پبلک ایڈ کمیٹی کراچی کے مسائل زدہ عوام کی آواز بن چکی ہے، نجیب ایوبی

273

اجمل سراج
نجیب ایوبی کی شخصیت بہت سے پہلو لیے ہوئے ہے۔ وہ ایک سوشل ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر‘ نثر نگار‘ کالم نگار‘ سوشل بلاگر بھی ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے رکن ہیں اور پبلک ایڈ کمیٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ ماشاء اللہ ہر پہلو سے ان کی شخصیت کا تخلیقی جوہر نمایاں ہے۔ نجیب ایوبی کی سدا بہار شخصیت‘ کشادہ دلی‘ خوش اخلاقی اور زندگی کے جوش سے لبریز حرکات و سکنات ان کے ہمہ جہت تخلیقی سفر کی گواہ ہیں۔ آج ہم نے جسارت سنڈے میگزین کے لیے پبلک ایڈ کمیٹی کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے نجیب ایوبی سے گفتگو کی جو نذر قارئین ہے۔
سوال: سب سے پہلے یہ بتائیے کہ جماعت اسلامی کو پبلک ایڈ کمیٹی بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اس کا قیام کب عمل میںآیا؟
جواب: پبلک ایڈ کمیٹی کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ پبلک ایڈ کا کام نیا کام نہیں ہے، جماعت اسلامی اپنے قیام کے ساتھ ہی عوامی مسائل اور فلاح کے لیے کام شروع کرچکی تھی۔ قارئین کو بتاتا چلوں کہ جب پاکستان بنا اور مہاجرین بڑی تعداد میں ہجرت کرکے پاکستان کی سرحدوں بالخصوص لاہور کے بارڈر اور والٹن میدان کے کیمپوں میں لٹی پٹی حالت میں پہنچ رہے تھے اُس وقت جماعت اسلامی کے امیر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جماعت اسلامی کے کارکنان کو خط لکھ کر تاکید فرمائی تھی کہ فی الفور ہنگامی بنیادوں پر مہاجرین کی مدد کو پہنچیں۔ حالانکہ جماعت اسلامی کے قیام کو اُس وقت صرف چھ سال ہوئے تھے اور کارکنان کی تعداد نہایت قلیل تھی، مگر اس کے باوجود لاہور میں جماعت اسلامی کے کارکنان نے مہاجرین کی آبادکاری اور امداد کے لیے دن رات ایک کردیے تھے۔ زخمی مہاجرین کے لیے فرسٹ ایڈ، غذائی ضروریات کے لیے کھانے اور ضروریاتِ زندگی کی اشیا تقسیم کیں۔ عالم یہ تھاکہ بہت سے کارکنان جو خود بھی ہجرت کرکے اسی قافلے سے آئے تھے، جماعت اسلامی کے کیمپوں میں پہنچ کر امدادی کاموں میں مصروف ہوگئے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے منشور میں یہ بات شامل تھی اور ہے کہ معاشرے کی بہتری کے لیے کام جماعت کی اوّلین ترجیح ہے اور معاشرے کی بہتری کا کام عوام کی خدمت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پاکستان بننے کے دوران میونسپلٹی ادارے عملاً معطل تھے جس کی وجہ سے شہر میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر تھے اور بیماریاں پھیل رہی تھیں، وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ تھا۔ چنانچہ گشتی شفاخانوں کے ذریعے مریضوں کو علاج کی سہولیات پہنچائی گئیں۔ گندگی اور کچرے کی صفائی بھی کارکنانِ جماعت اسلامی نے اپنے ہاتھوں سے کی۔ یہ سب پبلک ایڈ کے کام کی ہی ایک شکل تھی۔ گو کہ اس طرح سے پبلک ایڈ کے نام سے کام نہیں تھا مگر کام وہی تھا جو مولانا نے منشور میں شامل کردیا تھا۔ عوام الناس کی مدد اور خدمت چونکہ منشور کا حصہ تھی اس لیے جماعت اسلامی کبھی بھی اپنے اس قومی و دینی فریضے سے غافل نہیں رہی، بلکہ مولانا مودودیؒ کہتے تھے کہ ہمارے کارکن کو مرجع خلائق ہونا چاہیے۔
