کراچی اور قصور کے واقعات، ذمے دار کون؟۔

249

جمہوریت کی آڑ میں پاکستان کے بیشتر کرپٹ اور مفاد پرست سیاست دانوں نے ملک کے تمام اداروں کو کرپشن کے دلدل میں دکھیل دیا ہے۔ اس صورت میں کسی بھی ادارے کا ایمان داری اور قوانین کے مطابق چلنا ایک خواب ہی تو بنتا جارہا ہے۔ سیاست دانوں کی ڈراما بازیوں کو دیکھ کر اب مختلف سرکاری شعبوں کے کرپٹ عناصر بھی ایسا ہی کررہے ہیں۔ یہ بات پوری ذمے داری سے کہی جاسکتی ہے کہ ملک کا نظام روز بروز ابتر ہوتا جارہا ہے تو اس کے قصوروار قوم کے منتخب نمائندے ہی تو ہیں۔ ان نمائندوں کی بدولت ہی تو ایسی بے حس اور بے شرم جمہوری حکومتیں سامنے آتی ہیں۔
پنجاب کے ضلع قصور میںمعصوم زینب کے واقعے نے سب کو غم و غصے میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ کراچی میں بے لگام پولیس کے ہاتھوں نقیب اللہ ، انتظار اور مقصود کی ہلاکتوں نے سندھ پولیس کے پورے نظام پر سوال کھڑا کردیا ہے۔ لیکن نہ تو پنجاب کے حکمراں شرمسار ہیں اور نہ ہی سندھ کے حکمرانوں کو کوئی احساس ہے۔ جو سیاست دان حکومتوں سے باہر ہیں وہ ان واقعات کو اپنی سیاست چمکانے کا بہترین موقع جان رہے ہیں۔ چاروں طرف ڈرامے بازیوں کے سوا کچھ بھی نہیں چل رہا۔ قصور کی زینب کا قاتل پکڑا گیا تو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت 24 گھنٹے بعد میڈیا کے سامنے آکر خود اس خطرناک ملزم کی گرفتاری کا اعلان تالیوں کی گونج میں کیا۔ لیکن اس موقع پر مقتولہ زینب کے والد کو میڈیا کے سامنے اپنی باتوں کا اظہار کرنے سے روک دیا۔ حالانکہ ’’کچھ کہنے‘‘ کے لیے وزیر اعلیٰ نے مائیک خود ہی زینب کے والد کے حوالے کیا تھا۔ مگر ایسا لگتا تھا کہ جلد ہی شہباز شریف کو شک ہوا کہ کہیں زینب کے والد کوئی ایسے انکشاف نہ کردیں جس سے ان کی اور ان کی پولیس کی’’خفیہ پلاننگ‘‘افشا ہوجائے۔ اگر ایسا کوئی خوف نہ ہوتا تووزیراعلیٰ انتہائی پھرتی سے زینب کے والد کا مائیک بند نہیں کرتے۔
ملک کے دو شہروں میں رونما ہونے والے ان چار افسوس ناک واقعات کو دس سے تیس دن گزر چکے ہیں مگر ان سنگین جرائم کی تحقیقات میں اب تک کوئی غیر معمولی پیش رفت نہ ہوسکی۔ کراچی میں پولیس مقابلے میں سپر ہائی وے کے نقیب اللہ، شاہ فیصل کالونی کے مقصود اور ڈیفنس کے انتظار کی شہادت کے نتیجے میں نظم و ضبط اور غیر تربیت یافتہ مگر بے لگام ہی نہیں اسے چلانے والے حکمرانوں پر بھی سوال اٹھا دیا ہے کیوں کہ صوبائی حکومت نے خود ہی پولیس کے نظام کو درہم برہم کرکے رکھا ہوا تھا۔ آئی جی اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کی خواہش لے کر صوبائی حکومت جب اس کوشش میں مسلسل ناکام ہوئی تو انہوں نے آئی جی کے اختیارات ہی سلب کرلیے اور آئی جی کے تمام اختیارات ایک حکم کے ذریعے صوبائی وزیر داخلہ انور سیال کے حوالے کردیے۔ یہی نہیں وزیر موصوف کو پولیس ہیڈ آفس میں دفتر بھی الاٹ کردیا گیا۔ اس طرح نظم ضبط رکھنے والی فورس کو خود اپنے مسائل میں مبتلا کردیا گیا۔
