وقت کا سفر۔۔۔۔ زماں و مکاں

1919

تلخیص و تحقیق: خرم عباسی
سائنس نے جو دریافت بیسویں صدی، بالخصوص اُس کی چند آخری دہائیوں میں حاصل کی ہیں، قرآنِ مجید اُنہیں 14 صدیاں قبل بیان کر چکا ہے۔ قرآنِ مجید نے کائنات کی وُسعت پذیری کا اُصول سورۂ فاطر میں کچھ اِس طرح سے بیان کیا ہے : تمام تعریف اﷲ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں اور زمین کو (بلا نمونے کے اِبتداءً) بنانے والا ہے۔وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے بڑھاتا جاتا ہے۔ بے شک اﷲ ہر شے پر قادِر ہےo(فاطر، 35 : 1)
اِسی سائنسی حقیقت کو قرآنِ حکیم نے سورۃُ الذّاریات میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ یوں ذِکر کیا ہے : اور ہم نے آسمان (کائنات کے سماوِی طبقات) کو طاقت (توانائی) سے بنایا ہے اور بلاشبہ ہم کائنات کو پھیلاتے چلے جا رہے ہیںo(الذّاريات، 51 : 47)
اِس آیتِ کریمہ نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا کہ کائنات، جسے اﷲ ربّ العزّت نے طاقت اور توانائی کے ساتھ تخلیق کیا ہے، وسیع تر انداز میں ہر سمت پھیلتی اور بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ’’لَمُوسِعُون‘‘ کا لفظ خود وُسعت پذیری کے معنی پر واضح دلالت کرتا ہے۔ قرآنِ مجید وُسعت پذیری کے عمل کو تخلیقِ کائنات کا تسلسل قرار دیتا ہے۔ سورۃُ النّحل میں اِرشاد فرمایا گیا : اور وہ پیدا فرماتا جا رہا ہے جسے تم نہیں جانتےo(النّحل، 16 : 8)
مغربی دُنیا کے سائنسدانوں کے لئے یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ آج سے 14 صدیاں قبل,جب کائنات کے مجرّد اور غیرمتحرک ہونے کا نظریہ تمام دُنیا میں تسلیم کیا جاتا تھا۔ ۔ ۔ علمِ فلکی طبیعیات اور علمِ تخلیقیات کے اِس جدید نظریہ سے قرآنِ مجید نے کس طرح اِنسانیت کو آگاہ کیا! جبکہ کائنات کے جمود کا نظریہ اِس قدر مستحکم تھا کہ وہ بیسویں صدی کے اَوائل تک دُنیا بھر میں ناقابلِ تردِید حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ ’نیوٹن‘ کا قانونِ تجاذُب حقیقت تک رسائی حاصل نہ کر سکا۔ حتیٰ کہ ’آئن سٹائن‘ نے بھی 1915ء میں جب اپنا ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ پیش کیا تو اُس وقت تک اُسے ’نظریۂ جمودِ کائنات‘ پر اِتنا پختہ یقین تھا کہ اُس نے اُس نظریئے کی مساوات میں مشہورِ عالم ’تخلیقیاتی مستقل‘ کو مُتعارف کراتے ہوئے اپنے نظریئے میں ممکنہ حد تک تبدیلی کر دی۔
