صلہ رحمی اور رحم

1394

عابد علی جوکھیو
خالق کائنات نے اس جہاں اور یہاں پائی جانے والی تمام مخلوقات کے متعلق فرمایا کہ میں ہی نے انہیں پیدا کیا ہے، دیگر مخلوقات کے ساتھ ساتھ اپنی پسندیدہ مخلوق’ حضرت انسان‘ کے متعلق فرمایا کہ ہم نے اسے ٹھیک ٹھیک پیدا کیا ہے، بلاشبہ تخلیق انسانی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا مظہر ہے۔ انسان کی ساخت سے لے کر اس کی فطرت تک ہر ایک چیز اپنی اپنی جگہ قلب و نظر کو درست نظر آتی ہے۔ انسان کی ساخت کو ہی دیکھ لیں، اگر انسان اپنی موجودہ شکل سے کچھ مختلف ہوجائے یا کوئی ایک عضو ہی اپنی اصل ہیئت سے ذرا بڑا یا چھوٹا ہوجائے توبالکل ہی عجیب سا لگے گا، انسانی آنکھ، کان، ناک، دانت، ہاتھ ، انگلیاں الغرض ہر ایک عضو کی ساخت دیکھ کر بے اختیار آواز نکلتی ہے کہ یہ کسی ماہر کی خلقت ہے کہ اس میں ذرا برابر بھی نقص نہیں…خالق نے انسان کی ساخت کے ساتھ ساتھ اس کی فطرت کو بھی ایسا بنایا کہ اس کے لیے اچھائی اور برائی واضح ہوجائے، کوئی بھی کام کرنے کے بعد انسان خود اس بات کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس نے یہ کام غلط کیا یا درست… اسلام کو دین فطرت کہا گیا ہے، یعنی اس مذہب کے تمام احکامات عین انسانی فطرت کے مطابق ہیں، جنہیں کوئی بھی ذی شعور انسان بآسانی سمجھ کر عمل کر سکتا ہے، اور کسی بھی سلیم القلب انسان کے لیے ان احکامات کوماننے میں کوئی پریشانی یا جھجھک نہیں ہوسکتی۔ خالق کائنات نے جب سیدنا آدم علیہ السلام کی صورت میں انسان جیسی عظیم مخلوق کو پیدا کیا تو اس کی فطری ضرورت کے مطابق بی بی حوا علیہا السلام کو بھی وجود بخشا، پھر انہی دو انسانوں سے نسل انسانی کا تا قیامت چلنے والا سلسلہ شروع ہوا۔
آج بھی نسل انسانی کے فروغ کے لیے جہاں رشتے قائم ہوتے ہیں، وہ اسی فلسفے کے تحت کے ہوتے ہیں کہ ایک مرد اور عورت کا تعلق اللہ کے نام سے قائم کیا جاتا ہے۔ نکاح کے ذریعے ایک مرد اور عورت کا تعلق قائم کرتے وقت اسی بات کو دھرایا اور یاد کروایا جاتا ہے ۔ ترجمہ: ’’لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد وعورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتے وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے۔ (النساء 1) یہ تعلق اسی سلسلے کی کڑی ہے جو سلسلہ سیدنا آدم اور بی بی حوا ؑ سے شروع ہوتا تھا۔ ان دونوں کے قبل کوئی انسان نہ تھا، پھر انہی کے تعلق ازدواج سے نسل انسانی کا آغاز ہوا، یقینا اُس وقت ان رشتوں کی وسعت اتنی نہ تھی جتنی کہ آج ہے، اُس وقت کم ہی انسان ہونگے، جو ایک وقت کے بعد پوری دنیا میں پھیلتے چلے گئے، یعنی دنیا کے تمام انسان کسی نہ کسی صورت ایک دوسرے کے رشتے دار ہیں۔ لیکن یہاں بھی خالق نے انسان پر رحم کیا کہ وہ کہاں اپنی رشتے داریاں تلاش کرتا رہے، اس لیے اسے انہی رشتوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا جن تک پہنچنا مشکل نہ ہو۔
خالق کائنات نے ان رشتوں کے جوڑنے کے لیے جس اصطلاح کو استعمال کیا ہے، جو ’’صلہ رحمی‘‘ ہے۔ صلہ کے معنی ملانے یا جوڑنے کے ہیں، جبکہ رحم بطن مادر کے اس مقام کو کہتے ہیں جہاں جنین (بچہ) ٹھہرتا اور پرورش پاتا ہے، مجازاً اسے رشتے داری کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ رحم درحقیقت اللہ کی صفت رحمن سے مشتق ہے۔ عبدالرحمن بن عوفؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول کریم ؐکو ارشاد فر ماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالی نے فرمایا: ’’میں ہی اللہ ہوں اور میں ہی رحمن ہوں میں نے رحم (رشتے داری) کو پیدا کیا، میں نے اس کا نام اپنے نام سے نکالا ہے، جو اس کو جوڑے گا میں اس کو جوڑوں گا اور جو اسے توڑے گا، میں بھی اسے ٹکڑے ٹکڑے کردوںگا۔ ‘‘ (ترمذی) لغوی اعتبار سے رحم کے معنی شفقت، رأفت اور رحمت کے ہیں۔ جب یہ بندوں کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی شفقت و رأفت کے ہوتے ہیں اور جب اللہ کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنیٰ رحمت کے ہوتے ہیں۔ اسلام میں رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے ان میں نسبی اور سسرالی رشتے دار شامل ہیں۔ان میںچچازاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد، خالہ زاداور دیگر ددھیالی و ننھیالی رشتوں کے ساتھ ساتھ سسرالی رشتے دار بھی شامل ہیں۔ صلہ رحمی میں تمام قریبی اور دُور کے رشتے دار شامل ہیں، جتنا قریب کا رشتہ ہوگا اس کا اتنا ہی زیادہ حق ہوگا، او ر سے تعلقات ختم کرنے کا اتنا ہی بڑا گناہ ہوگا۔ صلہ رحمی کا مطلب رشتے داروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مدد اور خیرخواہی کرنا بھی ہے، اس کے ساتھ ان کی خبر گیری، تحفے تحائف کا تبادلہ، خوشی و غم میں شرکت وغیرہ شامل ہیں۔زندگی میں بعض ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب انسان کے لیے رشتوں کی حفاظت مشکل ہوجاتی ہے، لیکن ایسے میں بھی رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا گیا، نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ اپنے رشتوں کو قائم کرو،خواہ وہ صرف سلام کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔ (طبرانی) مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس حوالے سے لکھتے ہیں: ’’صلہ رحمی یہ ہے کہ اپنے رشتے دار کے ساتھ جو نیکی کرنا بھی آدمی کی استطاعت میں ہو اس سے دریغ نہ کرے۔ اور قطع رحمی یہ ہے کہ آدمی اس کے ساتھ برا سلوک کرے، یا جو بھلائی کرنا اس کے لیے ممکن ہے اس سے قصداً پہلو تہی کرے۔‘‘ (تفہیم القرآن، سورہ محمد حاشیہ 34)
رشتوں کو جوڑنا نبی کریم ؐ کے اوصاف حمیدہ میں شامل تھا، نبوت سے پہلے بھی آپؐ اپنے رشتے داروں کا خیال رکھتے تھے، ان کی خبر گیری کرتے تھے۔ ام المومنین سیدہ خدیجہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب غارِ حرا میں جبرائلؑ نے آپؐ کو پہلی وحی کے ذریعے نبوت کی نوید سنائی تو آپ پر ایک اضطراری کیفیت طاری تھی۔ وہاں سے آپ سیدھے گھر تشریف لائے، پورا واقعہ خدیجۃ الکبریٰ کو سنایا اور فرمایا مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ اس وقت خدیجہ الکبریٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ایسا ہرگزنہیں ہوسکتا! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رنجیدہ نہیں کرے گا۔ کیوں کہ آپ رشتے داروںکے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں، بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘ (بخاری)احادیث مبارکہ میں بھی ان رشتوں کے جوڑنے کے بڑے فضائل بیان کیے گئے ہیں، اس کے ساتھ ان رشتوں کے توڑنے والوں کے لیے بھی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہؓسے مروی ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا :’’تم اپنے وہ نسب سیکھو جن کے سبب سے تم صلہ رحمی کرسکوگے۔ کیونکہ صلہ رحمی گھر والوں میں محبت ،مال وعمر میں برکت کا باعث ہے۔‘‘ (ترمذی ) اس حدیث کی تشریح میں شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: ’’اپنے نسب میں سے اس قدر سیکھو کہ ان کی وجہ سے تم اپنے رشتوں کو ملاؤ۔ یعنی اپنے آبا واجداد اور امہات اور ان کی اولادیں خواہ مرد ہوں یا عورتیں ان کو پہچانو اور ان کے نام یاد رکھو تا کہ تم ان کے ذریعے اپنے رشتے داروں سے اچھا سلوک کر سکو کیونکہ ان ناموں کا جاننا ضروری اور نفع بخش ہے۔‘‘ (اشعۃ اللمعات) ایک اور حدیث میں سیدنا ابوہریرہؓ ہی نبی کریمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو پیدا کردیا تو رشتہ اللہ تعالیٰ نے سامنے کھڑا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیا کہنا چاہتے ہو؟رحم نے عرض کی کہ میں آپ سے اس بات کی پناہ چاہتا ہوں کہ کوئی مجھ سے تعلق توڑ دے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ جو تجھ کو جوڑے میں اس سے جوڑوں او رجو تجھ سے ناتا توڑے میںبھی اس سے اپنا تعلق ختم کردوں۔ یہ سن کر رحم نے کہا کہ اے اللہ میں اس پر راضی ہوں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو پھر یہ ہمارے درمیان یہ معاہدے طے پا گیا۔ (متفق علیہ)
اسلام نے رشتوں کو قائم رکھنے پر بڑا زور دیا ہے، حتیٰ کہ رشتے داروں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے بھی منع فرمایا ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں سورہ محمد کی آیت 22 کے تفسیر میں سیدنا عمرؓ کی خلافت کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ’’سیدنا عمرؓ نے اسی آیت سے استدلال کر کے اُم ولد (جس لونڈی کی اولاد ہو) کی بیع (خرید وفروخت) کو حرام قرار دیا تھا اور صحابہ کرامؓ نے اس سے اتفاق فرمایا تھا۔ حاکم نے مسدرک میں بردیہؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک روز میں عمرؓ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ یکایک محلے میں شور مچ گیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک لونڈی فروخت کی جا رہی ہے اور اس کی بیٹی رو رہی ہے۔ عمرؓ نے اسی وقت انصار ومہاجرین کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ جو دین محمدؐ لائے ہیں کیا اس میں آپ حضرات کو قطع رحمی کا بھی کوئی جواز ملتا ہے؟ سب نے کہا نہیں۔ عمرؓ نے فرمایا پھر یہ کیا بات ہے کہ آپ کے ہاں ماں کو بیٹی سے جدا کیا جا رہا ہے؟ اس سے بڑی قطع رحمی اور کیا ہو سکتی ہے؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ لوگوں نے کہا آپ کی رائے میں اس کو روکنے کے لیے جو صورت مناسب ہو وہ اختیار فرمائیں۔ اس پر عمرؓ نے تمام بلادِ اسلامیہ کے لیے یہ فرمان جاری کر دیا کہ کسی ایسی لونڈی کو فروخت نہ کیا جائے جس سے اس کے مالک کے ہاں اولاد پیدا ہو چکی ہو، کیونکہ یہ قطع رحمی ہے اور یہ حلال نہیں ہے۔‘‘ اس واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے معاشرے کو دیکھیں تو صورتحال انتہائی پریشان کن نظر آتی ہے، باقی رشتے داروں سے تعلق جوڑنا تو اپنی جگہ، اولاد کو والدین سے جدا کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات تشویش ناک ہیں، خاص طور پر طلاق یا خلع کی صورت میں اولاد کے جو حقوق سلب ہوتے ہیں، ان کا شاید ہی کسی کو ادراک و احساس ہو، اور اس کا نتیجہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایسی اولاد اکثر رُل جاتی ہے۔ اسی لیے جہاں بھی زوجین میں نباہ نہ ہو پارہا ہو ان کو چاہیے کہ حتی المقدور کوشش کریں کہ اولاد کے لیے ہی اپنا رشتہ قائم رکھیں، شاید اللہ تعالیٰ اسی صلہ رحمی کی برکت سے کوئی بہتر راستہ پیدا کردے۔ اور جو زوجین بھی ایسا کر رہے ہیں یقیناً وہ صلہ رحمی جیسا عظیم کام کرکے رب کی رضا کے طالب ہوتے ہیں۔

حصہ