این ای ڈی یونیورسٹی اور بزم شعر و سخن کا مشاعرہ

953

سیمان کی ڈائری
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ مشاعرے اب باقاعدہ ایک کاروبار بن چکے ہیں ۔پڑھنے کے بعد مجھے کچھ عجیب سا لگا لیکن بات بالکل ٹھیک لکھی تھی۔ ایک زمانہ تھا جب مشاعروں کا ایک خاص اہتمام ہوا کرتا تھا۔مغل بادشاہوں کے دورحکومت میں خاص کر مشاعروں کو خاص سطح کا فروغ حاصل تھا اورشعرا کو قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا تھا۔ پھر دلی اور لکھنوکے نوابوں نے بھی مشاعروں کو فروغ دیا ۔مشاعرہ کہا جائے تو ایک ادبی تہذیب تھی جس کا عرصہ حیات زیادہ تو نہیں لیکن کم بھی نہ تھا۔مشاعرے سے لوگ زبان ہی نہیں بلکہ بات کرنے کے ادب و آداب ،تہذیب بھی سیکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی کچھ دہائیوں تک مشاعروں کا انعقاد ہوتا رہا ۔ حکومتی سطح پر مشاعرے ہونے لگے اور یوں مشاعروں کی روایت بڑے شہروں سے ہوتی ہوئی قصبوں،دیہاتوں میں بھی ہونے لگی۔
بادشاہوں کے زمانے میں تو صرف ان کے دربار میں مشاعروں کی روایت رہی۔بڑے نوابوں نے اپنی حویلیوں میں مشاعرے آباد کیے۔ درباری شعرا کے اخراجات بادشاہ اٹھاتے تھے یعنی وظیفے مقرر کیے جاتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اردو ادب کو فروغ دینے کے لیے حکومتی سرپرستی میں سرکاری ادارے قائم کیے گئے جو آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔جہاں ادیبوں کی کتابیں شائع کی جاتی رہی ہیں اور انھیں کچھ معاوضہ بھی دیا جانے لگا۔ پھر وہ ادارے کچھ ایسے لوگوں کے ہاتھ بھی لگے جنھوں نے اردو ادب کے فروغ کے بجائے اپنا پیٹ بھرنا شروع کر دیا۔اس کے بعد جو کچھاردو ادب کا حال ہوا سب آپ کے سامنے ہے۔مشاعروں کو بھی کچھ لوگوں نے دھندہ بنا لیا اور اسے صرف اپنی دکان چمکانے کے لیے کمائی کا ذریعہ بنا لیا اور گھسے پٹے شعرا سے مشاعرہ پڑھوا کر جو اس کی ساکھ تھی اسے خراب کیا گیا۔ اب تو یہ بھی ہوتا ہے کہ شعرا ہی شعرا کو اپنے ہاں مدعو کرتے ہیں پھر وہ بھی یہی توقع رکھتے ہیںکہ دوسرے شہر میں انھیں بھی بلایا جائے۔ بہرحال مشاعرہ ایک موضوع ہے اس پر پھر کبھی تفصیل سے گفتگو ہوگی۔ میں یہاں حال ہی میں منعقد کیے جانے والے دو مشاعروں کے حوالے سے کچھ ان کی روداد اور کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ ایک مشاعرہ جو پچھلے دنوں این ای ڈی یونیورسٹی میں منعقد کیا گیا۔ اس مشاعرے کی صدارت کراچی یونیورسٹی کے سابق شیخ الجامعہ جناب ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے کی۔ نظامت کے فرائض خلیل اللہ فاروقی نے ادا کیے۔ اس مشاعرے میں دو سینئرز جناب انور شعور اور اعجاز رحمانی بھی شریک تھے۔ مشاعرے سے قبل شعرا کرام کو بہت تہذیب کے ساتھ ایک بڑے سے کمرے میں ٹھیرایا گیا جہاں ان کی خاطر مدارت بھی کی گئی۔ انتظامیہ کی جانب سے تمام شعرا کرام کو آڈیٹوریم لایا گیا جہاں سامعین موجود تھے۔ باری باری تمام شعرا کے نام پکارے گئے۔ اسٹیج پر آنے سے قبل ہر شاعر کو باعزت طریقے سے بلایا گیا‘ پھول پیش کیے گئے ۔یہ بلا شبہ انتظامیہ کی جانب سے اچھی کاوش تھی جس سے ان کے ادب اوراچھے ذوق کا پتا چلتا تھا۔تمام شعرا کو مدعو کرنے کے بعد باری باری ان سے کلام سنا گیا اور سامعین کی جانب سے بھرپور داد بھی دی گئی۔ڈاکٹر پیر زادہ قاسم کی صدارت میں ہونے والے اس مشاعرے میں عبدالرحمن مومن، سانی سید، یاسمین یاس، طاہر عظیم ،عمران شمشاد، سلمان صدیقی، علاء الدین خانزادہ، خالد معین، اجمل سراج، عقیل عباس جعفری، انور شعور، اعجاز رحمانی اور دیگر شریک تھے۔ مشاعر کے بعد تمام شعرا کو دوبارہ اسی ہال میں لے جایا گیا جہاں مشاعرے سے قبل انھیں ٹھیرایا گیا تھا۔ اس ہال نما کمرے میں تمام شعرا کرام کو رات کاکھانا کھلایا گیا ۔ایک بات جومیں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ بلاشبہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مشاعرے کا انعقاد قابل ستائش تھی‘ انتظامیہ کی جانب سے مشاعرے سے قبل و آخر تک کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی‘ پُروقار اور باعزت طریقے سے ایک اچھے مشاعرے کا انعقاد کیا گیا اور اچھے شعرا کرام کو مدعو کیا گیا تھا۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ انتظامیہ کی جانب سے سامعین کو بھی وقت پر جمع کیا جاسکتا یا کوئی ایسا وقت رکھا جاتا کہ جس میں یونیورسٹی کے طلبہ کی اگر آدھی تعداد بھی ہوتی تو شاید آڈیٹوریم کی خالی کرسیاںبھر سکتی تھیں۔ دوسرا مشاعرہ بزم شعرو سخن کے زیراہتما م سماجی رہنما جناب طارق جمیل کے گھر پر منعقد کیا گیا۔بزم شعروسخن وہ تنظیم ہے جسے کچھ دوستوں نے واٹس ایپ گروپ کے ذریعے شروع کیا پھر انھیں دوستوں کی کاوش سے اسے حقیقی دنیا میں لایا گیا اور اس کے زیرانتظام متعدد مشاعرے منعقد کیے گئے اور جلد ہی اس شہر میں بزم شعرو سخن تنظیم نے اپنا نام بنا لیا۔اس تنظیم کے علاوہ بھی سماجی وادبی دوست شخصیت جناب طارق جمیل بہت محبت سے اپنے ہاں بے شمار مشاعرے منعقد کرچکے ہیں ۔اس بار بھی انھوں نے اپنے ہاں بزم شعرو سخن کے زیر اہتما م چند شعرا پر مشتمل ایک مشاعرہ ترتیب دیا جس میں انھوں نے بیرون ملک سے آئے ہوئے شعرا کرام کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ معروف شاعر رفیع الدین راز حال ہی میں امریکا سے تشریف لائے‘ ان کی صدارت رکھی گئی۔ مہمان شعرا میں غزل انصاری،ذکیہ غزل اور عقیل دانش صاحب نمایاں تھے۔ مقامی شعرا میں دلاور علی آذر،فیصل شبیہ،سلما ن صدیقی ،حکیم ناصح،قیصر وجدی،اجمل سراج اور دیگر مدعو تھے۔ مشاعرے کو طارق جمیل صاحب کے گھر کی وسیع چھت پرمنعقد کیا گیا۔گو کہ مشاعرہ خاصی تاخیر سے شروع ہوا لیکن سامعین کی اچھی خاصی تعداد نے رات گئے آخر تک مشاعرے کو سردی میں گرمائے رکھا اور ہر شعر پر بھرپور داد بھی دی۔مشاعرے کے اختتام پر طارق جمیل صاحب نے کھانے کا پرتکلف اہتما م بھی کیا تھا۔اس مشاعرے میں خواتین بھی شریک تھیں۔
بزم شعروسخن کے نام سے جانی جانے والی اس ادبی تنظیم نے کچھ ہی عرصے میں اپنے زیر انتظام بہترین پروگرام منعقد کیے ہیں اور ادیب شعرا کی کتابیں بھی شائع کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اللہ پاک ان کے ارادوں کو مضبوط بنائے میں ان کے لیے تہہ دل سے دعا کرتا ہوں۔ایک بات جو مجھے کہنا مقصود ہے ،وہ یہ کہ بیرون ملک سے آئے ہوئے شعرا کے ساتھ شام کیوں ؟عام طور پر دیکھا جاتا ہے جب کوئی بیرون ملک سے آتا ہے تو مقامی شعرا ہی ان کے ساتھ شامیں مناتے ہیں‘ انھیں مشاعروں میں مدعو کرتے ہیں کیوں کہ یہاں سے بھی جو شعرائے کرام بیرون ملک جاتے ہیں تو انھیں بھی ویسی ہی عزت ملتی ہے جیسی وہ اپنے ملک میں کرتے ہیں تو پھر بزم شعروسخن کا باہر سے آئے ہوئے شعرائے کرام کے ساتھ شام منانا…؟خیر یہ تو اس ادبی تنظیم کے منتظمین ہی بتا سکتے ہیں۔مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ وہ شعرائے کرام جو اساتذہ کا درجہ رکھتے ہیں اورحیات ہیں جیسا کہ انورشعور، سحر انصاری، افضال احمد سید، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، اسد محمد خان وغیرہ تو ان کے ساتھ ’’شام‘‘ کب منائی جائے گی؟ حال ہی میں اردو کلاسیکل غزل کے آخری شاعر محترم رسا چغتائی کی رحلت ہوئی ان کی صدارت میں مشاعرے تو بہت منعقد ہوئے لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی نے ان کے ساتھ شام منائی ہو…ایسا کیوں…؟

حصہ