زینب کے قاتل عوام ہیں!۔

285

سید اقبال چشتی
فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ بنتا ہے لیکن یہ افراد پر منحصر ہے کہ وہ کون سا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں؟ کیو نکہ افراد ہی اپنے لیے ایک اچھے اور برے معاشرے کا انتخاب کرتے ہیں نیکی اور بدی کا منبع حکمران ہیں‘ جیسے حکمران ہوں گے ویسے ہی معاشرہ تشکیل پائے گا۔ بد قسمتی سے پاکستانی معاشرے نے ہمیشہ اللہ کی شریعت کے باغی لوگوں کا ہی انتخاب کیا اسی لیے پاکستانی معاشرے میں بگاڑ کی سب سے زیادہ اگر کوئی ذمے دار ہے تو وہ اس ملک میں رہنے والے عوام ہیں ہر بار اپنے اُوپر ایسے حکمران مسلط کر لیتے ہیں جو معاشرے کی اصلاح کے بجائے بگاڑ کا سبب بنتے ہیں اسی لیے علامہ اقبال نے عوام کو مخاطب کرکے کہا تھا

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

اپنے مقدر کی تبدیلی کے لیے قیام پاکستان کی جدوجہد کرنے والے بزرگ اور اپنا سب کچھ پاکستان کے لیے قربان کرکے ہجرت کرنے والے ابھی زندہ ہیں۔ اگر کسی بزرگ سے پو چھا جائے کہ ’’آپ نے پاکستان کس مقصد کے لیے ہجرت کی تھی؟‘‘ تو اُن کا یہی جواب ہو گا کہ ’’ہم نے اس لیے ہجرت کی تھی کہ یہاں اسلامی حکومت ہو گی‘‘ اسی لیے ہم یہ نعرہ لگاتے تھے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الااللہ‘‘ لیکن ستر سال گزرنے کے بعد بھی یہاں اسلامی حکومت کے قیام کا خواب پورا نہ ہو سکا‘ کیوں؟ اس کا جواب بھی عوام کے پاس ہے اس لیے کہ عوام نے خوشنما نعرے لگانے والوں کا ہمیشہ ساتھ دیا اور پھر ان سے اُمیدیں وابستہ کرلیں کہ اب ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ لیکن مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے گئے اور عوام ایک کے بعد دوسرے شکاری کا شکار ہوتے گئے اس امید پر کہ شاید یہ ملک اور قوم کی ترقی کے لیے کام کرے گا۔ لیکن نہ وردی والے نے عوام کے مسائل حل کیے اور نہ ہی شیروانی والے نے… بلکہ عوام کو محرومیوں کے تحفے دیے جس سے معاشرے میں بگاڑ اور فساد برپا ہوتا چلا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں برائی کا عنصر بڑھ گیا اور پاکستانی معاشرے میں جرائم کی شرح کم ہو نے کے بجائے بڑھتی گئی۔
ایک رپورٹ کے مطابق پا کستان کے چاروں صوبوں میں بچوں، بچیوں اور خواتین کے ساتھ 2014 سے لے کر 2017 کے آخر تک زیادتیوں کے 12661 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ سندھ میںسب سے اس قسم کے واقعات سب سے زیادہ ریکارٖڈ کیے گئے اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام نے چوروں کو ووٹ دیا تو معاشر ے میں چوری اور ڈکیتیاں بڑھ گئیں۔ عوام نے سود خوروں کو ووٹ دیا تومعاشرے میں سودی کاروبار کا کلچر عام ہو گیا۔ عوام نے زانی اور شرابیوں کو ووٹ دیا تو ملک میں حرام کاری کے ساتھ عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا۔ حال ہی میں لگاتار ہونے والے بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات پورے پاکستانی معاشرے کے اخلاقی زوال کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ انسان نما درندے پورے معاشرے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں لیکن ایک انسان کو درندہ بنانے میں معاشرے ہی کا کردار ہوتا ہے اسی لیے شاعر نے کہا ہے کہ

