میں بڑا ہوکر رائو انوار بنوں گا

307

زاہد عباس
’’نہ جانے کہاں سے بال کی کھال نکالنے کی عادت پڑ گئی ہے تجھے… بڑا فلسفی بنا پھرتا ہے، آئے دن نئے سے نئے فلسفے پیش کرتا رہتا ہے، اپنی عمر نہیں دیکھتا… دودھ کے دانت ٹوٹے نہیں ابھی، اور چلا ہے بڑی بڑی باتیں کرنے… ہر بات میں کوئی نہ کوئی نئی منطق لے آتا ہے… سوچتا ہوں تجھے تیری خالہ کے گھر پنڈی بھیج دوں، ماں باپ سے دور رہے گا تو ہی عقل ٹھکانے آئے گی… میرے بس میں ہو تو صبح کی پہلی گاڑی سے ہی روانہ کردوں، لیکن کیا کروں تیری ماں درمیان میں آجاتی ہے، بڑا لاڈلا بنا رکھا ہے… بڑی تخریبی سوچ ہے تیری، کبھی بھی تعمیری خیال تیرے ذہن میں نہیں آتا، حرکتوں سے لگتا ہے کہ بڑا ہوکر سیاست دان بنے گا اور ہماری طرح لوگوں کے بھی کان کاٹے گا… نہ جانے اسکول والے بھی کیا پڑھا رہے ہیں! دن بھر موبائل فون میں سر کھپاتا رہتا ہے، بڑا لاڈ صاحب بنا پھرتا ہے… دن بھر محنت مزدوری کرکے گھر آؤ تو شکایتوں کی ایک لمبی چوڑی فہرست سننے کو ملتی ہے… اللہ بخشے ابا حضور تو بڑے ہی نیک انسان تھے، پنج وقتہ نمازی… کبھی کسی کا حق مارا اور نہ غلط بات کی۔ بڑی عزت تھی اُن کی… محلے والے انہی سے اپنے بچوں کے کان میں اذان دلوایا کرتے تھے، اور تجھے تو گھٹی بھی خود انہوں نے ہی دی تھی، اگر زندہ ہوتے تو ضرور تیری حرکتیں دیکھ کر مر جاتے… نام خراب کرکے رکھ دیا ہے خاندان کا… گھر کا سکون برباد کردیا ہے… جا رہا ہوں، جب تک تُو نہیں سدھرتا تب تک واپس گھر نہیں آؤں گا۔‘‘
جب بھی شکور بھائی کے گھر سے شور شرابہ سنائی دے تو سمجھ لیجیے کہ ضرور خالد نے کوئی نہ کوئی فنکاری دکھائی ہوگی۔ خالد کی عمر ابھی فقط بارہ سال ہے لیکن باتوں سے وہ ساٹھ سال سے بھی زیادہ کا لگتا ہے۔ پوری بلڈ پریشر بڑھانے کی مشین ہے… کب کوئی ایسی بات کردے جس سے شکور بھائی کا بی پی ہائی ہوجائے کوئی نہیں جانتا، ہاں اس کی ہوشیاری اور نکتہ چینی سے محلے کا ہر فرد ضرور واقف ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ لوگ دوسروں کے گھروں میں ہونے والی پنچایتوں اور آپسی جھگڑوں سے کچھ نہ کچھ نکالنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں، میں بھی انسان ہوں، لہٰذا مجھ میں بھی کچھ اسی قسم کی کمزوریاں ہوسکتی ہیں، لیکن میری کوشش یہی رہتی ہے کہ معاملات کو سلجھانے کے لیے جو کرسکتا ہوں کر گزروں۔ اس لیے ضروری تھا کہ میں شکور بھائی کے گھر ہونے والے اس ڈرامے کے مرکزی کردار سے وہ ساری کہانی سنوں جس پر شکور بھائی گھر چھوڑنے کی دھمکی دینے پر مجبور ہوئے۔ ویسے تو اُن کا اس طرح غصے میں ناراض ہوکر گھر سے نکلنا کوئی نئی بات نہیں۔ وہ غصّہ ٹھنڈا ہوتے ہی گھر واپس آجایا کرتے ہیں۔ لوگ اپنی اولادوں پرغصّہ کرتے رہتے ہیں، یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ فرق صرف خالد کی باتوں کا ہے جسے گھر سے باہر نکلتے ہی میں نے اپنے پاس بٹھا لیا اور پوچھا:
’’کیا ہوا، خیریت تو ہے! ابو گھر سے بہت غصے میں ناراض ہوکے کیوں گئے ہیں؟‘‘
’’انکل کچھ بھی نہیں، بس ذرا سی بات پر چلے گئے، ابھی آجائیں گے‘‘۔ خالد نے بڑے بے فکرے انداز میں جواب دیا۔
’’پھر بھی کچھ تو ایسا ہوا ہوگا جس کی وجہ سے یہ نوبت آئی!‘‘
میرے پوچھنے پر وہ بولا:’’بات اتنی بڑی نہیں۔ گھر میں باتیں چل رہی تھیں، بھائی کے پوچھنے پر میں نے کہا کہ میں بڑا ہوکر فلموں میں ولن کے کردار کیا کروں گا۔ اس پر بھائی نے پوچھا ہیرو کا کردار کیوں نہیں کرو گے؟ جواب دیتے ہوئے میں نے اتنا ہی سچ کہا کہ ہیرو کا بھی کوئی کردار ہوتا ہے! فلم کے شروع میں دس سے پندرہ منٹ، اور گمشدہ ہیروئن کے ملنے کی خوشی میں آخری پانچ منٹ… جبکہ ولن فلم کی ساری کہانی میں دادا گیری کرتا ہے۔ مجھے رعب و دبدبے والے کام پسند ہیں، بس اتنی سی بات ہے جس پر سارا گھر سر پر اٹھالیا گیا‘‘۔
خالد کے خیالات سن کر میں نے اس کے والد کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے اسے سمجھایا کہ ’’تمھاری ہی سوچ غلط ہے، پہلے پڑھو، اپنی تعلیم مکمل کرو اور پھر کسی اچھی نوکری کے بارے میں سوچنا۔ میرا مطلب ہے کہ کسی اچھے ادارے میں افسر لگنے کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بہت ضروری ہے‘‘۔