اب آئیے اس حصے کی جانب کہ پبلک ایڈ کمیٹی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ بات یہ ہے کہ ملک میں جاری سیاسی اقربا پروری، افراتفری اور لوٹ کھسوٹ نے حکومتی اور بلدیاتی اداروں اور نظام کو اس قدر بوسیدہ، نکما اور کرپٹ کردیا ہے کہ عوامی مسائل کے حل کی جانب سیاسی اور حکومتی جماعتوں کی کوئی توجہ ہی نہیں۔ عوام اپنے جائز کام کے لیے بھی سرکاری افسران کو رشوت دینے پر مجبور ہیں۔ بالخصوص کراچی اور سندھ میں تیس سالہ جبر کی حکومت، سیاسی گھٹن اور غنڈہ گردی کی وجہ سے عوام کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا بھی حوصلہ نہیں رہا۔ چنانچہ اچھے بھلے شہر قبرستان کا منظر پیش کرنے لگے اور گندگی کا ڈھیر بن کر رہ گئے۔ کراچی‘ جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا‘ اب اندھیروں کا مسکن بن گیا ہے۔ پولیس گردی کی انتہا ہوگئی، بچوں کو کسی نہ کسی بہانے گرفتار کیا جانے لگا۔ کبھی ڈبل سواری پر پابندی کے نام پر، کبھی دہشت گردی کا الزام لگا کر۔ خاص طور پر کراچی کو لسانیت کی بھینٹ چڑھا کر پیپلز پارٹی اور متحدہ نے اپنا اپنا اُلّو سیدھا کیا۔ ترقی کے نام پر ترقیاتی فنڈز لندن بھجوائے جاتے رہے جس کی وجہ سے مسائل جوں کے توں رہے۔ ان حالات میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے شوریٰ کے فیصلے سے پبلک ایڈ کمیٹی کو ازسرنو عوامی مسائل کے حل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کے لیے تیار کیا اور جماعت اسلامی نے پبلک ایڈ کمیٹی کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔
کراچی کی جماعت اسلامی کے لیے پبلک ایڈ کا کام کوئی نیا کام نہیں تھا۔ کراچی کے میونسپل کمیٹی کے پہلے انتخابات جو 1958ء میں ہوئے تھے، ان میں جماعت اسلامی نے خاطر خواہ نشستیں حاصل کی تھیں جن میں پروفیسر غفور احمد مرحوم بھی ممبر کمیٹی منتخب ہوئے تھے۔ ان کے دور میں نوجوانوں کو شہری مسائل کے حل کے لیے منظم کیاگیا تھا اور پھر یہ پبلک ایڈ کمیٹیاں جماعت اسلامی کے تحت کسی نہ کسی نام سے کام کرتی رہیں۔
سوال: جیسا کہ آپ نے بتایا پروفیسر غفور احمد نے نوجوانوں کو منظم کیا اور جماعت یہ ہمیشہ کرتی رہی ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس میں تعطل کیوں پیدا ہوتا رہا؟ پبلک ایڈکے نام سے اس طرح کی کوئی تنظیم یا ذیلی ادارہ یا برادر تنظیم اگر کام کررہی تھی تو اس میں بریک کیوں لگا؟
جواب : میں یہ وضاحت بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم یا علیحدہ سے کوئی چیز نہیں ہے اور جماعت اسلامی سے ہٹ کر اس کی الگ سے کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ جماعت اسلامی کا ہی ایک شعبہ ہے جو مکمل طور پر نظمِ جماعت کے ماتحت کام کرتا ہے۔ ضلعی، زونل اور حلقہ جات کی سطح تک کے ذمے داران کا تقرر مقامی سطح کا نظمِ جماعت کرتا ہے۔ اس لیے اس کی الگ سے شناخت نہیں کی جانی چاہیے۔
