ایک عورت ایک کہانی، خوش نصیبی کی دستک

473

افروز عنایت
اسے خود بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ ربّ العزت اِس طرح اُس کی زندگی کی کایا یکایک پلٹ دے گا، سبھی لڑکیاں اس کی قسمت پر رشک کررہی تھیں۔ ارسلان اس کے چاچا کا بیٹا ہی تھا لیکن تعلیم یافتہ، وجیہ، شریف، نفاست پسند، مہربان اور رحم دل… تمام خوبیاں اس میں موجود تھیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے باپ کا چھوٹا موٹا کاروبار سنبھالا۔ اس کی ذہانت، سمجھداری اور ایمانداری کی بدولت کاروبار میں دن بدن ترقی ہوتی جارہی تھی، جب کہ زینب غریب باپ کی درمیانی شکل صورت کی سیدھی سادی لڑکی تھی، جن کی کفالت کی ذمہ داری بھی ارسلان کے والد کے ذمہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بہت سے رشتے داروں کو اس رشتے پر اعتراض تھا۔ بیٹیوں والے رشتے داروں کی نظریں ارسلان پر تھیں۔ سب اس رشتے پر ہاتھ مَلتے رہ گئے لیکن قریبی خواتین رشتے دار کسی نہ کسی بہانے سے زینب کو تنقید کا نشانہ بناتی رہتی تھیں، جس کی وجہ سے اسے ذہنی تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا تھا۔ آج بھی اسد کی دونوں پھوپھیاں اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں موجود تھیں۔ کھانا کھانے بیٹھیں تو حسب معمول دونوں نے ناک بھوں چڑھائی کہ اسد کا واسطہ کس گنوار سے پڑ گیا ہے، نہ کھانے پینے، نہ اٹھنے بیٹھنے کا ڈھنگ۔ جب کہ زینب نے اپنی طرف سے کوئی کمی نہ چھوڑی تھی انہیں مطمئن کرنے کے لیے۔ ان کے جانے کے بعد بھی وہ افسردہ رہی، لیکن وہ شکوہ کرتی بھی تو کس سے! اسد شام ڈھلے گھر آتا، دو تین نوالے لے کر پھر رات کو ہی واپس آتا، اپنے کام سے کام رکھتا، یوں محسوس ہوتا اُسے زینب سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس صورت حال کی وجہ سے وہ بجھی بجھی رہنے لگی، لیکن ہر طریقے سے اسے خوش کرنے کے جتن کرتی رہتی۔
سعدیہ: ارے تم نے یہ اپنا کیا حلیہ بنا رکھا ہے! میرا مطلب ہے ذرا بنائو سنگھار، ڈھنگ کے صاف ستھرے کپڑے ہونے چاہئیں، ویسے بھی تمہاری شادی کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا، جب کہ اسد بھائی کی نفاست اور اعلیٰ ذوق کے تو سارے پڑوسی گن گاتے ہیں۔
زینب: باجی میں کیا کروں! (پھر زینب نے بھرائی ہوئی آواز میں اسد اور اس کے تمام رشتہ داروں کے رویّے کے بارے میں سعدیہ باجی کو بتایا)۔ سعدیہ اسد اور اس کے گھر والوں کو بہت عرصے سے جانتی تھی، ان کے رکھ رکھائو اور عادتوں سے واقف تھی، اسے اس غریب لڑکی پر ترس آگیا، اس نے تہیہ کرلیا کہ وہ اس سلسلے میں زینب کی رہنمائی اور مدد کرے گی تاکہ وہ کم از کم اسد کی توجہ اور پیار تو حاصل کرسکے۔ لہٰذا اس نے زینب کو سمجھایا کہ تمہیں اپنے آپ کو بدلنا پڑے گا، اسد کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھنا ہوگا جس سے وہ خوش ہوسکے۔
