پاناما کیس

262

قدسیہ ملک
(دوسرا اور آخری حصہ)
٭ 18 جولائی2017ء،جے آئی ٹی کے پابند نہیں، سپریم کورٹ
٭ 19جولائی2017ء ،منی ٹرائل لائیں، مقدمہ ختم۔ سپریم کورٹ
٭ 20 جولائی2017ء ،جے آئی ٹی رپورٹ: وزیراعظم پرکرپشن، عہدے کے غلط استعمال کا الزام نہیں۔ سپریم کورٹ
٭ 21 جولائی2017ء، یہ احتساب نہیں استحصال ہے۔ اسے کوئی نہیں مانے گا، وزراء
٭ 22 جولائی2017ء ، وال یوم 10 کھل گیا، فیصلہ محفوظ
گارنٹی ہے وزیراعظم کی نا اہلی کا جائزہ لیں گے، مقدمہ ہوا تو فیئر ٹرائل کا موقع ملے گا۔ سپریم کورٹ
٭ 23 جولائی 2017ء ،پانامہ کیس273: دن چلنے والی سماعت مکمل، کب کیا ہوا
٭ 24 جولائی 2017ء ،دبئی کمپنی میں عہدہ رسمی تھا، نواز شریف
شئیر ہولڈر رہا نہ تنخواہ لی، اقامہ اور ملازمت کی تفصیلات چھپائی نہیں، کمپنی دستاویزات سے انکار نہیں کیا، سپریم کورٹ میں جواب
٭ 25 جولائی 2017ء ، ٭ 26 جولائی2017ء ، بینک ختم عمران ریکارڈ کہاں سے لائے، پہلے کہا رقم جمائما نے دی۔ اب راشد کا بتا رہے ہیں جاننا چاہتے ہیں فلیٹ خریداری کے لئے کتنی خریداری کی گئی، سپریم کورٹ
٭ 27 جولائی2017ء ، ترین سے سپریم کورٹ کے پانچ سوالات۔ آف شورکمپنی کب کیسے کتنے میں بنائی؟ مالک کون؟ ملک سے باہر رقم کیسے گئی، بچوں کو تحفے میں کتنی بار پیسے بھیجے،عوامی نمائندے کو محض مفروضوں پر نا اہل نہیں کرسکتے، سپریم کورٹ
٭ 28 جولائی2017ء ، وزیراعظم ان یا آوٹ، فیصلہ آج، جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ ساڑھے گیارہ بجے21 جولائی کو محفوظ کیا گیا، سپریم کورٹ کا فیصلہ سنائے گا
٭ 29 جولائی2017ء ، کاغذات نامزدگی میں اثاثوں سے متعلق غلط بیان حلفی جمع کرایا، عوامی نمائندگی ایکٹ اورآئین کے آرٹیکل 62 کے تحت ایماندار نہیں رہے، صدر جمہوری عمل جاری رکھنے کے لئے اقدامات کریں، سپریم کورٹ
دبئی تنخواہ چھپانیپروزیراعظم نا اہل
نیب کو نواز شریف، مریم، حسن، حسین، صفدرڈار کے خلاف 6 ہفتے میں ریفرینس دائر اورعدالت کو چھ ماہ میں فیصلے کا حکم، سپریم کورٹ کا جج نگرانی کرے گا، پانچوں ججوں کامتفقہ فیصلہ
٭ 30 جولائی2017ء ، کرپشن پر نا اہل نہیں ہوا، نوازشریف
٭ 31 جولائی 2017ء، جے آئی ٹی کی دستاویزات میں خامیوں کے باعث وزیراعظم نا اہل ہوئے، جنگ رپورٹ
٭یکم جولائی 2017ء ، جے آئی ٹی کا فائنل راؤ نڈ، شریف خاندان کے بیانات میں تضادات پرسوال نامہ تیار
٭ 2 جولائی2017ء ، جے آئی ٹی کے پاس صرف 9روز۔ برطانیہ اور قطر سے منی ٹرائل کا ریکارڈ حاصل کرنا باقی
٭ 3 جولائی 2017ء ،جے آئی ٹی میں طارق شفیق سے پونے3 گھنٹے تفتیش۔ اسحاق ڈار آج پیش ہوں گے۔
٭ 4 جولائی2017ء ، اسحاق ڈار بیان حلفی سے مکرگئے جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد اظہار برہمی