خالد نہ جانے کون سی مٹی سے بنا ہوا ہے، میرے اتنا سمجھانے کے باوجود کہنے لگا: ’’پولیس کا محکمہ کیسا ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’اچھا ہے، کیوں؟‘‘
’’تو بس ٹھیک ہے، میں بڑا ہوکر پولیس میں ہی جاؤں گا اور راؤ انوار بنوں گا‘‘۔ خالد نے فوراً جواب دیا۔
’’کسی ایک شخص کی مثال چھوڑو، اتنا بڑا محکمہ ہے، اور بھی افسران ہیں، جب وقت آئے گا تو کسی کی بھی طرح بن جانا، ابھی سے اس پر دماغ کھپانے کی کوشش نہ کرو‘‘۔ میں نے اس کے ذہن کو صاف کرنے کے لیے بات گھمانے کی کوشش کی، لیکن وہ واقعی بال کی کھال نکالنے کا ماہر تھا، اپنی نئی منطق بگھارتے ہوئے بولا: ’’بندہ پولیس میں ہو اور اسلحہ بھی ہو تو اپنے ہی اسٹائل میں افسری کرنا چاہیے۔ ٹی وی چینل پر بتا رہے تھے کہ راؤ انوار نے فلم دبنگ کی طرح سیکڑوں انکاؤنٹر کیے، کسی نے اس کا کیا بگاڑا؟ اربوں روپے کمائے، ساری دنیا میں جائدادیں بنائیں، غیر ملکی اقامہ رکھنے کے باوجود پاکستان میں اپنی مرضی، اپنے اسٹائل سے اور حکومتی اعلیٰ شخصیات کی آشیرباد سے سرکاری نوکری کی، نقیب اللہ کو پولیس مقابلے میں مارا، ملکی و غیر ملکی میڈیا پر انکاؤنٹر اسپیشلسٹ جیسی خبریں چلنے کے باوجود راؤ انوار کے کان پر جوں تک نہ رینگی، وہ مسلسل ایک ہی بات پر قائم ہے کہ میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ وڈیو پیغام کے ذریعے بتا رہا ہے کہ اگر کسی نے میرے خلاف کوئی کارروائی کی تو میں اُن لوگوں کو جن کے لیے میں نے کام کیے، بے نقاب کردوں گا۔ اس صورتِ حال میں اُس کے خلاف کون کیا کر سکتا ہے! لہٰذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں پولیس میں بھرتی ہوکر راؤ انوار کی طرح نوکری کروں گا۔‘‘
خالد کی سوچ پر اُسے قانون کا سبق دیتے ہوئے میں نے کہا: ’’یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص اگر اُس نے جرم کیا ہے وہ قانون کے شکنجے سے بچ سکے۔ قانونِ آئین کے تابع ہے، ہمارے ملک میں ہر شہری کے حقوق کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمے داری ہے، قانون کا ہاتھ خود اپنا راستہ بناتے ہوئے مجرم کی گردن تک پہنچ جاتا ہے۔ تم اپنی سوچ میں تبدیلی لاؤ، ذہن میں آنے والے شیطانی خیالات پر لاحول پڑھا کرو، گھر جاکر اپنے والد سے معافی مانگو اور پڑھائی میں دل لگائو۔‘‘ یوں خالد سے ان باتوں کا وعدہ لے کر میں نے اسے جانے دیا۔
کسی بھی بچے کے ذہن میں اس قسم کی منفی سوچ کا ابھرنا انتہائی خطرناک ہے۔ ہمارے ملک خاص طور پر کراچی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہی کچھ دکھائی دے گا۔ ماضیٔ قریب میں نہ جانے کتنے خالد تھے جو اسی سوچ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ اس عمر کے بچے پیسے کی چمک خاص طور پر طاقت و اختیارات سے متاثر ہوجایا کرتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ کراچی میں سیاست کے نام پر جرائم پیشہ افراد نے ایسے ہی نوعمروں کے ہاتھوں میں قلم کی جگہ اسلحہ دے کر شہر کا امن تباہ کر ڈالا۔ طاقتور بننے کا شوق معاشرے کو اس قدر تبدیل کردیتا ہے کہ بازاروں میں فروخت ہوتے کھلونے کی جگہ بچے پلاسٹک کی گن خریدنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ ملک میں اس قسم کی ابھرتی سوچ پر حکمرانوں کو فوری ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ مجرم و بے گناہ کے درمیان فرق محسوس ہو۔ فوری جزا اور سزا کا ایسا نظام نافذ کرنے کی ضرورت ہے جس پر دونوں فریق مطمئن ہوں۔ میڈیا کو جرائم سے متعلق خبروں پر بریکنگ نیوز چلانے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔ لوگوں خاص طور پر بچوں کی ذہنی تربیت کے لیے ایسے پروگرام بنانے ہوں گے جن سے ان کی صحیح خطوط پر تربیت ہوسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے تنظیمی ڈھانچے میں ازسرنو تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔

حصہ