بزمِ سراج الادب کا مشاعرہ

535

ڈاکٹر نثار احمد نثار
کراچی میں ادبی خدمات کے حوالے سے سراج الدین سراج ایک اہم نام ہے‘ یہ ادبی اور تہذیبی روایات کو آگے بڑھا رہے ہیں‘ ان کے کریڈٹ پر کئی اہم تقریبات ہیں‘ بہت سے اہم لکھنے والے ان کی ساتھ جڑے ہوئے ہیں‘ اس پُر آشوب دور میں شعر و ادب کی آبیاری کرنا ایک دشوار کام ہے لیکن سراج الدین سراج گزشتہ 35-40 برسوں سے یہ کام انجام دے رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر جاذب قریشی نے بزمِ سراج الادب کے مشاعرے میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا انہوں نے کہا کہ آج کے مشاعرے کے مہمان خصوصی رفیع الدین راز ایک کہنہ مشق شاعر ہیں جو کہ امریکا میں مقیم ہیں‘ یہ ہمارے شہر کی عزت و آبرو ہیں‘ انہوں نے زندگی بھر محبتیں تقسیم کی ہیں ان کی شاعری میں زندگی کے تمام رنگ نظر آتے ہیں۔ یہ غزل اور نظم دونوں کے مضبوط شاعر ہیں ان کے یہاں جدید لفظیات اور نئے نئے استعارے نظر آتے ہیں۔ پروفیسر جاذب قریشی نے مہمان اعزازی ذکیہ غزل کے بارے میں کہا کہ وہ کراچی کے نمائندہ شعرا میں شامل ہیں انہوں نے بیساکھیوں کے سہارے عزت و شہرت حاصل نہیں کی بلکہ اپنی محنت اور جہد مسلسل سے اپنی پہچان بنائی ہے اب یہ کینیڈا میں اپنی تنظیم ’’اظہار‘‘ کے پلیٹ فارم سے ادبی سرگرمیوں میں مشغول ہیں ان کی کوششوں سے کینیڈا میں اردو ادب فروغ پا رہا ہے۔ ذکیہ غزل نے کہا کہ اس نفسا نفسی کے دور میں شعر و ادب کے لیے وقت نکالنا بڑی بات ہے انہیں بہت خوشی ہے کہ کراچی میں شاعری کی محفلیں سجائی جارہی ہیں لوگ ایک دوسرے کی تقریبات میں شامل ہو رہے ہیں جب کہ نفرتیں‘ عداوتیں اور کینہ پروری کے باعث ہم زندگی کے ہر شعبے میں دوسروں سے پیچھے ہیں۔ جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے ترقی نہیں کر پائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ دس سال سے کینیڈا میں ہیں اس دوران انہوں نے 27 پروگرام منعقد کیے جس میں عالمی مشاعرے شامل ہیں اور کئی شعرا کا جشن منایا گیا جن شعرا کا جشن منایا گیا انہیں کیش ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ وہ نیک نیتی سے اپنا کام انجام دے رہی ہیں وہ نہ تو کسی سے خوفزدہ ہیں اور نہ ہی انہیں کسی قسم کا لالچ ہے۔ وہ جب بھی کوئی پروگرام کرتی ہیں تو دوسرے لوگوںکی طرح مشاعرے کے ٹکٹ فروخت نہیں کرتیں۔ ادبی پروگراموں میں وہاں کا سفات خانہ ہمارے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں اچھی شاعری ہو رہی ہے‘ نئے ڈکشن کے ساتھ اشعار سامنے آرہے ہیں‘ الفاظ کی حرمت کا حق ادا کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ شاعر اپنے معاشرے کا نباض ہوتا ہے اس لیے ہم جہاں رہتے ہیں وہاں کے معاشرتی رویوں کو لکھتے ہیں پاکستان والے پاکستانی سماج لکھ رہے ہیں۔ رفیع الدین راز نے کہا کہ ذکیہ غزل نہایت سنجیدگی سے اردو ادب کے فروغ میں مصروف عمل ہیں انہوں نے بے شمار مخالفتوں کے باوجود اپنا مقام بنایا ہے۔ ان کا ترنم ان کی شاعری آج بھی زندہ ہے۔ بہت سوچ سمجھ کر حرف لکھتی ہیں انہوں نے ہر صنفِ سخن میں اشعار کہے ہیں لیکن غزل ان کی شناخت ہے۔ میزبان مشاعرہ سراج الدین سراج نے کہا کہ وہ اب اپنے ذاتی مکان میں شفٹ ہو گئے ہیں ان شاء اللہ تعالیٰ اب اس مکان میں پروگرام ہوا کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اردو ادب کے طالب علم ہیں اور شعر و ادب کے لیے وقف ہیں انہیں کسی صلے کی تمنا ہے نہ شہرت کی آرزو ہے‘ وہ اردو کی ترقی چاہتے ہیں اس سلسلے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ تمام شعرا کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت مجھے دیا اور آج کی محفل کو کامیاب بنایا۔ اس مشاعرے کی نظامت رشید خان رشید نے کی۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں سید آصف رضا رضوی‘ فیروز خسرو‘ سید فیاض علی‘ اختر سعیدی‘ جمال احمد جمال‘ سلیم فوز‘ نثار احمد نثار‘ عظمیٰ جون‘ شاہد اقبال شاہد‘ رضی عظیم آبادی‘ سراج الدین سراج‘ حامد علی سید‘ احمد سعید خان‘ آسی سلطانی‘ اسد قریشی‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ زاہد علی سید اور سعد الدین سعد شامل تھے۔