الحمدللہ تعطل کی صورت تو کبھی پیش نہیںآئی۔ ہر وقت یہ کام جاری رہا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ عوامی خدمت کا کام اس طرح ہائی لائٹ نہیں ہوسکا جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔ تھانہ کچہری، معصوم و بے گناہ لوگوں کی داد رسی اور بے جا مقدمات و گرفتاریوں میں پولیس سے چھڑوانا اور ضمانت یا شخصی ضمانت پر مظلوموں کی مدد کا کام ہر وقت جاری رہا اور جماعت اپنے نام سے بھی اور ذیلی تنظیم یا شعبے کے حوالے سے بھی اس فریضے کو سر انجام دیتی رہی۔ اسی طرح ناداروں کے لیے مستقل بنیادوں پر ’’مٹھی آٹا اسکیم‘‘ بھی جماعت اسلامی کے شعبۂ خدمت نے ہی چلائی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہر کارکن کے کچن سے آٹا گوندھتے وقت ایک مٹھی آٹا ضرورت مند خاندان کے لیے خالی کنستر میں ڈال دیا جاتا تھا اور ایک ہفتے کے بعد جماعت کے کارکن خاموشی سے آٹے سے بھرا کنستر اٹھاکر کسی غریب کے کچن میں پہنچایا کرتے تھے۔ یہ بھی خدمت کی ایک شکل تھی جس میں غریب کی عزتِ نفس بھی مجروح نہیں ہوتی تھی اور مدد بھی ہوجاتی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ قاضی صاحب کے زمانے میں اس کام میں تیزی آئی تھی اور ہمارے ضلع میں جناب اشرف اعوان اس کے ذمے دار تھے۔ ان سے پہلے ڈاکٹر سید مبین اختر نے نوجوانوں کو منظم کیا اور خدمتِ خلق کا کام کرتے رہے۔ تنظیم نوجوانانِ ناظم آباد اس کی پہلی شکل تھی۔ پھر قاضی صاحب نے اس آئیڈیا کو نہ صرف پسند کیا بلکہ دوسرے علاقوں میں بھی شروع کرنے کی ترغیب دی، اس طرح پورے کراچی میں تنظیم نوجوانانِ لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد وغیرہ منظم ہوئیں، مگر کام ان سب کا ایک ہی تھا۔
کراچی میں سانحہ علی گڑھ ہوا جس میں ایک ہی رات میں سینکڑوں گھرانوں کو گولیوں سے مار دیا گیا، اُس وقت تنظیم نوجوانانِ ناظم آباد جماعت اسلامی نے سب سے پہلے عباسی شہید ہسپتال پر بلڈ کیمپ لگایا اور سینکڑوں بوتل خون زخمیوں کو عطیہ کیا۔ پورے شہر میں ہڑتال تھی، اشیائے خور و نوش ناپید ہوچکی تھیں، یہاں تک کہ ادویات اور دودھ تک کی سپلائی بند ہوچکی تھی۔ اُس وقت کارکنانِ جماعت اسلامی نے خدمتِ خلق کا میدان سنبھالا اور نوجوانوں کو لے کر عباسی شہید ہسپتال میں مستقل بنیاد پر ہنگامی امدادی کیمپ قائم کیا اور مفت ادویات اور ضروریاتِ زندگی کی اشیا کی فراہمی کو یقینی بنایا۔
سوال: کیا میئر عبدالستار افغانی یا نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں پبلک ایڈ کمیٹی موجود تھی؟ اگر موجود تھی تو پھر کیا کام کررہی تھی؟ اور نہیں تھی تو کیوں نہیں تھی؟
جواب : پبلک ایڈ کمیٹی کے نام سے تو نہیں تھی البتہ جماعت اسلامی کے نام سے ہی کام ہوتا رہا۔ اُس وقت بلدیاتی و شہری مسائل پر میئر افغانی اور نعمت اللہ خان اور جماعت اسلامی کی ٹیم کا مکمل چیک تھا اور مسائل کو فوری ایڈریس کیا جاتا تھا۔ اس وقت پوری جماعت اسلامی اپنے ناظمین اور میئر کی پشت پر تھی اور اگر کوئی مسئلہ حل طلب ہوتا بھی تھا تو فوری طور پر حل ہوجاتا تھا۔ پانی کی شدید قلت میں فراہمی آب و نکاسی کے منصوبوں کو جماعت اسلامی نے ہی مکمل کیا۔ ہمارے بعد کے منتخب لوگوں نے ایک بوند پانی کے منصوبے کو بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا۔ اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ اس دور میں الگ نام سے کام کی اتنی ضرورت بھی نہیں تھی۔ پوری جماعت اسلامی ہی عملاً پبلک ایڈ بن چکی تھی۔
