برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں (چوتھا حصہ)۔

850

قسط نمبر 121
مولا نا محمد منظو نعمانی صاحب نے ” مولانا مودودی کے ساتھ میری رفاقت کی سرگزشت، اور اب میرا موقف ” کے عنوان سے 1980 میں مولانا مودودی کے انتقال کے بعد ایک کتاب شائع کروائی جسے مجلس نشریات اسلام کراچی۔ نے 1980 میں ناظم آباد کراچی سے شائع کیا جس میں انھوں نے مولا نا مودودی سے اپنے تعلقات اور جماعت اسلامی کے نقیب و ترجمان کی حیثیت سے گزارے ہوئے وقت کی تفصیلات بیان فرمائیں۔اس کتاب کے دوسرے حصے میں مولانا مودودی کے افکار و نظریات اور مولانا سے اپنے اختلافات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ ان اختلافات کو کتابی شکل میں شائع کروانے کا مقصد مولانا منظور احمد نعمانی کے نزدیک ان کے اپنے الفاظ میں یہ تھا کہ ” گزشتہ دنوں را قم السطور نے یہ محسوس کرکے کہ میری عمر کا بھی بظاہر یہ آخری دور ہے اور مولانا کی عمر بھی مجھ سے دو سال زیادہ ہے ، نفع دینی، عنداللہ برکات اور اتمام حجت ہی کی نیت سے ممکن حد تک وضاحت کے ساتھ ان غلطیوں کے بارے میں اپنی معروضات مضمون کی شکل میں مرتب کی تھیں ، جو آپ اس کتاب کے صفحات میں پڑھیں گے۔” اس ابتدائیے کے بعد اگلی سطور میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ ” مولانا مودودی کے ساتھ تعلق اور رفاقت کی یہ سرگزشت 22 سال پہلے 1958 میں ‘الفرقان” میں لکھی جا چکی ہیں ”
مزید تفصیلات میں جاکر مولانا منظور نعمانی صاحب نے اس پریشانی کا ذکر فرمایا جس نے ان کو بری طرح جھنجھوڑ کر دیا تھا۔
مولانا نعمانی لکھتے ہیں کہ جس دن میں “دارلسلام” پہنچا تھا۔اس کے اگلے ہی دن مولانا نے اپنے رفقاء کارکو مخاطب کرکے فرمایا کہ ” اسلامی بستی کے لیے ایک محتسب بھی ضروری ہے۔اور میری طرف ( منظور نعمانی ) مخاطب ہوکر فرمایا کہ یہ ذمہ داری آپ لے لیں۔۔۔۔۔ بہر حال مجھے محتسب بنا دیا گیا۔۔۔ قیام کو دوچار روز ہی گزرے تھے کہ غالبا کسی رفیق کے ذریعے میرے علم میں یہ بات آئی کہ مولا نا کا باورچی جو جوان العمر تھا۔ زنان خانے میں کھانا پکاتا ہے۔ اور اس سے پردہ نہیں ہے۔جس سے دارا لسلام کے مقیم رفقاء کار پر برا اثر پڑ رہا ہے۔اس واقعے کے علم نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔۔۔۔ آگے لکھتے ہیں کہ ” میں نے اس معاملے میں مشورہ حاصل کرنے کے لیے جماعت کے اندر ہی کے دو اصحاب علم منتخب کیے۔ ایک مولانا امین احسن اصلاحی ،اور دوسرے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی۔ میں نے اس پیش آمدہ مشکل میں ایک مفصل خط لکھ کر رجسٹری سے مولانا امین احسن اصلاحی کے نام روانہ کیا۔اس میں گزارش کی تھی کہ خط ملتے ہی مولانا علی میاں کے پاس جائیں اور دونوں صاحب غور و فکر کے بعد مجھے مشورہ دیں۔”
کتاب کے پہلے حصے میں مولانا سے تعلق دو تین صفحات پر مشتمل ہے کتاب کا دوسرا حصہ بھی جماعت میں شامل ہونے کی غلطی اور مولانا مودودی کا نام بطور امیر جماعت اسلامی تجویز کرنے پر ندامت اور شرمندگی کے اظہار پر مبنی ہے۔ معذ رت کے ساتھ لکھنا پڑھ رہا ہے کہ مولانا منظور احمد نعمانی صاحب جیسے عالم دین کی تحریر اور کسی عام سی خاتون کے گھریلو گلے شکووں میں جو فرق ہونا چاہیے تھا وہ محسوس نہیں ہورہا۔