٭ 5 جولائی 2017ء ، مریم نواز اور چئرمین نیب کی پیشی آج ہوگی، جے آئی ٹی قطری شہزادے کا بیان لینے پہنچ گئی
٭ 6 جولائی2017ء ، چیئرمین نیب نے حدیبیہ پیپر ملز کی دستاویزات جے آئی ٹی کے حوالے کر دیں، وزیراعظم کی صاحبزادی سے 2 گھنٹے تفتیش
٭ 7 جولائی 2017ء ، عدالت عظمیٰ: جے آئی ٹی رپورٹ کاجائزہ لینے کے لئے بنچ تشکیل
٭ 8 جولائی2017ء ، قطری شہزادہ جے آئی ٹی کو دستاویزی ثبوت دینے پر آمادہ، محل آنے کی دعوت
٭ 9 جولائی 2017ء ، جے آئی ٹی نے چوتھی رپورٹ مرتب کرلی، کل جمع کرائے گی۔ لندن فلیٹس کی خریداری کے لئے جعلی اکاونٹ سے رقوم کی منتقلی کی تفصیلات سامنے آگئیں۔
٭ 10 جولائی 2017ء ، پانامہ کیس: جے آئی ٹی کی کاروائی مکمل، رپورٹ آج عدالت عظمیٰ میں پیش ہوگی۔ لندن میں مہنگے ترین فلیٹس آف شورز کمپنیوں کی مدد سے خریدے۔ اختیارات کا غلط استعمال کیاگیا۔
٭ 11 جولائی 2017ء ، سچ تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ٹیم ارکان کی صلاحیتوں کے بغیر ہدف کا حصول ممکن نہ تھا، جے آئی ٹی سربراہ جے آئی ٹی نے شریف خاندان کو مجرم قرار دیدیا، نیب کے تحت کاروائی کی سفارش
٭ 12 جولائی 2017ء ، عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی کو تصویر لیک کرنے والے کا نام جاری کرنے کی ہدایت کردی نا اہلی آف شور کمپنیوں کا معامہ عدالت عظمیٰ نے عمران خان سے آمدنی کی تفصیلات طلب کرلی۔
٭ 13 جولائی2017ء ، نواز شریف نے دوسری بیٹی اسماء کو بھی 30 ملین کے اثاثے منتقل کئے۔ خسارے والی چودھری شوگرملز سے 11 لاکھ منافع ملا، جے آئی ٹی رپورٹ میں انکشاف
٭ 14 جولائی 2017ء ، بیان کے کئی حصے حقائق پر مبنی نہیں، نواز شریف نے دوران تفتیش عدم تعاون کا مظاہرہ کیا، جے آئی ٹی کو ٹالتے رہے، جے آئی ٹی رپورٹ
٭ 15 جولائی2017ء ، پانامہ پیپرز: نامزد افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لئے درخواست سماعت کے لئے منظور
٭ 16 جولائی2017ء ، عدالت عظمیٰ کل سے جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت کری گی
٭ 17 جولائی2017ء ، عدالت عظمیٰ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر پہلی سماعت آج ہوگی
٭ 18 جولائی2017ء ، والیوم 10 کھولیں، شریف خاندان۔ ضرورت پڑی توکھولیںگے عدالت عظمیٰ
٭ 19 جولائی2017ء ، دلائل سے مطمئن نہیں تھے اسی لئے جے آئی ٹی بنائی، صفائی کا پورا موقع دیا، شریف خاندان کی کوشش تھی کہ کچھ نہیں بتانا، نواز شریف منی ٹرائل دینے میں ناکام رہے۔ عدالت عظمیٰ
٭ 20 جولائی2017ء ، جے آئی ٹی میں وزیراعظم پر کرپشن کا الزام نہیں، عدالت عظمیٰ
٭ 21 جولائی2017ء ، شریف خاندان کی دستاویزات جعلی ہیں، عدالت عظمیٰ
٭ 22 جولائی2017ء ، پانامہ کیس کا فیصلہ محفوظ۔ عدالت نے والیوم 10 بھی کھول دی
٭ 23 جولائی2017ء ، عدالت عظمیٰ میں اہم مقدمات کی سماعت کے لئے 4 بیچ تشکیل عمران خان آمدنی کا ریکارڈ پیش نہ کرسکے، نا اہلی کا امکان