سوال: آپ کے خیال میں پبلک ایڈ کمیٹی کا جو قیام عمل میںآیا ہے اس کی وجہ سے شہری و بلدیاتی اداروں مثلاً نادرا، واٹر بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے الیکٹرک وغیرہ کے کام میں کوئی بہتری آئی؟ کیا وہ آپ کو یعنی پبلک ایڈ کمیٹی کی موجودگی کو محسوس کرتے ہیں؟
جواب: اس میں دو باتیں ذہن میں رہنی چاہئیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آج جن حالات میں شہر کراچی کے عوام زندہ ہیں اس میں سب سے بنیادی مسئلہ تو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی ہمت پیدا کرنا ہے۔ غنڈہ گردی اور لسانیت کی سیاست نے عوام کی زبان پر قفل لگائے ہوئے تھے۔ ہمارے نزدیک سب سے اہم کام یہ تھا کہ لوگوں میں اُن کے حقوق کا شعور بیدار کریں۔ چنانچہ حافظ نعیم الرحمان اور سربراہ پبلک ایڈ کمیٹی جناب سیف الدین ایڈووکیٹ نے ہنگامی بنیادوں پر کراچی میں پبلک ایڈ کمیٹی کو منظم کیا اور انتظامیہ میں اپنے موجود افسران سے ملاقاتوں، یادداشتوں اور قانونی دستاویزات کی مدد سے عوام کو ریلیف دلوانے کا کام شروع کیا اور عوام کو ساتھ ملا کر ان اداروں پر اپنا دبائو بڑھایا۔ جماعت اسلامی کی ماضی میں خدمات کو انتظامیہ اچھی طرح جانتی ہے۔ لہٰذا جب جب ہمارا کارکن عوام کے جائز مطالبات کو لے کر انتظامیہ کے سامنے گیا تو اس کو پذیرائی ملی اور پھر بہت سے کام ہوتے چلے گئے۔
دوسری اہم بات یہ کہ بلدیاتی اور شہری سہولیات کی عدم فراہمی پر سرکاری و بلدیاتی اداروں پر اپنے اثر رسوخ کے ذریعے ہم نے اپنے منتخب نمائندوں، چیئرمین اور کونسلرز کی مدد سے بہت سے دیرینہ مسائل حل کروانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
اگرچہ ہمارے ناظمین کے ترقیاتی فنڈز اب تک رکے ہوئے ہیں اور ان کو ماہانہ بنیاد پر تنخواہیں بھی نہیں مل رہی ہیں، تاہم اس کے باوجود ہمارے ناظمین اور منتخب نمائندوں نے عوام کی خدمت کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔
کراچی میں شناختی کارڈ کے حوالے سے شہریوں کی تذلیل اور ان کے کارڈز کو بلاک کیے جانے کا معاملہ انتہائی سنگین ہوچکا ہے۔ بجلی کے شعبے میں کے۔الیکٹرک کی من مانی اور ٹیرف میں بلاجواز اضافے نے شہریوں کی کمر توڑ دی ہے۔ پبلک ایڈ کمیٹی نے ان دونوں بڑے مسائل کو ایڈریس کیا اور بھرپور عوامی جدوجہد کاآغاز کردیا۔ ایک سال سے ہم تندہی کے ساتھ کے۔ الیکٹرک (بجلی) کے حوالے سے جدوجہد کررہے ہیں اور سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور سیشن کورٹ ہر جگہ موجود ہیں۔ کے۔الیکٹرک کی تانبا چوری کو ہم نے ہی بے نقاب کیا۔ دو سو پچاس ارب کے غبن اور لوٹ مار کو بھی ہم ہی منظرعام پر لائے۔ ڈیجیٹل اور تیز میٹرز کے خلاف مہم بھی ہماری جدوجہد کی مرہون منت ہے۔ اس ضمن میں پبلک ایڈ کمیٹی نے کے۔ الیکٹرک سیل قائم کیا جہاں عمران شاہد بطور چیئرمین کام کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ چودھری مظہر اور ایک ٹیم ہے جو روزانہ کی بنیاد پر متاثرہ افرادکے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ہماری ٹیم نے لاکھوں روپے کے ناجائز بل ختم کروائے اور احتساب عدالت اور نیپرا سے سیٹل ڈائون کروائے۔ کے۔الیکٹرک ہمارے نام سے گھبرا رہی ہے۔ عدالتوں میں ان کے وکیل آنے سے قاصر ہیں۔ مگر ہم کسی بھی جگہ ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔
واٹر بورڈ فراہمی آب و نکاسی کے لیے ایک الگ شعبہ کام کر رہا ہے۔ ایم ڈی واٹر بورڈ سے امیر حلقہ کراچی حافظ نعیم الرحمن نے دو مرتبہ ملاقات کی اور عوام کی مشکلات اور مسائل سے آگاہ کیا اور پبلک ایڈ کمیٹی نے ان مسائل کے حل کے لیے جامع سفارشات پیش کیں۔ زمینوں پر قبضوں کے خلاف ہماری قانونی جدوجہد جاری ہے۔ المرکز اسلامی پر ناجائز قبضے اور اس کو شادی ہال اور سنیما گھر میں تبدیل کردیے جانے کے خلاف پبلک ایڈ کمیٹی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور کامیابی حاصل کی اور قبضہ چھڑوا کر المرکز اسلامی کی اصلی شکل میں بحال کروایا۔ شہر میں پارکس اور پبلک پراپرٹی پر متحدہ اور قبضہ مافیا کے خلاف قانونی اپیل بھی جماعت اسلامی کی دائر کردہ تھی، جس پر اب سپریم کورٹ ایکشن لے رہی ہے۔ یہ کیس 2006ء میں داخل کیا تھا، مگر اس پر بروقت فیصلہ نہیں ہوسکا۔ اگر عدلیہ ان غیر قانونی قبضوں کو اُس وقت روک لیتی توآج کراچی کے بے شمار پارکس اور کھیل کے میدان چائنا کٹنگ کی زد میںآنے سے بچ جاتے۔ مگر عدلیہ کی سُستی اور تساہل نے کراچی کا نقشہ بگاڑ کر رکھ دیا۔
سڑکوں کے حوالے سے یونیورسٹی روڈ (حسن اسکوائر تا صفورا اور ملیر کینٹ) کی تعمیر کا سہرا بھی پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی کی عظیم جدوجہد کو جاتا ہے۔ المدنی گرائونڈ نارتھ ناظم آباد پر بلڈر مافیا کا قبضہ ختم کروانا اور ناظم آباد میں بچوں کے پارک پر قبضے کے خلاف جدوجہد، نیشنل ہائی وے کی تعمیر کے سلسلے میں گلشن حدید میں جماعت اسلامی کی مہم، اورنگی ٹائون میں انسانی حقوق ریلی، شیرشاہ اور سائٹ کے علاقوں، نیو کراچی، لیاقت آباد اور دہلی کالونی میں بجلی کے میٹروں کی تنصیب وغیرہ وغیرہ، لیاری اور اس سے ملحق آبادیوں، ملیر اور کھوکھرا پار میں پبلک ایڈ کی عوامی خدمات… یہ سب پبلک ایڈ جماعت اسلامی کی ٹیم کے کارنامے ہیں اور محض ایک سال کی قلیل مدت میں انجام پائے ہیں۔ اب پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی شہری و بلدیاتی مسائل کے حل کے حوالے سے کراچی کی ایک شناخت بن چکی ہے۔ مگر پھر بھی مسائل کا ایک انبار ہے جو دراصل منتخب نمائندوں اور حکومت کی ذمے داری ہے۔ مسائل بے شمار ہیں مگر ہمیں امید ہے کہ جماعت اسلامی عوام کی قوت کو موثر انداز میں اپنے ساتھ ملاکر ان مسائل کو حل کروانے میں ان شاء اللہ اپنا مؤثر کردار ادا کرتی رہے گی۔
سوال :آپ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں، ملازمت کرتے ہیں، مشاعرے بھی پڑھتے ہیں، ہمارے سنڈے میگزین کے لیے باقاعدگی سے تاریخی سلسلہ بھی لکھ رہے ہیں، ادبی اور سماجی میدان میں بھی دکھائی دیتے ہیں، پھر جماعت اسلامی کی پبلک ایڈ کمیٹی کو بھی بھرپور وقت دیتے ہیں… حیران ہوں کہ آپ کے لیے یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوپاتا ہے؟
جواب:(ہنستے ہوئے) اجمل بھائی اللہ کا شکر ہے کبھی غرور نہیں کیا۔آپ درست کہہ رہے ہیں۔ ملازمت کرتا ہوں تاکہ حق حلال میں گزر بسر کرسکوں۔ رہ گئی شاعری، تو یہ ٹائم ٹیکنگ کام نہیں ہے۔ یوں سمجھ لیں چلتے پھرتے جب بھی قلبی واردات ہوتی ہے شعرآپ ہی موزوں ہوجاتا ہے۔ چونکہ میرا تعلق الحمدللہ ادبی و علمی گھرانے سے ہے اس لحاظ سے لکھنے کے لیے مصنوعی کام نہیں کرنا پڑا۔ والد صاحب مرحوم مولانا محی الدین ایوبی ممتاز عالم دین تھے، چچا جان ضیا الاسلام انصاری مرحوم (چیف ایڈیٹر روزنامہ مشرق۔لاہور۔ اور چیئرمین نیشنل پریس ٹرسٹ)، پھوپھی جان افسانہ نگار… سبھی علمی رجحان رکھتے تھے، تو یوں سمجھ لیں کہ ادب اور لکھنا لکھانا خون میں شامل رہا ہے۔ ایک ہفت روزہ میں ریزیڈنٹ ایڈیٹری بھی کی اور خوب جم کے کی۔آپ سے (اجمل بھائی) دوستی بھی اسی دوران ہوئی۔