میں نے اس کتاب کا حوالہ اس لیے دینا ضروری سمجھا کہ جو احباب جماعت اسلامی کے بارے میں مولا نا منظور نعمانی صاحب کے اختلافات کی نوعیت کو سمجھنا اور جاننا چاہتے ہیں ان تک اس کتاب کا مختصر تعارف پیش کردوں۔ تاکہ میرے ان مضامین میں کوئی بھی پہلو پوشیدہ اور یکطرفہ نہ رہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے کے ابتدائی مضمون میں بھی میں نے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے موقف اور اختلاف کی نوعیت کو قارئین تک پہنچایا۔ اسی خیال سے مولانا منظور نعمانی صاحب کی کتاب کاذکر کرنا بھی ضروری سمجھا۔
مولانا نعمانی صاحب کی اسی کتاب کا ایک مفید تجزیہ محترم ڈاکٹر سید انور علی نے ’’رد سرگزشت‘‘ کے عنوان سے 1981میں مرتب کیا تھا۔) لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ مولانا محمد منظور نعمانی صاحب کی دینی خدمات اور خلوص و للہیت سے انکار کیا جائے۔””
اب آئیے اس مکتوب کی جانب
جو مولانا سید ابو الاعلی مودودی صاحب نے مولانا محمد منظور نعمانی صاحب کے اس خط کے جواب میں لکھا جس کا بالائی سطور میں ذکر کیا گیا ہے۔ مکتوب چونکہ طویل ہے لہذا اس کے خاص نکات پیش خدمت ہیں۔ ( مکمل پڑھنے کے لیے تاریخ جما عت اسلامی حصہ دوم۔ آباد شاہ پوری )
” مکتوب بنام مولانا محمد منظور نعمانی۔۔۔۔۔ دارالسلام ‘ پٹھان کوٹ (1942)
” محترمی و مکرمی السلا م علیکم و رحمت اللہ و برکا تہ
آپ کی تحریر میں نے رات ہی کو دیکھی۔اس کے بعد سونا چاہا مگر سو نہ سکا۔اس لیے رات کو ہی لکھنے بیٹھ گیا۔میرے لیے اس میں کوئی چیز رنج پہنچانے والی نہیں ہے ‘ بلکہ میں خوش ہوں کہ آپ نے جو کچھ محسوس کیا اور سوچا سمجھا اسے صاف صاف لکھ دیا صرف افسوس اگر ہے تو اس کا کہ آپ نے بات کے انتہائی حدود تک پہنچ جانے کے بعد مجھ سے رجوع کیا۔ ورنہ ابتدائی مراحل میں ہی آپ مجھے اپنے خیالات سے آگاہ کردیتے تو شا ید حل کرنا اتنا مشکل نہ ہوتا جتنا مشکل اب ہوگیا ہے۔البتہ جس چیز نے مجھے نیند سے محروم کردیا وہ دراصل یہ ہے کہ برسوں کی سعی و جہد کو اس نتیجہ پر ختم ہوتے ہوئے ٹھنڈے دل سے گوارا نہیں کرسکتا۔اگر یہ سعی و جہد اپنی ذات کے لیے ہوتی تو خدا کی قسم ‘ اس سے بھی زیادہ کسی برے نتیجے پر اس کے ختم ہونے کی مجھے کچھ پرواہ نہ ہوتی۔مگر جبکہ یہ خدا کے لیے اور اس کے دین کے لیے تھی تو میرے لیے بہت مشکل ہے کہ میں اس بد انجامی پر اس کے ختم ہونے کو اطمینان کے ساتھ برداشت کرلوں اس لیے میں ایک آخری کوشش بچانے کی کرنا چاہتا ہوں۔اللہ
مصرف ا لقلوب ہے ممکن ہے آپ اور دوسرے لوگ جو ایک پہلو کے سارے معاملے کو دیکھ رہے ہیں اگر ان کے سامنے وہ دوسرا پہلو بھی رکھ دوں تو شا ید یہ کام بربادی سے بچ جائے۔۔۔۔۔
پہلا سوال جس پر آپ کو اور آپ کی طرح سوچنے والوں کو غور کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کو اس کام کی طرف جس چیز کی کشش نے کھینچا وہ کیا چیز تھی ؟ اگر وہ میری ذات کی کشش تھی تو وہ بجائے خود نہایت غلیظ چیز تھی ‘ اس طرف آپ کو کھنچنا ہی نہیں چاہیے تھا اور اب خدا کا فضل ہوا کہ وہ کشش باقی نہیں رہی۔۔ایسے ایک نہ مبارک تائف و اجتماع سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ آپ سب بکھر جائیں۔۔۔اگر وہ اقامت دین حق کی کشش تھی اور اگر اس کی طرف کھنچنے کے لیے آپ لوگوں کو مجبور کرنے والی طاقت تھی۔۔۔۔۔ تو محض ایک میرے نا اہل ثابت ہوجانے سے آپ لوگ اس قدر جلدی اور تن آسانی سے بکھر جانے پر کیسے آمادہ ہوگئے ؟ کیا نصب العین میں اب کشش باقی نہیں رہی ؟ یا اب یہ انکشاف ہوا کہ اس کے لیے کوشش کرنا مسلمان ہونے کا اقتضا نہیں ؟ یا اجتماعی سعی اب غیر ضروری ہوگئی ؟۔۔۔۔