وہ زینب جو کل تک چائے بھی بدمزا بنا پاتی، اپنے شوق اور توجہ سے لذیذ کھانے بنانے کے جتن کرنے لگی۔ وہ پڑھی لکھی نہ تھی، قرآن پڑھانے کے لیے ایک خاتون کو مقرر کیا جس کی وجہ سے وہ جوڑ جوڑ کر اردو پڑھنے کی کوشش کرتی۔
اسد: یہ میرے دو تین جوڑے استری کرکے رکھنا، میں ابھی آتا ہوں۔
زینب: (ڈرتے ڈرتے) آپ کہیں… جارہے ہیں؟
اسد: ہاں (یہ کہتے ہوئے وہ گھر سے باہر چلا گیا)۔ ایک گھنٹے کے بعد گھر میں داخل ہوا، ابا کے کمرے میں جھانکا کہ کہیں وہ تو گھر نہیں آگئے۔ ابا کو گھر میں نہ پاکر اسد مطمئن ہوگیا اور جلدی سے کپڑے سوٹ کیس میں رکھے اور دروازے کی طرف پلٹ گیا۔ پھر کچھ سوچ کر اس نے کچھ رقم جیب سے نکالی اور پلنگ پر رکھ کر زینب سے مخاطب ہوا ’’کچھ منگوانا ہے تو چاچا سے منگوا لینا، یہ رقم رکھ لو۔‘‘
ابا (سسر) رات کو دیر سے آئے۔ زینب نے انہیں رات کا کھانا دیا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ معلوم نہیں اسد ابا کو بتا کر گئے ہیں یا نہیں، اگر ابا نے پوچھا تو کیا جواب دوں گی کہ کہاں گئے ہیں؟ وہ تو شکر کہ ابا یہ سمجھ کر کہ اسد اپنے کمرے میں سورہا ہے، خود بھی سونے چلے گئے۔ اگلے دن ابا دوپہر میں باہر سے گھر میں داخل ہوئے تو تھوڑے ناراض دکھائی دیئے۔
ابا: (زینب سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے) یہ اسد شہر سے باہر گیا ہے، تم نے مجھے بتایا نہیں۔ یہ تو سہیل (اسد کا دوست) کے والد راستے میں ملے، انہوں نے بتایا کہ دونوں دوست دو تین دن کے لیے کوئٹہ گھومنے گئے ہیں۔
زینب: جی جی ابا مجھے… اسد نے بتایا تھا لیکن میں سمجھی کہ آپ کو معلوم ہوگا۔
ابا: (ہنستے ہوئے) ڈر رہا ہوگا کہ میں منع کردوں گا۔ چلو خیر تمہیں بتا کر گیا تھا، اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہے۔
پانچ دن کے بعد اسد کی واپسی ہوئی۔ وہ ڈر رہا تھا کہ اب ابا اس کے کان کھینچیں گے، لیکن اسے بڑی حیرانی ہوئی کہ ابا نے نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ کوئٹہ کا حال احوال بھی معلوم کرنے لگے۔ وہ تو اس ڈر سے ابا کو بھی بتاکر نہیں گیا تھا کہ ابا بڑے غصے والے ہیں، ناراض نہ ہوجائیں کہ دلہن کو چھوڑ کر کیوں جارہے ہو۔
ابا: اچھا بیٹا تم تھکے ہوئے ہوگے، کچھ دیر آرام کرلو۔ یہ تو اچھا ہوا کہ تم زینب کو بتا کر گئے تھے کہ تم چند دنوں کے لیے کوئٹہ جارہے ہو۔
اسد نے حیرانی سے کچن میں کھڑی زینب کو دیکھا جو کھانا بنانے میں مشغول تھی۔
رات کا کھانا زینب نے اسد کے سامنے رکھا، اس نے جلدی جلدی اسد کی پسند کے مطابق کھانا بنایا تھا، ڈر رہی تھی کہ نہ جانے جلدی میں کھانا کیسا بنا ہے۔ اسد کی آواز نے اسے چونکا دیا۔
اسد: تم نے کھانا کھالیا؟
وہ بڑی حیرانی سے اسد کو دیکھ رہی تھی، کیوں کہ ان پانچ چھ مہینوں میں اسد نے صرف کام کی غرض سے ہی اسے مخاطب کیا تھا ۔ آج یہ انقلاب…!