نیوٹن نے اپنے قوانینِ حرکت کی بنیاد گلیلیو کی پیمائشوں پر رکھی تھی، گلیلیو کے تجربات کے مطابق جب کوئی جسم ڈھلان سے لڑھکتا ہے تو اس پر صرف ایک قوت (اس کا وزن) عمل کرتی ہے اور یہی قوت اس کی رفتار میں بھی اضافہ کرتی رہتی ہے ، ان تجربات سے یہ ظاہر ہوا کہ قوت کا اصل کام ہمیشہ کسی جسم کی رفتار میں تبدیلی لانا ہوتا ہے نہ کہ اسے صرف حرکت میں لے آنا جیسا کہ اس سے قبل سمجھا جاتا تھا، اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ اگر کسی جسم پر کوئی قوت عمل نہ بھی کر رہی ہو تو وہ یکساں رفتار سے خطِ مستقیم (Straight Line) میں حرکت کرتا رہے گا، یہ خیال پہلی بار نیوٹن کی کتاب اصولِ ریاضی (Pricipia Mathema)‎ میں وضاحت سے بیان کیا گیا تھا اور یہی نیوٹن کا پہلا قانون ہے ، ایک جسم پر جب کوئی قوت عمل کرتی ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے ؟ اس کا بیان نیوٹن کا دوسرا قانون ہے ، اس کے مطابق جسم اپنی رفتار میں اضافہ یا تبدیلی کرے گا جس کی شرح قوت کے تناسب سے ہو گی .ان قوانینِ حرکت کے علاوہ نیوٹن نے تجاذب کی تشریح کے لیے بھی قانون دریافت کیا، اس کے مطابق دو اجسام کے درمیان کشش کی قوت ان کی کمیت کے تناسب سے ہوتی ہے ، یعنی اگر دو اجسام میں سے (جسم الف) کی کمیت دوگنی ہو جائے تو ان کے درمیان قوت بھی دوگنی ہو جائے گی، شاید آپ یہی توقع رکھیں کیونکہ نئے جسم الف کو اپنی اصل کمیت کے دو الگ الگ اجسام کا مجموعہ سمجھا جا سکتا ہے جن میں سے ہر ایک جسم ب کو اصل قوت کے ساتھ پہنچے گا، اس طرح الف اور ب کے درمیان کی قوت بھی اصل قوت سے دوگنی ہو گی، اور اگر فرض کریں کہ ایک جسم کی کمیت دوگنی ہو اور دوسرے کی تین گنا تو ان کے درمیان تجاذب چھ گنا زیادہ ہو جائے گا، اب ہم تمام اجسام کے ایک ہی شرح سے گرنے کی وجہ سمجھ سکتے ہیں، ایک دوگنے وزن والے جسم کو نیچے کھینچنے والی تجذیب کی قوت دوگنی ہو گی مگر اس کے ساتھ ہی اس کی کمیت بھی دوگنی ہو گی، نیوٹن کے دوسرے قانون کے مطابق یہ دونوں اثرات ایک دوسرے کو زائل کر دیں گے اس طرح اسراع ہر حال میں یکساں ہو گا۔
نیوٹن حتمی مقام یا حتمی مکاں کی عدم موجودگی پر بہت پریشان تھا کیونکہ وہ اس خدائے مطلق کے تصور سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، حقیقت یہ ہے کہ اس نے حتمی مکاں کی عدم موجودگی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا حالانکہ یہ اس کے قوانین سے نکلی تھی، اس کے اس غیر عقلی عقیدے پر بہت سے لوگوں نے شدید تنقید کی تھی،.ارسطو اور نیوٹن دونوں مطلق وقت یا زمان پر یقین رکھتے تھے ، ان کا اعتقاد تھا کہ دو واقعات کا درمیانی وقت بغیر کسی ابہام کے ناپا جا سکتا ہے اور اسے کوئی بھی ناپے یہ وقت یکساں ہو گا بشرطیکہ اچھی قسم کی گھڑی استعمال کی جائے ، یہ بات کہ زمان (Time) مکان (Space) سے مکمل طور پر آزاد تھا بہت سے لوگوں کے لیے عام فہم ہو گی، بہر صورت ہمیں زمان اور مکان کے بارے میں اپنے خیالات بدلنے پڑے ہیں حالانکہ بظاہر عام فہم قیاسات سی جیسی چیزوں یا سیاروں کے معاملے میں صحیح کام کرتے ہیں کیونکہ یہ مقابلتاً آہستہ رو ہوتے ہیں جبکہ تقریباً روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والی چیزوں کے لیے یہ بالکل ناقابلِ عمل ہوتے ہیں۔