٭ 24 جولائی2017ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ 25 جولائی 2017ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ 26 جولائی2017ء ،جنگ اور جیو گروپ نے جے آئی ٹی کو بدنام کیا ہے، عدالت عظمیٰ جان بوجھ کر غلط رپورٹنگ کی گئی، ہمیں ہر بات کہنے پر مجبور نہ کریں دوران سماعت ریمارکس
٭ 27 جولائی2017ء ، عدالت عظمیٰ نے جہانگیر ترین سے آف شور کمپینیوں کی تفصیلات طلب کرلیں
٭ 28 جولائی2017ء، انتظار ختم: پانامہ کیس کا فیصلہ آج سنایا جائے گا
٭ 29 جولائی 2017ء ، وزیراعظم نے اثاثے چھپائے، صادق و امین نہیں رہے، عدالت عظمیٰ نواز شریف خاندان سمیت نا اہل، مقدمات نیب کے حوالے 6 ماہ میں فیصلے کا حکم
٭ 30 جولائی 2017ء ، شریف خاندان کے خلاف 5 ریفرینسز نیب کو بھیجنے کا امکان پیر کو اہم اجلاس طلب، بدعنوانی کے خاتمے کی ذمہ داری بطرر فرض نبھا رہے ہیں، چئیرمین نیب
٭ 31 جولائی 2017ء ، وزیراعظم ہاوس چھوڑنے سے قبل نوازشریف کی اسحاق ڈار سے ملاقات
11۔تجزیہ(Analysis):
٭۔پاناما لیکس میںجب انکشاف ہوا کہ میاں نواز شریف اور ان کے بچے آف شور کمپنیوں کے ذریعے لندن میں بنائی جانے والی مہنگی جائیدادوں کے مالک ہیں، توملک میں مہنگا مہکھڑاہو گیا۔ آفشور کمپنیاں غیر قانونی نہیں، مگر غیر اخلاقی ضرور تصور کی جاتی ہیں، اس لیے کہ یہ ٹیکس قوانین میں موجود سقم کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں تحقیق میں دیکھا یہ گیا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل تک روزنامہ جنگ کا یہی موقف سامنے آیا کہ مخالفت اور وزارت عظمیٰ کے حصول کے لئے یہ سب کیا جا رہا ہے لیکن روزنامہ جسارت کی خبریں ٹھوس عدالتی کاروائیوں سے اپنے قاری کو آگاہ کرتی رہی۔
٭۔ سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی تمام تر مسائل کے باوجود ٹھوس شواہد اکٹھے کرنے میں کامیاب رہی۔ اس میں روزنامہ جنگ کا جو موقف کھل کر سامنے آیا اس میں جے آئی ٹی کو ایک ناکام بنچ کے طور پر دکھایا گیا۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ کی حمایت کرتے ہوئے وزیراعظم کو نا اہل قرار دے دیا اس پر بھی 31 جولائی 2017ء میں روزنامہ جنگ کا یہ کہنا کہ” جے آئی ٹی کی دستاویزات میںخامیوںکے باعث وزیراعظم نااہل ہوئے، جنگ رپورٹ” اس کے معروضی ہونے پر سوال اٹھاتا ہے اس کہ برعکس روزنامہ جسارت نے عدالتی تحقیقات اور جے آئی ٹی رپورٹ میں اپنا کوئی موقف دینے کی بجائے صرف جے آئی ٹی رپورٹس کو اپنے قاری تک پہنچایا جس سے اس کے غیر جانبدار ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
