سوشل میڈیا برائے ’’ڈِس انفارمیشن‘‘

369

24 جنوری کوبرطانوی مقبول اخبار ڈیلی میل کی ویب سائٹ پر سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے ایک دلچسپ خبر نظر سے گزری ۔خبر کا تعلق کینیڈا کے محققین کی ایک تحقیق پر مبنی تھا، جس کے مطابق دن میں ایک گھنٹہ یا زائد وقت سوشل میڈیا (فیس بک ، واٹس ایپ، اسنیپ چیٹ) پرگزارنے والے نوجوانوں کی نیند کا شیڈول بدترین انداز سے متاثر ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے کینیڈا کے کل 5242 نوجوانوں کے ساتھ سروے کیا۔ہو سکتا ہے یہ مغرب کا مسئلہ ہو کہ وہاں کے نوجوان ناکافی نیند کا شکار ہوں، مگر پاکستان میں بھی مجھے تیزی سے نوجوان نسل بالخصوص اس دلدل میں دھنستی نظر آ رہی ہے ۔ تو ایک تازہ تحقیق تھی اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے کئی اور مضراثرات سامنے آئے ہیں ۔اس لیے جیسے سگریٹ کی ڈبیہ پر ’’ تمباکو نوشی کے بدترین اثرات کی تنبیہہ ‘‘ موجود ہوتی ہے میں نے بھی سوشل میڈیا کے مضر اثرات پر مبنی ایک ابتدائیہ کے ساتھ بات کا آغاز کیا ہے ۔ سنڈے میگزین میں اس سلسلے کا بنیادی مقصد تو سوشل میڈیاپر جاری چند مقبول مباحث و موضوعات سے قارئین کو صرف آگاہ کرنا ہے نا کہ استعمال کی جانب راغب کرنا۔ سوشل میڈیا فی زمانہ اک وسیع اور موثر ابلاغی دائر ہ اثر رکھتا ہے اس لیے استعمال سے دور رہنے اور اہم معلومات و آگہی فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
گذشتہ ہفتہ پاکستان کے تمام تر میڈیا نقیب اللہ محسود کے بہیمانہ قتل کے خلاف آواز بلند ہوتی رہی ،اُس کے نتیجے میں سندھ پولیس کے متنازعہ پولیس افسر راؤ انوار کے گرد شکنجہ تنگ ہوتا دکھائی دیا اور تادم تحریر وہ ایک جعلی نوٹیفیکیشن کی بنیاد پر بیرون ملک فرار کی ناکام کوشش کے بعد مفرور ہیں۔اُن کی تلاش میں چھاپوں اور سوشل میڈیا پر اُن کے ماضی کے کارناموں کی جھلکیاں ، ویڈیو کلپس، تصاویر ،خبریں پورے زور و شور کے ساتھ وائرل کی جا رہی ہیں۔ان سب میں یہ تجزیہ سب سے عام رہا ہے کہ ’’ جن خفیہ اداروں نے ایسے پولیس والوں سے کام لینا تھا ، لے لیا اب کسی اور کو اسٹیج پر بٹھایا جائے گا ‘‘، گویا نظام نہیں بدلا جا رہا صرف چہرہ تبدیلی کافیز ہے ، یہ تجزیہ عوام کا ہمارے ملک کے قانون ، عدلیہ اور اس پر عمل درآمد کی کیفیت سمجھانے کے لیے کافی ہے ۔کراچی کے ایک سینئر صحافی نعمت خان اپنی وال پر پوسٹ کرتے ہیں کہ ’’سب راؤ انوار کے پیچھے پڑ گئے اِس بے چارے کی اوقات کیا ہے،وہ تو اُن کو مارتا ہے جو ہاتھ پیر باندھ کر اسے دیے جاتے ہیں،بڑے مجرم تو دینے والے ہیں، وہ تو پارسل ٹھکانے لگاتا تھا۔‘‘ویسے اس مہم میں راؤ انوار کے نوازے گئے کئی طبقات خواہ وہ پولیس سے ہوں یا صحافی برادری سے یا کاروباری طبقات سے ، سب پر کافی تنقید کی گئی۔راؤ انوار بے شرم کا ہیش ٹیگ گو ٹرینڈ نہ بن سکا مگر خاصا مقبول رہا۔