اگر اسی لمحے سورج چمکنا بند کر دے تو اس کا اثر زمینی واقعات پر اس وقت نہیں پڑے گا کیونکہ وہ سورج کے بجھتے وقت کہیں اور ہوں گے ,ہم ان کے بارے میں آٹھ منٹ بعد ہی جان سکیں گے کیونکہ یہی وہ وقت ہے جو روشنی کو سورج سے ہم تک پہنچنے میں لگتا ہے اور صرف اسی وقت زمین کے واقعات سورج کے بجھنے کے واقعے کی مستقبل کی نوری مخروط میں ہوں گے ، اسی طرح ہم نہیں جانتے کہ اس وقت کائنات میں کیا ہو رہا ہے ، جو روشنی ہم دور دراز کہکشاؤں سے آتی ہوئی دیکھتے ہیں دراصل وہ لاکھوں سال پہلے ان سے نکلی تھی اور جو دور ترین اجرامِ فلکی ہم دیکھ چکے ہیں ان کی روشنی کوئی آٹھ ارب سال پہلے وہاں سے نکلی تھی، چنانچہ جب ہم کائنات کو دیکھتے ہیں تو دراصل ہم یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ ماضی میں کیسی تھی۔
اگر ہم تجاذب یا کششِ ثقل کے اثرات کو نظر انداز کر دیں جیسا کہ آئن سٹائن اور پوائن کارے (POINCARE) نے ١٩٠۵ء میں کیا تھا تو ہمارے ہاتھ اضافیت کا خصوصی نظریہ آ جائے گا، مکان – زمان کے ہر واقعے کے لیے ہم ایک نوری مخروط بنا سکتے ہیں (یعنی اس موقعے پر خارج ہونے والے تمام ممکنہ راستوں کا مرقع) اور چونکہ روشنی کی رفتار ہر واقعے اور ہر سمت سے یکساں ہوتی ہے اس لیے تمام نوری مخروط ایک جیسی ہوں گی اور ایک ہی سمت میں اشارہ کریں گی، یہ نظریہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کوئی بھی چیز روشنی سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی، اس کا مطلب یہ ہے کہ مکان اور زمان میں ہر شئے کا راستہ اس لکیر سے پیش کیا جا سکتا ہے جو نوری مخروط میں اس کے اندر ہر واقعے پر ہو۔
اضافیت کے خصوصی نظریے نے بڑی کامیابی سے اس بات کی تشریح کی کہ تمام مشاہدہ کرنے والوں کے لیے روشنی کی رفتار سب کو یکساں لگتی ہے,اور یہ کہ اگر چیزیں تقریباً روشنی کی رفتار سے سفر کریں تو ان پر کیا گزرتی ہے .
آئن سٹائن نے یہ انقلابی تصور پیش کیا تھا کہ تجاذب دوسری قوتوں کی مانند کوئی قوت نہیں ہے ، بلکہ یہ اس حقیقت کا نتیجہ ہے کہ مکان – زمان چپٹے نہیں ہیں جیسا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا بلکہ وہ تو خمدار یا ٹیڑھے (Warped) ہیں اور یہ کمیت تقسیم اور توانائی کی وجہ سے ہے ، زمین جیسے اجسام تجاذب کی وجہ سے خمدار مداروں پر حرکت کرنے کی بجائے خمدار مکاں میں تقریباً سیدھا راستہ اختیار کرتے ہیں جسے تقسیم الارضی (Geodesic) کہتے ہیں، ایک تقسیم ارضی دو قریبی نقطوں کے درمیان مختصر ترین (یا طویل ترین) راستہ ہوتی ہے, مثلاً زمین کی سطح دو ابعادی اور خمدار ہے جس پر تقسیم ارضی ایک عظیم دائرے کو کہتے ہیں جو دو نقطوں کے درمیان مختصر ترین راستہ ہے .