٭۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی ہدایت پر اینٹی کرپشن کورٹ کی کارروائی اور شریف خان کی نظر ثانی اپیل خارج کرنے کے اقدام کو پی اے سی آئی کے ارکارن نے کرپشن کے خلاف جنگ اور با اثر افراد کے خلاف کارروائی کے تناظر میں دلیرانہ اقدام قراردیتے ہوئے سراہا۔ اس پر روزنامہ جنگ کا یہ موقف سامنے آیا کہ وہ سپریم کورٹ کے وہ ریمارکس نقل کرتے رہے جس میں کہیں بھی جے آئی ٹی پر کوئی تنسرہ موجود ہو مثلا18 جولائی 2017ء میں جنگ نے کہا “جے آئی ٹی کے پابند نہیں، سپریم کورٹ” جن کہ اسی روز، روزنامہ جسارت نے اپنے اصولی معروضیت کے موقف کو اپناتے ہوئے عدالتی کاروائی کا حال اپنے قاری کے سامنے بیان کیا اور کہا “والیوم 10کھولیں، شریف خاندان۔ ضرورت پڑی توکھولیںگے عدالت عظمیٰ”۔
٭۔ امید کی جاتی ہے کہ عدالت کا وزیراعظم کی نا اہلی کا یہ فیصلہ ان با اثر افراد کی کرپشن کو، جوبرسر اقتدار ہوتے ہوئے قانون کامذاق اڑاتے رہے ہیں، ایک حدتک گرفت مضبوط کرنے کا باعث بنے گا۔ اس پر بھی روزنامہ جنگ اور روزنامہ جسارت کے خبروں کا جائزہ لینے سے بات واضح ہوجاتی ہے۔
روزنامہ جنگ 29 جولائی 2017ء
کاغذات نامزدگی میں اثاثوں سے متعلق غلط بیان حلفی جمع کرایا، عوامی نمائندگی ایکٹ اورآئین کے آرٹیکل 62کے تحت ایماندار نہیں رہے، صدرجمہوری عمل جاری رکھنے کے لئے اقدامات کریں، سپریم کورٹ
دبئی تنخواہ چھپانے پر وزیراعظم نا اہل
نیب کو نواز شریف، مریم، حسن، حسین، صفدرڈار کے خلاف 6 ہفتے میں ریفرینس دائر اور عدالت کو چھ ماہ میں فیصلے کا حکم، سپریم کورٹ کا جج نگرانی کرے گا، پانچوں ججوںکا متفقہ فیصلہ روزنامہ جسارت 29 جولائی 2017ء
وزیراعظم نے اثاثے چھپائے، صادق و امین نہیں رہے، عدالت عظمیٰ نواز شریف خاندان سمیت نا اہل مقدمات نیب کے حوالے 6 ماہ میں فیصلے کا حکم
٭۔ سوائے فیصلے کے اس بیان کے کسی خبری موقف میں مماثلت نہیں پائی جاتی۔ وجہ یہ ہے کہ روزنامہ جنگ مسلسل حکومتی موقف کی غلط حمایت پر ثابت قدم رہا خبروں کی معروضیت کو متاثر کرنے والے عوامل مثال کے طور پر خبروں کے صفحات پر جنگ کی تجزیات رپورٹننگ نمایاں رہی جس کے باعث عدالتی ریمارکس میں 25 جولائی 2017ء کو عدالت عظمیٰ نے کہا کہ “جنگ اور جیو گروپ نے جے آئی ٹی کو بدنام کیا ہے، عدالت عظمیٰ
جان بوجھ کر غلط رپورٹنگ کی گئی، ہمیں ہر بات کہنے پر مجبور نہ کریں”۔ اس کے برعکس جسارت اخبار ٹھوس موقف کے ساتھ معروضی طریقے سے اپنے قاری کو عدالتی موقف سے آگاہ کرتا رہا۔
12۔ نتائج(Finding):
مفروضے کی بنیاد پر تحقیق کی غرض سے مجموعی طور پر 62 اخبارات کا مطالعہ کیا گیا۔ جن میں 31 روزنامہ جنگ اور 31 روزنامہ جسارت کے خبری صفحات شامل تھے۔
یکم جولائی 2017ء سے31جولائی2017ء کی تمام خبروں میں سے صرف ان خبروں کا انتخاب کیا گیا جو پانامہ لیکس، عدالتی احکامات کے تناظر میں دی گئی تھی۔