اسی طرح نقیب اللہ کے ساتھ مارے جانے والے دو اور افراد کے لیے بھی آواز بلند ہوئی اور بالآخر اُن کا بھی اتا پتا باہر آ ہی گیا۔
پاکستان میں آج بھی زینب کا موضوع سر فہرست رہا۔ جسٹس فار زینب سے شروع ہونے والا ٹرینڈ اب ZainabMurderCase کے ٹرینڈ میں تبدیل ہو گیا۔نئے قارئین کی تفہیم کے لیے عرض ہے کہ سماجی میڈیا میں ٹرینڈ سے مراد دُنیا کی مقبول سماجی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سب سے زیادہ موضوع بحث آنے والے موضوع ہوتاہے ۔ جب وہ موضوع یا وہ الفاظ ایک خاص تعداد میں پوسٹ میں استعمال ہو جاتے ہیں تو وہ ٹرینڈ کی لسٹ میں شامل ہو جاتا ہے۔دنیا کے ہر خطہ شہر ،ملک کے لیے ٹرینڈ الگ الگ ہوتا ہے ۔اسی ضمن میں چند اور ٹرینڈ بھی جو ہفتہ کے دوران مقبول رہے اُن میں HangZainabRapistpublicly، StopVulgarityonMedia، NeverForgetZainab شامل تھے جو کہ لاکھوں ٹوئیٹس کے نتیجے میں عوامی احساسات کا آئینہ دار بن کر اُبھریں۔اہم بات یہ رہی جیسا کہ پچھلے ہفتہ ذکر کیا تھا کہ عوام کا قاتل کی گرفتاری اور اُس کو بدترین سزا دینے کا مطالبہ سب سے سر فہرست رہا ، وہی جذبات اس ہفتہ بھی غالب رہے ۔البتہ مغرب زدگان جو جنسی تعلیم کا نعرہ لے کر اترے تھے اُن کو کوئی جگہ نہیں مل سکی ۔جہاں کہیں اُنہوں نے کوشش کی وہ سخت الفاظ میں رد کر دی جاتی ۔
اب یہ ہوا کہ پنجاب پولیس کی طول پکڑتی اور مجرم کو پکڑنے کی جانب ناکامی کا اعتراف کرتی ہوئی تحقیقات کے بعد اچانک خبر آ ہی گئی کہ قصور کا جنسی درندہ معصوم زینب سمیت سات مزید معصوموںکا قاتل گرفتار ہو ہی گیا۔اِس کی پر زور وجہ جوبتائی جا رہی ہے وہ مقتول بچی کی لاش پر سے حاصل شدہ ٹیسٹ کے نمونے اور سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والی ایک جیکٹ ہے ۔اب اس درندے کو بدترین سزا دینے کی بازگشت جاری ہے ۔ ٹی وی ٹاک شوز میں یہی معاملہ اور اس کی مختلف جہتیں موضوع بنی ہوئی ہیں ۔مجرم کا اقبالی بیان بھی سامنے آگیا۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی پریس کانفرنس بھی زیر بحث آ گئی جس میں اُن کا ہنسنا ، زینب کے والد کو بولنے نہ دینا یہ سب نوٹ ہوا اور سوشل میڈیا پر موضوع بن گیا۔اِبتداء میں جب ملزم کو ذہنی مریض قرار دینے کی کوشش کی گئی تو عوام نے سخت رد عمل دے کر اس بیانیہ کو رد کر دیا اور سخت ترین سزا کا مطالبہ برقرار رکھا۔کئی سوالات نے جنم لیا، کئی بیانیے سامنے آئے ، کہیں سے پولیس کے لیے تعریفی کلمات ، کہیں عمران پر سوالات ، سب سے زیادہ تو زینب کے والدین کو میڈیا سے بات نہ کرنے یا روکنے پر سوالات اُٹھائے گئے ، اس ضمن میں پنجاب کے وزیر قانون کی زینب کے والد کو دی گئی ہدایتی وڈیوکہ ’’صرف قاتل کو سزا کا مطالبہ دینے کی بات کرنا ‘‘بھی خاصا وائرل رہا۔ کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ
یہ شخص اتنے سال سے کسی کی نظر میں کیوں نہ آیا ؟ فیملی کیساتھ رہتا ہے۔ ظاہر ہے اس گھر میں تو یہ ظلم نہیں کر سکتا۔ پھر اسکا اڈہ کہاں تھا۔ تین چار دن تک کسی کو بچی کی آوازیں نہ آئیں؟چھوٹے علاقوں، محلوں میں توفوراً پتہ چل جاتا ہے کہ ساتھ ہمسائے میں کیا ہو رہا ہے ؟یہاں تین دن بچی کو رکھا گیا اور دو سال سے کئی معصوموں کے ساتھ ظلم ہوتا رہا ہو اور محلے میں کسی کو کچھ خبر نہ ہو؟۔ عمران کا بیان اور وزیٹنگ کارڈ تو وائرل کر دیئے مگر پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے نہیں لائی گئی ، کیونکہ اس میں باقاعدہ لکھا ہے کہ زینب کیساتھ متعدد بار زیادتی کی گئی اور مختلف افراد نے کی۔ جسے دیکھ کر ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ ایک بندے کو پکڑ کر پورا کیس بند کرنیکی کوشش کس لیے کی جا رہی ہے؟ اس ضمن میں یہ بات بھی خاصی پرزور انداز سے کہی جاتی رہی کہ ’’یہ ایک وائیلنٹ پورن ٹاسک تھا ، اس کے ڈانڈے انٹرنیشنل مافیا سے ملتے ہیں ، ڈارک ویب کا امکان مزید ابھر کر سامنے آرہا ہے ، پورے گینگ کو بچانے کے لیے ایک شخص کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔‘‘
اس ضمن میں پاکستان کے ایک کرنٹ افیئرز کے میزبان و تجزیہ نگار ڈاکٹر شاہد مسعود کی پھرتیاں بھی موضوع بنیں ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے اس کیس کی از خود نوٹس کی سماعت کے موقع پر ڈاکٹر شاہد مسعود نے پیش ہو کر بتایا کہ گرفتار ملزم کے پیچھے ملک کی بڑی شخصیات اور کوئی مافیا کام کر رہی ہے ۔یہ انکشاف وہ ایک رات قبل اپنے ٹی وی شو میں بھی کر چکے تھے ۔تحریک انصاف کے سربراہ کو جب سن گن ہوئی کہ عمران کے پیچھے حکومتی اعلیٰ افراد ہیں تو انہوں نے بھی ’’حب علی‘‘ میں بینک اکاؤنٹس کی بنیاد پر سخت ٹوئیٹ کر ڈالی۔سوشل میڈیا پر اسکرین شاٹ کے فروغ کا عالم یہ ہے کہ ملزم عمران کے ملک بھر کے مختلف 40بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی سامنے آ گئیں جنہیں ڈاکٹر شاہد مسعود نے سپریم کورٹ میں جمع کرایاتھا ۔ڈاکٹر صاحب کے مطابق ان اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی تھیں۔اس کے بعد ملک کے ایک معروف صحافی حامد میر نے اپنے پروگرام میں ڈاکٹر صاحب سمیت دیگر سوشل میڈیا پر قاتل عمران کے بارے میں خبروں کو جھوٹ قرار دیا، تمام اکاؤنٹس کو جعلی قرار دے دیا۔