تقسیم ارضی دو ہوائی اڈوں کے مابین مختصر ترین راستہ ہے اس لئے یہی وہ راستہ ہے جس پر کوئی فضائی جہاز ران (Airline Navigator) کسی ہوا باز کو پرواز کا مشورہ دیتا ہے ، عمومی اضافیت میں اجسام ہمیشہ چار ابعادی مکان – زمان میں خط مستقیم میں سفر کرتے ہیں مگر ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے وہ ہمارے سہ ابعادی مکاں میں خمدار راستوں پر چل رہے ہیں (یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کسی طیارے کو پہاڑی علاقے پر اڑتا ہوا دیکھیں، حالانکہ وہ سہ ابعادی مکاں میں خط مستقیم پر چلتا ہے مگر اس کا سایہ دو ابعادی زمین پر خمدار راستہ اختیار کرتا ہے )۔سورج کی کمیت مکان – زمان کو کچھ اس طرح خم دیتی ہے کہ زمین چار ابعادی مکان – زمان میں خط مستقیم اختیار کرنے کے باوجود ہمیں تین ابعادی مکاں میں گول مدار پر حرکت کرتی نظر آتی ہے ، حقیقت میں عمومی اضافیت اور نیوٹن کے نظریہ تجاذب نے سیاروں کے جن مداروں کی نشاندہی کی ہے وہ تقریباً ایک جیسے ہیں، جہاں تک عطارد (Mercury) کا تعلق ہے تو وہ سورج کا قریب ترین سیارہ ہونے کی وجہ سے تجاذب کے طاقتور ترین اثرات محسوس کرتا ہے اور اس کا مدار بھی بہت حد تک بلندتر(Elongated) ہے .
روشنی کی شعاعیں بھی مکان – زمان کی تقسیم ارضی کے مطابق چلنی چاہئیں، یہاں بھی مکاں کے خمدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب اس میں روشنی خط مستقیم میں سفر کرتی دکھائی دیتی ہے ، چنانچہ عمومی اضافیت پیش گوئی کرتی ہے کہ تجاذبی میدانوں (Gravitational Fields) کے زیرِ اثر روشنی خم کھا جائے گی، مثلاً اضافیت کا نظریہ پیش گوئی کرتا ہے کہ سورج کے قریب واقع نقطوں میں نوری مخروط (Cone Light) سورج کی کمیت کے باعث کچھ اندر کی طرف مڑی ہوئی ہو گی، اس کا مطلب ہے کہ کسی دور دراز ستارے کی روشنی سورج کے قریب سے گزرتے ہوئے ایک خفیف سے زاویے پر خم کھا جائے گی اور زمین پر مشاہدہ کرنے والوں کو ستارہ اپنے مقام سے مختلف مقام پر دکھائی دے گا.بلا شبہ اگر ستارے کی روشنی ہمیشہ ہی سورج کے قریب سے گزرے تو ہم یہ نہیں بتا سکیں گے کہ آیا روشنی خم کہا رہی ہے یا اس کی بجائے ستارہ واقعی وہاں موجود ہے جہاں ہم اسے دیکھتے ہیں، بہر صورت چونکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو مختلف ستارے سورج کے عقب میں جاتے نظر آتے ہیں اور بظاہر ان کی روشنی مڑ جاتی ہے اس طرح ان کے مقام دوسرے ستاروں کی نسبت بظاہر بدل جاتے ہیں۔