ایک شعر دیکھیں، اس سے اندازہ ہوگا کہ میں اب تک اپنی بازیابی اور جستجو میں مصروف ہوں:
ساری بستی ڈھونڈ رہی ہے، کوئی ڈھونڈ کے لے آئے
اپنے اندر چھپ کر بیٹھا، اپنی کھوج لگائوں میں
اصل بات یہ ہے کہ جب اللہ برکت دیتا ہے تو وہ رزق میں، صحت و توانائی میں، صلاحیتوں، وقت اور دیگر معاملات میں بھی ضرور جھلکتی ہے۔ میرے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہے اور میں اس کو صرف اللہ کی عطا سمجھتا ہوں ورنہ تاریخی سلسلے کے ریفرنس جو کچھ میں لکھ رہا ہوں اس کے لیے مجھے رات رات بھر جاگ کر کام کرنا پڑتا ہے۔ مگر الحمدللہ میرے تمام معاملات وقت کے حساب سے ہوجاتے ہیں۔ ایک اور بات بتاتا چلوں جو بہت سے احباب کو معلوم نہیں کہ میں پروفیشنل موٹیویشنل ٹرینر بھی ہوں اور کارپوریٹ اداروں، تعلیمی اداروں کے لیے بھی ٹریننگ سیشن کنڈکٹ کرتا ہوں۔ چونکہ ٹائم مینجمنٹ سبجیکٹ ہے لہٰذا کچھ اس سے بھی مدد مل جاتی ہے۔ باقی دعا ہے کہ اللہ ہم سے جتنا کام لے، اسے اپنی بارگاہ میں قبول کرلے۔آمین
سوال: جماعت اسلامی ایک شعبہ الخدمت کے نام سے بھی چلا رہی ہے۔ اس کا کام بھی پبلک ایڈ ہی ہے۔ قارئین جاننا چاہتے ہیں کہ پبلک ایڈ کمیٹی اور الخدمت ایک ہی شعبہ ہیں یا علیحدہ علیحدہ کام کرتے ہیں؟
جواب: جی بالکل درست کہا آپ نے کہ الخدمت معنوی اعتبار سے تو پبلک ایڈ کا ہی کام کررہی ہے، مگر اس کام میں تھوڑا فرق ہے۔ الخدمت ایک رفاہی شعبہ ہے جو عوام کی اعانت اور ان کے تعاون سے فلاحی و رفاہی کام سر انجام دیتا ہے۔ جبکہ پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ ہمارا دائرۂ کار سماجی، شہری و بلدیاتی مسائل کے حل تک محدود ہے۔ ہمارا کام عوام کو قانونی رہنمائی فراہم کرکے متعلقہ سرکاری و بلدیاتی اداروں سے ان مسائل کو حل کروانا یا حل کروانے کی کوشش کرنا ہے۔ البتہ بہت سے کاموں میں الخدمت سے معاونت ملتی ہے، جیسے فوری ہنگامی امدادی کام، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، ایمبولینس و میت گاڑیوں کی فراہمی، مچھر مار اسپرے، ادویات و غذائی ضروریات، پینے کے صاف پانی کے لیے فلٹر پلانٹ کی تنصیب وغیرہ وغیرہ اور اس کام میں ہمیں ایک دوسرے سے معاونت حاصل رہتی ہے۔
سوال:آخر میںآپ ہمارے قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب: پیغام تو نہیں البتہ درخواست ہے کہ اپنے اپنے علاقوں میں مظلوم و مجبور لوگوں کی مدد کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ اس کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ جذبہ جوان ہونا چاہیے۔ جیسے جیسے آپ عوام کی خدمت کے لیے آگے بڑھیں گے آپ کو محسوس ہونے لگے گا کہ کوئی ہستی ہے جو آپ کے کام کو آسان بناتی چلی جارہی ہے۔
پبلک ایڈ کے کام کو اپنے علاقوں میں نوجوانوں کی مدد سے منظم کرکے ہی ہم کراچی شہر میں عوام کو ریلیف دے سکتے ہیں۔

حصہ