زینب: جی وہ میں بعد میں کھالوں گی، باقی سب نے کھالیا ہے (اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے)۔
اسد: جب سب کھا چکے ہیں تو تم بھی کھالو۔
شادی کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ وہ اسد کے ساتھ کھانا کھارہی تھی۔
سعدیہ باجی کے کہنے کے مطابق اس نے اچھا اوڑھنا پہننا شروع کردیا تھا۔ گھر کو بھی نفاست سے سجا سنوار کر رکھنے کی کوشش کررہی تھی۔ کمرے کی ہر چیز قرینے سے اپنی اپنی جگہ موجود تھی۔ کھانا کھا کر زینب برتن اُٹھا کر کچن میں دھونے چلی گئی۔ اسد نے ایک نظر کمرے پر ڈالی اور سامنے کچن میں کھڑی زینب کو غور سے دیکھنے لگا۔ نکھری صاف ستھری زینب اتنی بری نہ تھی۔ وہ پہلی مرتبہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا، ورنہ دونوں کے درمیان میاں بیوی والا واجبی سا رشتہ موجود تھا جو وہ اپنے گھر والوں کی طرف سے مسلط کیا ہوا سمجھتا تھا۔ حالاں کہ اس کی شخصیت و کردار صاف ستھرے تھے لیکن وہ زینب کو اپنے مزاج کا نہیں سمجھتا تھا۔ اس کی تو مرحومہ والدہ تک اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ وہ اپنے بچوں کو بھی اعلیٰ مقام پر دیکھنا چاہتا تھا، لیکن زینب ایک اَن پڑھ لڑکی تھی، اسد کا نظریہ تھا کہ زینب نہ میرے بچوں کے لیے اچھی ماں اور نہ میرے لیے اچھی بیوی ثابت ہوگی۔ لیکن آہستہ آہستہ اس نے نوٹ کیا کہ اس کا کمرہ اس کے ذوق کے مطابق سنورا ہوتا ہے، کھانا بھی لذیذ بن رہا ہے، اس کے رشتے داروں کی آئو بھگت میں وہ کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتی۔ ایک دن اسے بڑی حیرت ہوئی جب وہ اچانک کسی کام کے سلسلے میں بے وقت گھر آیا تو زینب کو بغور اخبار کا مطالعہ کرتے دیکھا۔ اس نے سر جھٹک کر سوچا کہ ہوسکتا ہے وہ اخبار میں تصاویر دیکھ رہی ہو۔ لیکن اگلے دنوں میں اس نے نوٹ کیا کہ کئی اخبارات اور رسالے بھی اس کے کمرے میں موجود ہوتے ہیں۔ آخر ایک دن اس نے زینب سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ سعدیہ باجی سے کچھ رسالے اور اخبار پڑھنے کے لیے مانگ لیتی ہے۔ حیرانی سے اس نے پوچھا کہ تم اخبار پڑھ لیتی ہو؟
زینب: ہاں… لیکن کہیں کہیں اٹک ہوتی ہے۔ اسد کو بڑی خوشی ہوئی، بلکہ اب وہ بھی کچھ کارآمد رسائل گھر میں لانے لگا۔ اگلی مرتبہ اسد نے اپنے دوستوں کے ساتھ پاکستان ٹور پر جانے کا پروگرام بنایا تو زینب نے کہا کہ ہم سب گھر والے بھی مل کر جاسکتے ہیں۔ اسد کو گھومنے پھرنے کا بڑا شوق تھا، وہ شادی سے پہلے بھی اکثر جاتا رہتا تھا۔ بیوی کو اس طرح شوق سے کہتے سن کر اس نے ارادہ کیا کہ اگلے سال وہ اپنی فیملی کے ساتھ جائے گا۔ چند برسوں میں ہی اسد زینب کے سلیقے اور عادتوں سے متاثر نظر آنے لگا۔ بچوں کے سلسلے میں بھی زینب بڑی ذمہ دار ثابت ہوئی، اس نے بچوں کی دینی اور دنیاوی تعلیم اور تربیت کا خاص خیال رکھا۔ اب اسد گھر اور بچوں کی ذمہ داری سے بالکل فارغ تھا، لہٰذا اس نے تمام توجہ کاروبار پر لگائی۔ کاروبار میں برکت ہوئی اور خوشحالی نے اس کے گھرانے کو منور کردیا۔ وہ اسد جو زینب سے دور دور رہتا اور اسے ایک بوجھ سمجھتا، آج مطمئن تھا کہ اس کی بیوی نہ صرف نیک، سلیقہ مند و سگھڑ عورت ہے بلکہ ایک اچھی ماں کی تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں۔ زینب بھی اپنے شوہر کو عزت و احترام کا مقام دیتی کہ اس شخص نے ربّ کی رضا سے مجھے معاشرے میں عزت و احترام کا مقام دیا ہے۔ خاندان کے وہ افراد جو اس کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتے، اب اسے سر آنکھوں پر بٹھانے لگے۔ گرچہ زینب کو کچھ عرصہ بڑی اذیت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس نے اپنے آپ کو کمزور نہ پڑنے دیا بلکہ اسد کی خواہش اور پسند کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کی، جس میں ربّ العزت نے اسے کامیابی عطا کی۔

حصہ