نتیجے میں سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار اور ان کی ٹیم کے ہاتھوں نقیب اللہ کا پولیس مقابلے کے نام پر قتل ہوا تو حکومت کی جانب سے ذمے داری آئی جی پر ڈالنے کی کوششیں کی جاری ہیں جبکہ سچ تو یہ ہے کہ پوری سندھ پولیس کی براہ راست نگراں صوبائی وزیرداخلہ کررہے ہیں۔ انہیں وزیرداخلہ ایک اہم شخصیت کی بہن کی سفارش پر لگایا گیا جن کا کہنا تھا کہ ’’یہ اچھے محافظ ثابت ہوئے اور وہ خصوصی طور پر ان کے پرس کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ جب ذاتی اشیا کی حفاظت کرنے والے کو وزیر داخلہ بنادیا جائے گا تو پھر ان کے ماتحت پولیس وہی کچھ کرے گی جو وہ چاہے گی۔ وہ سب کیوں کرے گی جو قانون کے مطابق ہو… پھر ایسی پولیس کی فائرنگ کا نشانہ رکشے میںسوار مسافر مقصود ،کارسوار معصوم نوجوان انتظاراور سماجی و سیاسی کارکن نقیب اللہ ہی بنیں گے۔
ان واقعات کی شفاف تحقیقات کے لیے ضروری ہے کہ اے ڈی خواجہ یا ان جیسے افسران پر مشتمل تحقیقاتی بورڈ بنایا جائے جس کی نگرانی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جسٹس سے کرائی جانی چاہیے۔ یہ تحقیقات جتنی جلد ممکن ہو کر والی جائے تو بہتر ہوگا۔ فی الحال چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کیس کی رپورٹ طلب کی ہے لیکن حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیٹی واقعے میں ملوث رائو انوار او ر ان کی ٹیم کے کسی رکن سے پوچھ گچھ تو کجا ان کا بیان تک قلمبند کرنے میں ناکام ہے۔ یہ تحقیقاتی ٹیم اس قدر ’’معصوم‘‘ افسران پر مشتمل ہے کہ وہ اپنے دفاتر میں بیٹھ کر رائو انوار کا انتظار کرتے رہے جبکہ رائوانوار کراچی سے اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔ اگر اسلام آباد ائر پورٹ پر ایف آئی اے کے فرض شناس افسران نہ ہوتے تو آج رائو انوار دبئی پہنچ چکے ہوتے۔ لیکن اب بھی یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ رائو انوار ملک میں ہی موجود ہیں۔ اطلاع ہے کہ وہ جمعرات کی رات سندھ کی اہم سیاسی اور ملک کی سابق آئینی عہدے پر رہنے والی شخصیت کی پشت پناہی میں دبئی روانہ ہوچکے ہیں۔ حیرت اس امر پر ہے کہ رائو انوار اُس آئی جی پر الزامات لگارہے ہیں جن کی ماتحتی میں وہ ضلع ملیر کے ایس ایس پی کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ رائو انوار کی جانب سے آئی جی کے خلاف بیانات دینے سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پولیس سے زیادہ سیاسی شخصیات یا شخصیت کے اشارے پر سب کچھ بول رہے ہیں۔ رائو انوار اسلام آباد پہنچے اور انہیں کسی پولیس نے نہیںروکا کیوں؟ کیا اس لیے کہ وہ اب بھی ’’سوا لاکھ‘‘ کے ہیں۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ جب رائو انوار کو حکومت سندھ نے ملک سے باہر جانے کا اجازت نامہ جاری نہیں کیا تو پھر چیف سیکرٹری رضوان میمن کی جانب سے بغیر دستخط والا نوٹیفیکشن دکھانے پر رائو انوار کے خلاف جعلسازی کا مقدمہ کیوں درج نہیں کیا جارہا ؟
انوار احمد خان ’’رائو انوار‘‘ کیسے بنا؟
پیپلز پارٹی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی اہم شخصیات راؤ انوار کی مبینہ طور پر براہ راست پشت پناہی کرتی ہیں۔ یقینا اس حمایت کی کوئی بڑی وجہ بھی ہوگی۔ اس بارے میں سرکاری ذرائع کا کہنا ہے راؤ نے مبینہ طور پر 1996 میں اپنی ملازمت اور اپنے مستقبل کو داو پر لگا کر کلفٹن میں واقع سیاسی لیڈر کے نام سے منسوب گھر پر چھاپا مار کارروائی کو ناکام بنادیا تھا۔ انہوں نے ایک بڑے حساس ادارے کی جانب سے کی جانے والی کارروائی سے نہ صرف پیشگی طور پر آگاہ کردیا تھا بلکہ اس حوالے سے مبینہ طور پر عملی مدد بھی کی تھی۔ راؤ انوار کا یہی احسان سیاسی شخصیات سے ذاتی تعلقات کا سبب بنا اور پھر راؤ انوار آگے بڑھتے گئے یہاں تک کہ ان کے کاندھوں پر پولیس کے چاند تارے کے ساتھ ساتھ 250 افراد کے قتل کا الزام بھی لگ چکا ہے۔ مزمل ایڈووکیٹ کی طرف سے سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ راؤ انوار نے اب تک ’’پولیس مقابلے‘‘ میں250 افراد کو قتل کیا ہے جب کہ اب تک کسی ایک مقابلے کی بھی آزادانہ تحقیقات نہیں کرائی گئی۔ اس درخواست کے مطابق راؤ انوار نے دوران ملازمت اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور طویل عرصے تک ملیر ہی میں تعینات رہے۔ درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ جعلی پولیس مقابلوں کے باوجود راؤ انوار کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی لہٰذا ان مقابلوں کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کا بورڈ قائم کیا جائے۔ پیپلز پارٹی سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی پشت پناہی کرتی ہے یا نہیں یہ صرف اسی سے واضح ہے کہ راؤ انوار پیپلز پارٹی کے سندھ میں اقتدار شروع ہونے کے بعد سے یعنی 2008 سے ملیر کے ایس ایس پی بنے اور مختصر مدت کے لیے ہٹنے کے بعد دوبارہ یہیں تعینات ہوتے رہے۔ وہ ضلع ملیر کے ایس ایس پی سے زیادہ ’’ڈان‘‘ لگتے تھے۔ حکمران راؤ انوار سے اس قدر محبت کرتے رہے کہ انہوں نے اپنے ضلع میں جس تھانے کو اپنی حدود میں کرنا چاہا اسے ان کے حوالے کردیا گیا۔
مشتبہ سفید کار کہاں گئی ؟
شاہراہ فیصل پر پولیس نے جس سفید رنگ کی کار کا تعاقب کرتے ہوئے فائرنگ کی اس کے حوالے سے پولیس کے ذرائع کہتے ہیں کہ ’’اس کار کے حوالے سے دو روز سے یہ اطلاع تھی کہ سفید رنگ کی کار میں کچھ مشتبہ افراد گھوم رہے ہیں جو پولیس کی وردیوں میں ہیں اور اپنے آپ کو پولیس اہلکار ظاہر کرکے شہریوں خصوصاً ائر پورٹ سے آنے والے لوگوں کو لوٹ لیا کرتے ہیں۔‘‘ سفید رنگ کی کار سے فائرنگ کے نتیجے میں رکشے میں سوار مقصود جاں بحق اور رکشہ ڈرائیور زخمی ہوگیا ۔ مگر اب وہ زخمی رکشہ ڈرائیور اور سفید رنگ کی کار کہاں گئی؟’’اسے زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیا؟‘‘
ڈاکٹر شاہد مسعود کا ملزم عمران کے بارے میں انکشافات
ممتاز اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا ہے کہ معصوم زینب کے قتل کے الزام میں گرفتار علی عمران نہ تو ذہنی مریض ہے اور نہ ہی بیمار ہے بلکہ اس کا ایک بین الاقوامی گروہ سے تعلق ہے جو بچوں کو اغوا کے بعد ان سے ساتھ زیادتی کی وڈیو بناتا ہے۔ شاہد مسعود کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق اس کے متعدد ملکی اور غیرملکی بنک اکائونٹس ہے جس میں لاکھوں ڈالرز کی ٹرانزیکشن ہوچکی ہے۔ شاہد مسعود کے اس انکشاف نے پنجاب پولیس کے کردار اور بیانات کو مشکوک بنا دیا ہے۔ شاہد مسعود کی اس بات پر شک یوں بھی نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے یہی بیان سپریم کورٹ کی خصوصی بنچ کو بھی ریکارڈ کرایا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بیان کی روشنی میں عدالت آئندہ سماعت میں کیا کارروائی کرتی ہے؟

حصہ