عام طور پر یہ اثر دیکھنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ سورج کے قریب نظر آنے والے ستارے سورج کی روشنی کی وجہ سے دکھائی ہی نہیں دیتے ، تاہم سورج گرہن کے دوران یہ ممکن ہے جب سورج کی روشنی چاند کی وجہ سے رک جاتی ہے ، روشنی کے مڑ جانے کے بارے میں آئن سٹائن کی پیش یا پیشین گوئی عمودی طور پر ١٩١۵ء میں تو جانچی نہ جا سکی کیونکہ پہلی جنگِ عظیم جاری تھی، ١٩١٩ء میں مغربی افریقہ میں گرہن کا مشاہدہ کرنے والی ایک برطانوی مہم نے بتایا کہ واقعی نظریے کی پیشین گوئی کے مطابق سورج روشنی کی موڑ دیتا ہے ، اس جرمن نظریے کے برطانوی سائنس دانوں کی تصدیق نے جنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مصالحانہ عمل کے طور پر خاصی پذیرائی حاصل کی، ستم ظریفی یہ ہے کہ اس مہم کے دوران کھینچی جانی والی تصویروں کی مزید جانچ پڑتال سے یہ پتہ چلا کہ جتنے بڑے اثرات کی پیمائش وہ کرنا چاہتے تھے اتنی ہی بڑی غلطیاں بھی تھیں یہ پیمائشیں تو ایک حسنِ اتفاق ہی تھا چونکہ وہ پہلے ہی سے یہ نتیجہ حاصل کرنا چاہتے تھے ، سائنس میں ایسا ہوتا ہی رہتا ہے تاہم روشنی کا مڑنا بعد کے تجربات سے بالکل درست ثابت ہو چکا ہے۔
عمومی اضافیت کی ایک اور پیشین گوئی یہ بھی ہے کہ زمین جیسے وزنی اجسام کے قریب وقت کو بظاہر آہستہ گزرنا چاہیے ایسا اس لیے ہے کہ روشنی کی توانائی اور اس کی تعدد (Frequency) (یعنی فی سیکنڈ روشنی کی لہروں کی تعداد) میں ایک تعلق ہے ، توانائی جتنی زیادہ ہو گی تعدد بھی اسی حساب سے زیادہ ہو گا، جب روشنی زمینی کشش کے میدان میں EarthGravitational Fieldعمودی سفر کرتی ہے تو اس کی توانائی کم ہوتی جاتی ہے اور تعدد بھی کم ہوتا جاتا ہے اس کا مطلب ہے کہ ایک اوجی لہر (Crest Wave) سے اگلی اوجی لہر کا درمیانی وقت بڑھ جاتا ہے ، بہت اونچائی سے دیکھنے والے کو لگے گا جیسے زمین پر ہر چیز کو وقوع پذیر ہونے میں خاصہ وقت لگ رہا ہے ، یہ پیشین گوئی 1962ء میں بہت درست گھڑیوں کے استعمال سے صحیح ثابت ہوئی، ایک گھڑی مینار کے اوپر جبکہ دوسری نیچے رکھی گئی تھی، نیچے رکھی جانے والی گھڑی جو زمین کے قریب تر تھی عمومی اضافیت کے مطابق آہستہ چلتی ہوئی پائی گئی، زمین کے اوپر مختلف بلندیوں پر گھڑی کی رفتار میں فرق اب خاصی عملی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ مصنوعی سیاروں کے اشارات پر چلنے والے جہاز رانی کے نظام اب انتہائی درست کام کر رہے ہیں، اگر عمومی اضافیت کی پیش یا پیشین گوئیاں نظر انداز کر دی جائیں تو اعداد و شمار کے مطابق نکالے جانے والے مقام میں کئی میل کا فرق آ جائے گا۔