اکادمی ادبیات پاکستان کا مشاعرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ملک کے پنجابی زبان کے نامور شاعر شریف کنجاہی کی یاد میں مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت معروف دانشور امریکا سے آئی ہوئی رضیہ سبحان نے کی مہمان خاص منور جہاں (کینیڈا) اور مہمان اعزازی یامین عراقی (ڈنمارک) تھی اس موقع پر رضیہ سبحان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شریف کنجاہی صاحب پاک و ہند میں پنجابی زبان کی لسانی انقلابی تحقیقی مذہبی اور تنقیدی صورت حال کی تبدیلیوں کے وہ واحد فرد ہیں جنہیں غلامی و معاشی عدم تحفظ کے عذاب کو سہنا پڑا اور یارانِ مہربان سے بچھڑ کر آزادی کا گھونٹ بھی پیا۔ پریت نگر سے آسو مرادوں کی اندھیر نگری تک طویل سفر میں سورج سوچ سائے باہم یکجا ہو گئے ہیں۔ اس موقع پر ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ شریف کنجاہی کی شاعری میں شعور و فکر کا متوازن امتزاج ہے وہ گردوپیش کے حقائق کو حیرت سے بھی دیکھتے ہیں اور تجزیاتی نگاہ سے بھی ان کی شاعری میں ہمارا سماجی منظر نامہ بھی موجود ہے اور ان مناظر سے وہ زندگی کی بنیادی صداقت کی طرف بھی سفر کرتے ہیں ان کا شعری اسلوب ماہرانہ ہے ان کے کلام کی فکری گہرائی ان کے لہجے کی تاثیر نے انہیں جدید پنجابی شعری میں منفرد مقام عطا کیا ہے۔ اس موقع پر جن شعرا نے کلام سنایا ان میں جاوید حسین صدیقی‘ اقبال افسر غوری‘ خالد نور‘ اقبال رضوی‘ شاہد اقبال‘ محمد اقبال‘ فرحت اسرار‘ سید صغیر احمد جعفری‘ ضیا شہزاد‘ تنویر حسین سخن‘ قمر جہان قمر‘ طاہر سلیم سوز‘ نسیم زیدی‘ رانا صنم‘ عشرت حبیب‘ زیب النساء زیبی‘ صبیحہ صبا‘ دلشاد احمد دہلوی‘ محمد رفیق‘ شاکر‘ سلیم حامد خان‘ سید مشرف علی‘ محمد علی زیدی‘ سید علی اوسط‘ شاہینہ صدیقی‘ سید احمد صادق اور دیگر شعرا شامل تھے۔ قادر بخش سومرو نے آخر میں اکادمی ادبایت پاکستان کی جانب سے شکریہ ادا کیا۔