دنیا کو ہے پھر معرکہ روح بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا

یہ عوام ہی ہو تے ہیں جو بدعنوان لوگوں کو ایوانوں تک پہنچاتے ہیں اور پھر ان سے انصاف کی تو قعات با ندھ لیتے ہیں۔ بقول سید منور حسن ’’پاکستانی قوم پانچ سال تک اپنے حکمرانوں کو جھولیاں بھر بھر کر گالیاں دیتی ہے اور انتخابات کے مو قع پر پھر انہی کرپٹ حکمرانوں اور لوگوں کو ووٹ دیتی ہے اور پھر کیکر کے درخت سے آم کے ملنے کی منتظر رہتی ہے۔‘‘
دنیا جن کی اچھائی اور پاک دامنی کی گواہی دیتی ہے قوم اُن کو مسترد کر دیتی ہے۔ یقینا اچھائی اور برائی کا سر چشمہ حکمران ہیں‘ جیسے حکمران ہوں گے ویسا ہی معاشرہ تشکیل پائے گا‘ جہاں مجرم آزاد اور انصاف ناپید ہوجائے وہاں جرائم بڑھ جاتے ہیں اور پھر بچے بھی محفوظ نہیں رہتے‘ پھر مختلف واقعات پر عوام احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہیں مگر جب سوچنے سمجھنے کا وقت ہوتا ہے اُس وقت کوئی اچھائی کا ساتھ نہیں دیتا یہی وجہ ہے کہ معصوم زینب کے قتل پر ہونے والا احتجاج معاشرے میں تبدیلی کی آواز نہیں بلکہ غم اور غصے کا اظہار تھا کیو نکہ ظلم سے بھرے معاشرے نے ہی معصوم زینب کو قتل کیا ہے۔ ایک انسان کو درندہ بنانے میں بھی معاشرے ہی کا کردار ہے۔ زینب کے قتل کا جواب جہاں بے حس معاشرے کو دینا ہوگا وہیں حصول اقتدار کے لیے تڑپنے والوں کو بھی دینا پڑے گا کیونکہ ہمارے لیڈر کرپشن میں سر سے پائوں تک ڈوبے ہوئے ہیں‘ یہ لیڈران کرپشن کے ساتھ ساتھ جنسی اسکینڈل میں بھی ملوث ہیں۔ عمران خان پر ان کی پارٹی کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی نے الزام عائد کیا ہے کہ میرے لیڈر نے مجھے جنسی ہراساں کیا ہے بلکہ عائشہ گلا لئی نے Me Too کے لیے بھی ٹویٹ کیا ہے جو پوری دنیا میں عورتوں کو دعوت دیتی ہے کہ اگر آپ کے ساتھ جنسی ہراساں کیے جانے کا کوئی واقعہ ہوا ہے تو ME Too لکھ کر ٹویٹ کریں۔ اسی طرح نواز شریف کے حوالے سے معروف گلوکارہ طاہرہ سید کے اسکینڈل کی خبریں اخبارات کی زینت بن چکی ہیںاس کے علاوہ سابق حکمرانوں کے قصے الگ ہیں۔ طاقت کے بل بوتے پر خان، وڈیرے، چوہدری، سردار اور نام نہاد سیاست دانوں نے کیا عورتوں کو برہنہ کر کے انہیں سربازار رسوا کر کے تہذیب و تمدن کا جنازہ نہیں نکالا… اور تماشا دیکھنے والے چپ رہے کیونکہ معاشرہ بے حس ہوچکا ہے۔ جب لیڈران کی یہ حالت ہو تو معاشرے کے ایک عام فرد کی کیا حالت ہوگی۔ اس جگہ بھی عوام ہی کا قصور ہے کہ وہ عام انتخابات کے موقع پر بدعنوان حکمرانوں اور سیاست دانوں کے کرتوت بھلا کر ذات، برادری اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہو کر اپنے نمائندے کو چنتے ہیں‘ جنھیں معلوم ہو تا ہے کہ میں معاشرے کے سدھار کے لیے کچھ کروں یا نہ کروں میری جیت پکی ہے کیونکہ میری برادری اور میری زبان بو لنے والے میرے ساتھ ہیں۔
