کیا ادب کی موت واقع ہوگئی ہے؟۔

364

شکیل خان
آنا یارِ جانی کا
کھِلنا رات کی رانی کا
نرمی اس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
ڈیرے دا رن کیا جانے
پیار کسی مغلانی کا
رسا بھائی بھی چلے گئے
2018ء کیا آیا لگتا ہے کہ چراغ بجھانے کے واسطے آیا ہے۔ سہج سہج کر اشعار پڑھنے والے اردو غزل کی آخری شمع جو کلاسیکی انداز کے شعر اور اس پر رسا بھائی کا انداز بھی اسی طرح رسیلا کہ غزل مکمل ہو کر سامنے آجائے۔ ہجرت کا وہ دکھ‘ گلیوں سے جدا ہونے کا وہ ملال‘ تہذیب و روایات سے دور ہونے کی کسک‘ یہ سب کچھ رسا بھائی کی شاعری میں موجود تھا۔
کراچی کا ادبی منظر نامہ کو جو پہلے ہی چھٹ بھیوں اور کراماتی شعرا سے بھرا ہوا ہے اور جس میں حقیقی شاعر کو تلاش کرنا ایک کارِ دارد ہے اس میں رسا بھائی کا جانا بھی اس منظر نامہ کو مفلس تر کر گیا ہے۔
رسا بھائی کی سادگی‘ زندگی گزارنے کے ان کے ڈھب اور کسی تصنع کے بغیر ایک عام آدمی کی زندگی گزارنے کے انداز نے بھی رسا بھائی کو سب سے منفرد بنا دیاتھا۔ ذرا اشعار کی معنویت اور سادگی ملاحظہ ہو:
صرف مانع تھی حیا بندِ قبا کھلنے تلک
پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا ایسا کھلا
٭
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسمِ بہار رہا
٭
شاخ بدن سے لگتا ہے
مٹی راجستھانی ہے
مٹی سے بچھڑنے کا دکھ اور تنہا رہ جانے کا صدمہ‘ رسا بھائی کے یہاں بہت زیادہ ملتا ہے لیکن ان ساری باتوں سے علیحدہ یہ کہ کراچی‘ جو معاشرتی قدروں کے اعتبار سے تہی دامن ہوگیا تھا اب رسا بھائی کے جانے کے بعد ادبی طور پر بھی یتیم ہو گیا ہے۔
منو بھائی کی بھی سنائونی آگئی
ماں باپ نے تو نام رکھا تھا منیر احمد قریشی لیکن اردو کے ایک نابغہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے اٹک میں کالج کے زمانے میں منیر احمد قریشی کو ’’منو بھائی‘‘ بنا دیا اور یہ منو بھائی کیا جگمگاتا ہوا نام اس ملک کے آسمان پر جگمگایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی عقیدت اور ان کے نظریات پر عمل کرنے والے منو بھائی ایک سچے پاکستانی اور درد مند دل رکھنے والے انسان تھے۔ منکسر المزاج اور سادہ انسان۔
ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد آپ اس دنیا سے تو چلے گئے لیکن آپ کے لگائے ہوئے پودے آپ کو ہمیشہ سایہ فراہم کرتے رہیں گے۔ منو بھائی نے بہت زیادہ پڑھا اور اس سے کم لکھا وہ اپنی ذات میں ایک مکمل اور جان دار ادیب تھے۔ پنجابی شاعری میں بحر سے زیادہ لہجے کی کھنکھناہٹ پر زور دیا جاتا ہے اور منو بھائی کی پنجابی شاعری اپنی گھن گرج کا امتزاج ہے۔ باوقار اور جاندار شاعری ہے۔ پنجابی شاعری کی خوب صورتی کے ساتھ ساتھ صحافتی ذمے داریاں بھی منو بھائی ساری زندگی نبھاتے رہے۔ امروز میں احمد ندیم قاسمی کا ساتھ رہا تو ذوالفقار علی بھٹو کے روزنامہ ’’مساوات‘‘ بھی آپ کی ادارت میں نکلتا رہا۔ ’’جنگ‘‘ سے آپ کا تعلق زندگی کی آخری سانس تک رہا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کو منو بھائی کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کو تاریخی ڈرامے دیے جن میں سونا چاندی کے کردار ان کے دیے گئے ناموں سے مشہور ہوئے اور ڈیڑھ دھائی سے زیادہ گزر جانے کے باوجود آج بھی انہی ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس دنیا سے رخصت ہونے والے منو بھائی کے دوستوں کے لیے ان کی کتاب ’’جنگل اداس ہے‘‘ اس صنف کی مقبول کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔
ساقی فاروقی لندن میں انتقال کر گئے
تقریباً نصف صدی قبل لندن کو اپنا دوسرا وطن بنانے والے ساقی فاروقی 81 برس کی عمر میں چل بسے۔ چند برسوں سے آپ شدید علیل تھے اور علالت کے دوران بھی ادبی مصروفیتوں سے جڑے رہنے کی کوشش کرتے رہے۔ گورکھپور کی زمین میں جنم لینے والے قاضی محمد شمشاد نبی فاروقی نے اپنی ابتدائی عمر انڈیا میں گزاری‘ ہجرت کرکے سابق مشرقی پاکستان چلے گئے۔ مشرقی پاکستان سے نکلے تو پاکستان آگئے لیکن بعد میں سب چھوڑ چھاڑ کر لندن کو آباد کرلیا۔ ساقی فاروقی کی بیشتر نظموں کے تراجم انگریزی میں شائع ہوئے ہیں۔ پیاس کا صحرا‘ حاجی بھائی پانی والا‘ بازگشت و بازیافت اس کے علاوہ ساقی کی نظموں کا انتخاب رازوں سے بھرا بستہ کے عنوان سے شائع ہوئے ہیں۔
موسیقار استاد نذر حسین اللہ کو پیارے ہوگئے
پاکستان میں قومی نغمات کی سب سے زیادہ دھنیں مرتب کرنے والے موسیقار استاد نذر حسین لاہور میں وفات پا گئے۔ حیدرآباد سندھ سے اپنی موسیقی کا آغاز کرنے والے ماسٹر نذر حسین کو اصل شہرت 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں نورجہاں کی آواز میں ’’ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن‘‘ ریکارڈ کرنے سے ہوا۔ اس تخلیق کے بعد قومی نغموں کی دھنیں بنانے کا یہ سلسلہ شروع ہوگیا اس کے بعد آپ نے 100 سے زائد قومی نغمات کی دھنیں بنائیں جن میں یارب میرے وطن کا پرچم بلند رکھنا جیسا نغمہ بھی شامل ہے۔ ماضی کی مشہور اداکارہ عارفہ صدیقی آپ کی شریک حیات تھیں۔

حصہ