اردو باغ کی افتتاحی تقریب

اردو زبان نے ہم سب کو آپس میں جوڑے رکھا ہے‘ یہ ہمارے مالک میں رابطے کی زبان ہے‘ ہر پاکستانی اردو بولتا اور سمجھتا ہے‘ یہ ہمای قومی زبان ہے اس کی حفاظت ہماری ذمے داری ہے‘ ان خیالات کا اظہار صدر پاکستان ممنون حسین نے انجمن ترقی اردو پاکستان کے قائم کردہ ’’اردو باغ‘‘ کی بلڈنگ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو باغ ایک منصوبہ نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے‘ یہ ایک جہد مسلسل ہے جس کا تعلق پاکستان کی ترقی و خوش حالی سے ہے خدا کا شکر ہے کہ آج بابائے اردو مولوی عبدالحق اور جمیل الدین عالی کا خوب پورا ہو رہا ہے۔ اردو باغ ان حضرات کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ انہوں نے اردو زبان کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایوان صدر کے تمام دفاتر کے مشاہیر کو پاکستان کے نام سے منسوب کر دیا ہے اور وہاں ہونے والی تمام تقاریب اردو میں ہوتی ہیں وہ خود بھی اردو میں تقریر کرتے ہیں اور اردو کے عملی نفاذ کے لیے مخلص ہیں ان کی خواہش ہے کہ اردو کو پروموٹ کیا جائے۔ تقریب کی مہمان اعزازی میئر کراچی وسیم اختر تھے جن کو صدر ممنون حسین نے ’’نشان سپاس‘‘ پیش کیا۔ انجمن کی معتمد اعزازی ڈاکٹر فاطمہ حسن نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا اور انجمن کے صدر ذوالقرنین جمیل نے کلمات تشکر پیش کیے۔ ڈاکٹر رخسانہ صبا نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس موقع پر جمیل الدین عالی کی 93 ویں سالگرہ کا کیک کاٹا گیا اور یونیورسٹی روڈ کو جمیل الدین عالی کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔

ادبی تنظیم تخلیق کار کا مشاعرہ

تخلیق کار ایک ادبی انجمن ہے جو کہ ہر ماہ ایک ادبی پروگرام ترتیب دیتی ہے‘ اسی تناظر میں 16جنوری 2018ء کو پریس کلب کراچی میں اس انجمن نے اپنی 30 ویں شعری نشست منعقد کی جس کی صدارت سعیدالظفر صدیقی نے کی۔ عقیل دانش‘ باسط جلیلی‘ غزل انصاری اور ترنم شبیر مہمانان خصوصی تھے۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ حجاب عباسی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہ اکہ ان کی ادبی تنظیم تخلیق کار نے بہت کم عرصے میں اپنی شناخت بنائی ہے ہم بلا تفریق رنگ و نسل قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں‘ ہم اپنی مدد آپ کے تحت اپنے پروگرام منعقد کر رہے ہیں ہمارا مقصد مال و دولت کمانا نہیں ہے بلکہ ہم خلوص دل سے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔
سلمان صدیقی نے مہمانانِ خصوصی کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ باسط جلیلی ہوسٹن امریکا سے تشریف لائے ہیں یہ وہاں اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں یہ ایک امریکی ٹی وی پر Host ہیں‘ یہ ’’شاعر اور خواب‘‘ کے عنوان سے قلم کاروں کے انٹرویوز ریکارڈ کرتے ہیں اور انہیں ٹی وی پر نشر کرتے ہیں ہر سال پاکستان سے چھ شعرا کو امریکا بلا کر مشاعرہ پڑھواتے ہیں ان کی ادبی تنظیم کا نام ’’بزم یارانِ سخن‘‘ ہے جو کہ امریکا میں انتہائی فعال ادبی ادارہ ہے۔ عقیل دانش کے بارے میں سلمان صدیقی نے کہا کہ وہ برطانیہ میں مقیم ہیں اور پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ یہ مشاعروں کی فی البدیہہ نظامت کرتے ہیں۔ برطانیہ سے آئی ہوئی شاعرہ غزل انصاری کے بارے میں سلمان صدیقی نے کہا کہ غزل انصاری بھی ایک ادبی تنظیم کی اہم فرد ہیں ان کی تنظیم برطانیہ میں عالمی مشاعروں کا انعقاد کرتی ہے جس میں کیش ایوارڈ بھی دیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترنم شبیر کا تعلق امریکا سے ہے لیکن وہ پاکستانی نژاد ہیں بہت عمدہ اشعار کہتی ہیں۔
صاحبِ صدر سعیدالظفر صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ تمام احباب قابل مبارک باد ہیں جو پاکستان یا بیرون پاکستان اردو ادب کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ دیارِ غیر میں رہنے والے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر مشاعرے و مذاکرے کراتے ہیں اس طرح شعر و ادب کی خدمت ہو رہی ہے اب اردو زبان دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل رہی ہے باالفاظ دیگر یہ زبان ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ امریکا‘ کینیڈا‘ برطانیہ اور عرب امارات میں اردو مشاعرے اپنی مثال آپ ہیں۔ ہر مہمانان خصوصی نے اپنا کلام سنانے سے پہلے کچھ گفتگو کی۔ تمام مہمانان خصوصی کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ پاکستان میں آکر بہت خوش ہوتے ہیں کیونکہ وہ بنیادی طور پر پاکستانی ہیں اور معاشی مجبوریوں کے تحت روٹی روزی کمانے کے لیے دیارِ غیر میں مقیم ہیں اردو ہماری شناخت ہے ہم تمام اختلافی مسائل کو بھلا کر اس زبان کی ترویج و اشاعت میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسل تک شعر و ادب کا سرمایہ منتقل ہو جائے اس سلسلے میں ہم اپنے بچوں کو انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو بھی پڑھاتے ہیں۔ اس مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمانان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ شعرا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا ان میں ریحانہ روحی‘ علاء الدین خان زادہ‘ نثار احمد نثار‘ محسن رضا دعا‘ حجاب عباسی‘ یاسر سعید اور کشور عدیل جعفری شامل تھے۔ اس موقع پر تخلیق کار کے صدر کشور عدیل جعفری نے تمام شرکائے محفل کا شکریہ ادا کیا۔