روزنامہ جنگ کی بیشتر خبروں میں خبری مواد ہی میں تبصرہ کردیا گیا جو صحافتی اخلاقیات کیخلاف ہے یہں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عدالتی حکم آنے سے پہلے کئی بار عدالت نے روزنامہ جنگ اخبار اور اس کے برقیاتی چینل جیو کو اس غیر اخلاقی صحافتی عمل کی تنبیہ بھی کی یہاں تک کہ 26 جولائی 2017 کے ایکسپریس، جسارت اور نوائے وقت میں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے اس کے برعکس روزنامہ جسارت کی خبریں ٹھوس، واضح، معروضی اور بلا تبصرہ شائع کی گئیں۔
اس طرح نتائج کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ محققہ کا مفروضہ حقائق پر مبنی تھا کہ جسمیں کہا گیا کہ “جنگ اکثریتی خبروں میں حکومت کے ترجمان کا کردار ادا کرتا ہے جبکہ روزنامہ جسارت معروضیت کے ساتھ بیباکی سے۔ عدالتی خبریں اپنے قاری تک پہچائیں اور اپنا کوئی تبصرہ خبری صفحات پر دینے سے گریز کیا”
13۔ ماقبل تحقیقات(Literature Reviews):
1.CORRUPTION IN ZIMBABWE: AN EXAMINATION OF THE ROLES OF THE STATE AND CIVIL SOCIETY IN COMBATING CORRUPTION by STEPHEN MOYO at the at the University of Central Lancashire in 2014
2.Corruption in India: Bridging Research Evidence and Policy Option by Sandip Sukhtankar1 Milan Vaishnav2 at the Dartmouth College, BREAD, and J-PAL(India) in 2015
3. Corruption Around The World: Cause, Consequences, Scope and cures by Vito Tanzi at the International Monitory Fund (Fiscal Affairs Department)in 1998
4.Research on Corruption and Its Control byCarla A. Hills
CSIS Counselor and Trustee in 2006
5.Corruption and its control in Botswana by Sebudubudu, D. at Botswana Society in 2003
14۔ کتابیات (Bibliography):
1۔ بی بی سی اردو
2۔ 2b، dailykhabrain.com.pk
3۔ dailykhabrain.com.pk
4۔ dailykhabrain.com.pk
5۔ تحقیق کے طریقے از نثار احمد زبیری اشاعت فروری2009 ص 229
6۔ تحقیق کے طریقے از نثار احمد زبیری اشاعت فروری2009 ص 243
7،7b۔ اردو صحافت از انور علی دہلوی اشاعت 1999
8۔ جرنلسٹ از پروفیسر ڈاکٹر شمس الدین اشاعت 2011
9۔ جدیدابلاغیاتازمحمدظریفاشاعت 2000ء ص 77،76
٭۔ اردو اخبارات کا ارتقاء از راحت سہیل
٭۔ فن صحافت از ڈاکٹر عبدالسلام خورشید
٭۔ تعارف ابلاغ عامہ از ڈاکٹر طاہر مسعود
٭۔ اردو صحافت از انور علی دہلوی
٭۔ جرنلسٹ از ڈاکٹر شمس الدین
٭۔ جدید ابلاغیات از محمد ظریف
٭۔ Strategies of combating corruption, Frank Cass
٭۔Transparency International (2011), Daily Lives and Corruption: Public Opinion in South Asia, South Asia Corruption Barometer
15۔حوالہ جاتی مواد(References):
*?International Journal of Humanities and Social Sciences

حصہ