور ڈیرے دار اپنے علاقے میں کسی بھی سیاسی مخالف کی بیٹی کو اٹھا لے جاتے ہیں، یہ اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارے پر لوگوں کو ایسے مارتے ہیں جیسے کوئی پرندہ۔ یہ سرعام گاؤں میں مخالفین کی عورتوں کو برہنہ کرکے بازاروں میں پھراتے ہیں۔ یہ سب آج بھی اکیس کروڑ کے اس ملک کے ہر گاؤں، قصبے اور شہر میں موجود ہیں، لوگوں کو خوفزدہ کیے ہوئے ہیں۔ لیکن ان سے پولیس مقابلہ کرنے کی جرات نہیں رکھتا، اس لیے کہ ہو سکتا ہے کوئی راؤ انوار کی طرح کا پولیس افسر ایسے ہی کسی شخص کے ڈیرے پر بیٹھا ہو اور وہی مفرور ڈیرے دار اپنے کسی سرپرست، ممبر پارلیمنٹ، وزیراعلیٰ، گورنر یا کسی اور سے اس کی سفارش کروا کر اس کا شاندار جگہ تبادلہ کروا رہا ہو۔ آج کے میڈیا کا قاتل، مجرم اور دہشت گرد ایسا شخص ہے جو داڑھی والا ہے، جس کے ماتھے پر محراب ہے، جس کی شلوار ٹخنوں سے اونچی ہے اور جس کی لاش پر راؤ انوار جیسا پولیس افسر پائوں رکھ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ ’’دیکھو! یہ دہشت گرد ہے، ظالم ہے، طالبان کا ساتھی ہے۔‘‘ خواہ اس کے گھر میں بھی نقیب اللہ جیسی ہنستی مسکراتی بچیاں باپ کی منتظر ہوں، وہ بھی ایک معصوم سا شہری ہو جو صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد رزق کی تلاش میں نکلا ہو۔ اس دفعہ راؤ انوار سے واقعی غلطی ہوگئی۔ کاش وہ مارنے سے پہلے نقیب اللہ کا حلیہ ہی بدل لیتا۔

حصہ