شمع ادب کا نعتیہ مشاعرہ

پروفیسر عبدالواحد صدیقی کی رہائش گاہ پر شمع ادب کے زیر اہتمام نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت اختر سعیدی نے کی۔ عبدالصمد تاجی نے نظامت کے فرائض دیے۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ رشید خاں رشید‘ صفدر علی خاں‘ احمد اقبال‘ اسحاق خان اسحاق‘ افضل ہزاروی‘ الحاج یوسف اسماعیل اور تنویر سخن نے نعتیہ کلام پیش کیا۔ پروفیسر عبدالواحد صدیقی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر ماہ اپنی رہائش گاہ پر مشاعرہ منعقد کروائیں گے۔ آج پہلا مشاعرہ ہے جس کا آغاز نعتیہ اشعار سے ہوا ہے۔ نعت کی صنف سخن اس وقت بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اب تواتر کے ساتھ نعتیہ مجموعے شائع ہو رہے ہیں اس کے ساتھ نعت پر تحقیقی اور مطالعاتی ریسرچ بھی جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لانڈھی‘ کورنگی میں ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں ہم بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ صاحب صدر نے کہا کہ نعت کہنا آسان کام نہیں ہے نعت میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ غلو یا جھوٹ سے انسان گناہ گار ہوتا ہے۔ نعت کے مضامین میں عبد و معبود کا فرق نمایاں ہونا چاہیے۔ نعت کے اشعار میں حمد کے مضامین نہیں لکھے جاسکتے نعت کہتے وقت جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عشقِ رسولؐ کے بغیر نعت نہیں ہوسکتی۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دینِ اسلام کا حصہ ہے۔ اسحاق خان اسحاق نے کلماتِ تشکر ادا کیے انہوں نے کہا کہ وہ شمع ادب کے تحت ادبی پروگراموں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ہم اپنے مشاعروں میں لانڈھی‘ کورنگی کے علاوہ بھی تمام علاقوں کو نمائندگی دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تنظیم ایک نوزائیدہ ادبی ادارہ ہے مگر ہم آہستہ آہستہ اپنی شناخت بنا رہے ہیں۔

حصہ