نیوٹن کے قوانینِ حرکت نے مکاں میں مطلق مقام کے تصور کا خاتمہ کر دیا اور اضافیت کے نظریے نے مطلق زمان سے نجات حاصل کر لی، ایک جڑواں جوڑے کا تصور کیجیے ، فرض کریں ان میں سے ایک پہاڑی کی چوٹی پر رہنے چلا جاتا ہے اور دوسرا سمندر کے قریب رہتا ہے ، پہلے کی عمر دوسرے کی نسبت تیزی سے بڑھے گی اس طرح اگر ان کی دوبارہ ملاقات ہو تو ایک دوسرے سے زیادہ معمر ہو گا، اس صورت میں عمروں کا فرق تو بہت معمولی ہو گا لیکن اگر ان میں سے ایک تقریباً روشنی کی رفتار سے مکاں کے اندر کسی خلائی جہاز کے ذریعے سفر پر چلا جائے تو یہ فرق بہت بڑھ جائے گا اور واپسی کے بعد وہ زمین پر رہنے والے سے بہت کم عمر ہو گا اسے جڑواں کا متناقضہ (Twins Paradox) کہا جاتا ہے مگر یہ اسی صورت میں متناقضہ ہو گا جب ہمارے ذہن میں کہیں مطلق وقت کا تصور مخفی ہو، اضافیت کے نظریے میں کوئی منفرد مطلق وقت نہیں ہے بلکہ اس کی بجائے ہر فرد کا اپنا ذاتی پیمانہ وقت ہوتا ہے جس کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کہاں ہے ، کیسے حرکت کر رہا ہے ۔١٩١۵ء سے پہلے مکان و زمان ایک متعین میدان عمل سمجھے جاتے تھے جن میں واقعات تو وقوع پذیر ہوتے تھے مگر ان پر کوئی اثر نہ پڑتا تھا حتی کہ یہ بات اضافیت کے خصوصی نظریے پر بھی صادق آتی تھی، اجسام حرکت کرتے ، قوتیں کشش رکھتیں یا گریز کرتیں، مگر مکان اور زمان ان سب سے بے نیاز رواں دواں رہتے اور ان پر کچھ اثر نہ پرتا، یہ سوچنا گویا قدرتی امر تھا کہ مکان اور زمان ازل سے ابد تک رہیں گے ۔
تاہم اضافیت کے عمومی نظریے میں یہ صورت حال بالکل مختلف ہے ، اب مکان اور زمان حرکی مقداریں (Dynamic Quantities) ہیں، جب ایک جسم حرکت کرتا ہے یا قوت عمل پذیر ہوتی ہے تو مکان اور زمان کے خم (Curvature) پر اثر پڑتا ہے اور جواباً مکان – زمان کی ساخت اجسام کی حرکت اور قوت کے عمل پر اثر انداز ہوتی ہے ، مکان اور زمان وقوع پذیر ہونے والی ہر چیز پر صرف اثر انداز ہی نہیں ہوتے بلکہ ان سے متاثر بھی ہوتے ہیں جس طرح ہم کائنات میں ہونے والے واقعات کا ذکر مکان اور زمان کے بغیر نہیں کر سکتے ، اسی طرح عمومی اضافیت میں مکان اور زمان کا ذکر کائنات کی حدود سے ماورا بے معنی ہو جاتا ہے ۔بعد کے عشروں میں مکان و زمان کی اس نئی تفہیم نے ہمارے کائنات کے نقطۂ نظر میں انقلاب برپا کر دیا، ایک بنیادی طور پر غیر متغیر اور ازل سے ابد تک قائم رہنے والی کائنات کا قدیم تصور تبدیل ہو گیا اور اس کی جگہ ایک حرکی اور پھیلتی ہوئی کائنات نے لے لی، جو ماضی میں ایک خاص وقت پر آغاز ہوئی تھی اور مستقبل کی ایک خاص ساعت میں ختم ہو سکتی ہے ، یہی انقلاب ہمارے اگلے باب کا موضوع ہے اور برسوں بعد اسی کو نظریاتی طبیعیات میں میرے کام کا نقطۂ آغاز ہونا تھا، راجر پن روز (Rogerpen Rose) ‎ اور میں نے یہ بتایا کہ آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے مطابق کائنات کا آغاز ہونا ضروری ہے اور ممکنہ طور پر اس کا ایک انجام بھی ہے..
بشکریہ :سٹیون ہاکنگ،وقت کا سفر،ترجمہ:ناظر محمود، اجرا، کراچی.

حصہ