یہ بے حسی اور لاپروائی پا کستانی معاشرے میں کیسے آئی؟ ہم اسلامی نظام کی خواہش کے بجائے لبرل اور سیکولرازم کے پیچھے کیسے چلنے لگے…؟ میرے خیال میں پاکستانی عوام نے اس طرف کبھی سوچا ہی نہیں۔ زینب کے بہیمانہ قتل پر سوشل میڈیا اور کئی کالموں میں میڈیا کو قصوروار ٹھیرایا گیا لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا کہ میڈیا کا کام تو معاشرے کو تباہ کرنا اور پا کستانی معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی پھیلانا ہے کیونکہ یہ تمام میڈیا یہود اور نصاریٰ کے کنٹرول میں ہے اور میڈیا کی آزادی اور پروگرامات کا یہ اثر ہوا ہے کہ آج پاکستانی معاشرہ اپنے لباس، رہن سہن اور کھانے پینے سے لے کر شادی بیاہ تک کی رسومات میں ہندو اور مغربی کلچر کو پسند کرتا ہے۔ سیکولرازم کو پسند کرنے والوں کے ساتھ ساتھ جو لوگ اپنے آپ کو مذہبی کہتے ہیں وہ بھی اپنی شادی بیاہ کی رسومات ہندوانہ طریقوں پر کرتے ہیں۔ دس میں سے نو شادی کی محفلوں میں بھارتی گانے بجائے جارہے ہوتے ہیں‘ مخلوط محافل ہمارے معاشرے میں اب برائی نہیں سمجھی جاتیں‘ دلہن اسٹیج پر مہمانوں کے سامنے بھارتی گانے کی دھن پر کیٹ واک کرتی ہوئی آتی ہے۔ گانے سننا اب ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ داتا گنج بخش (داتا دربار لاہور) اپنی کتاب ’’کشف المجعوب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اللہ کا نبی تو آتا ہی آلات موسیقی کو توڑنے کے لیے ہے لیکن ہم نے اسلامی کلچر کو چھوڑ کر ہندوانہ کلچراپنی مذہبی رسومات میں بھی اپنا لیا ہے۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ کسی ہندو نے اپنی شادی کے موقع پر برکت کے لیے ہی سہی‘ قرآن کی تلاوت کروائی ہو‘ ہم سے اچھے تو عیسائی ہیں جو تمام تر اخلاقی گراوٹ کے با وجود اپنی شادی کی تقریبات اور رسومات گرجا گھر میں کرتے ہیں مگر ہم مسجد میں چند افراد کے سامنے نکاح اس لیے کرتے ہیں کہ مہندی کی تقریب میـں دُولھا دلہن ایک ساتھ بیٹھ سکیں اور محفل میں دلہن دولھا کے ساتھ بھارتی گانوں پر ڈانس کرسکیں۔ یعنی مذہب کو بھی ہم اپنے مطلب کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہم اسلام کو ماننے کے باوجود ہندوانہ رسم و رواج کو پروان چڑھا رہے ہیں‘ مہندی مایوں کی تقریبات میں بلند آواز میںبھارتی گانے لگانا اور پورے محلے کو تنگ کرنا بھی اخلاقی طور پر جرم ہے پھر میڈیا کو قصوروار ٹھیرانا کہاں کا انصاف ہے…؟ بسوں میں‘ گاڑیوں میں‘ گھروں میں اور چلتے پھرتے موبائل فون پر ہم کیا سن رہے ہیں‘ کیا دیکھ رہے ہیں اور بچوں کو کیا دکھا رہے ہیں…؟ ہم خود اخلاقی طور پر پسماندگی کا شکار ہیں۔ جب معاشرہ زوال پزیر ہو گا تو زینب کے ساتھ ہو نے والے واقعات ہو تے رہیں گے اس کی ایک مثال زینب کے واقعہ کے محض تین دن بعد چارسدہ میں معصوم بچی کے ساتھ اسی طرز کا ہو نے والا واقعہ ہے۔ (جاری ہے)

حصہ