دوسری بات جو طے کرلینی ضروری ہے وہ یہ کہ جو اسباب و وسائل ہمیں میسر ہیں انہی سے کام لینا ہے۔۔۔۔۔ اب میں اپنی ذات کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن اس کی غرض نہ اپنی صفائی پیش کرنا ہے اور نہ امارت اور قیادت کے لیے اپنی اہلیت ثابت کرنا بلکہ میں بعض غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہتا ہوں اور بعض امور میں آپ سے رہنمائی چاہتا ہوں۔۔۔ سب سے پہلے غلط فہمیوں کو صاف کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔۔۔۔ آپ سے جن صاحب نے یہ بیان کیا کہ میں نے اپنے طرز معیشت کو حق بجانب ثابت کرتے ہوئے کہا کہ ‘ اگر میں اپنے معیار کو نیچے اتار لوں تو پھر لوگوں پر میرا کوئی خاص اثر اور اقتدار نہیں رہے گا اور پھر میری بات میں وزن نہیں مانا جائے گا ” انھوں نے اصل بات کو بالکل غلط رنگ میں آپ کے سامنے پیش کی اہے۔اصل واقعہ یہ ہے کہ کچھ صاحبان نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ ترجمان القران اور دینیات وغیرہ کو بھی جماعت کی ملکیت میں دے دوں اور جماعت کے فنڈ سے تنخواہ لیا کروں۔ میں نے اس سے اختلاف کیا اور ان سے کہا کہ آپ کا یہ مطالبہ غیر شرعی ہے۔۔ اللہ اور اس کے رسول نے کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ سب لوگ اپنے وسائل معیشت جماعت کے حوالے کردیں اور جماعت کے تنخواہ دار بن جائیں۔ یہ مارکس اور لینن کا قاعدہ ہے نہ کہ اللہ اور اس کے رسول کا۔۔
اگر میں جماعت کے فنڈ سے رقم لے کر کام کروں تو میرے لیے اخلاق حسنہ کا ایک دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا جب تک میں اپنی معیشت میں آزاد ہوں میرے لیے موقع ہے کہ خدا کے کام میں اپنے اختیار سے جہاں جتنا چاہوں خرچ کروں۔۔۔۔لیکن آپ مجھے پابند بنا کر را ہ خدا میں خرچ کرنے کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ جماعت کے فنڈ سے تنخواہ لیکر کام کرنے کی صورت میں میری بات کا وہ وزن نہیں ہوسکتا جو اب ایک بے غرض اور بے لاگ آدمی ہونے کی حیثیت سے ہے۔۔۔ یہ تھی اصل بات جسے مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے۔””
خان ساماں اور گھریلو حوالے سے جو اعتراض کیا گیا تھا اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودی نے اس طرح لکھا ” میری معاشرت کا جو معیار ہے اس میں جس قسم کا تغیر آپ حضرات کے نزدیک ضروری ہے اس کے متعلق مجھے بے تکلف مشورہ دیجئے۔۔ اگر موجودہ حالت میں میرے لیے ممکن ہوا کہ بہ آسانی وہ تغیر کرسکوں تو بہتر ہے اور اگر میں نے یہ محسوس کیا کہ اس حد تک تغیر کو میرے اہل و عیال برداشت نہ کرسکیں گے تو مجھے اپنی بیوی کو طلاق دینے میں بھی کو ئی تامل نہیں ہے۔جو چیز بھی نصب العین کی راہ میں رکاوٹ ہو اسے میں راستے سے ہٹا دوں گا”۔۔۔۔ آگے مزید لکھتے ہوئے تجویز کیا کہ ” میں چاہتا ہوں کہ قریبی تاریخوں میں جماعت کا ایک اجتماع کرلیا جائے اور اس میں پوری صورتحال پیش کردی جائے۔بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ میری اور آپ کی یہ تحریریں پوری جماعت کے سامنے رکھ دی جائیں۔”
( دستخط ) ابو الاعلی
حوالہ جات : تاریخ جماعت اسلامی حصہ دوم۔ آباد شاہ پوری
مولانا مودودی کے ساتھ میری رفاقت کی سرگزشت، منظور نعمانی
(جاری ہے )

حصہ