یوںسوشل میڈیا ، اس حوالے سے ایک بار پھر خوب ڈس انفارمیشن پھیلانے کا موثر ذریعہ بن گیا۔
ایک بار پھر یوں بھی کہا کہ اس دوران جامعہ پنجاب میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک اسٹوڈنٹ فیسٹیول کو انعقاد سے ایک دن پہلے پر تشدد کارروائی کا نشانہ بنا کر سبوتاژ کر دیا ۔ جامعہ پنجاب بھی سوشل میڈیا کے لیے ہمیشہ سے ایک ہاٹ ایشو رہا ہے،ہفتہ کے دوران یہ بھی ایک دن کے لیے ٹاپ ٹرینڈ بنا ۔مگر اس کیس میں بھی دیکھا جائے تو ڈس انفارمیشن کی بھرپور حدیں پھلانگی گئیں ، تمام تر یکطرفہ موقف کی بنیاد پر چیزیں وائرل کی جاتی رہیں اور صاف محسوس ہو رہا تھا کہ یہ کارروائی کسی ایجنڈے کا حصہ ہے ۔اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر موثر جواب دہی کا عمل میرے نزدیک یوں فائدہ مند رہا کہ ’’بنا پاؤں والے جھوٹ کو زیادہ وقت نہیں مل سکا کھڑے ہونے کے لیے ‘‘اور شرپسندوں کی سازش ازخود بے نقاب ہوتی چلی گئی ۔جو لوگ اسے طلبہ تنظیموں میں جھگڑا سمجھ رہے تھے پھر اُنہیں بات سمجھ آگئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔
بہر حال بات ہو رہی تھی زینب کے قاتل کی، جس کے حوالے سے آنے والی ابتدائی معلومات میںجب اس کے مذہبی پس منظر ( نعت و میلاد )کو بیان کیا گیا تو بھی شدت کے ساتھ رد عمل آیا۔اتفاق سے انہی دنوں کراچی کے ایک مدرسے میں ایک بچہ پر مدرسہ کے استاد کی جانب سے بدترین غیر انسانی تشدد کی خبر بھی سامنے آئی اور نئی جانب بحث چھڑی مگر ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکی۔تلخ نوائی کے لیے معذرت‘‘ کے عنوان سے فیض اللہ خان زینب کے قاتل کے مذہبی پس منظر کی کڑیوں کو دیگر واقعات سے ملاتے ہوئے درد بھرا تجزیہ لکھتے ہیں کہ ویسے تو سارا معاشرہ ہی نفسیاتی امراض میں مبتلا ہے لیکن اے پی ایس میں پھول مسلنے ، کراچی کے مدرسے میں تشدد سے بچے کا قتل اور زینب ریپ و ہلاکت میں ملوث درندے مذہبی پس منظر رکھتے ہیں ۔چار سدہ میں پرنسپل کا قاتل فیض آباد دھرنے کا فیض یافتہ تھا ،پنجاب میں اس نفسیاتی پیر کا کیس پرانا نہیں جس نے اپنے کئی مرید خون میں نہلا دئیے تھے اسی طرح تبلیغی جماعت کے دو ارکان لشکر رضوی کے ہاتھوں توہین رسالت ﷺکے الزام میں مسجد میں مارے گئے۔ حیرت ،نفرت اور تعجب کے سمندر میں اتر گیا جب پتہ چلا کہ زینب کو قتل کرنے کے بعد یہ درندہمحفل میلاد میں چلا گیا تھا۔اِسے اتنا بھی خیال نہیں رہا کہ جس زینب کو پامال کرکے آیا ہے وہ محسن انسانیت نبی مہربان ﷺکی عزیز بیٹی سیدہ زینب کی ہم نام تھی ، یہ کس منہ سے اس محفل میں گیا ؟بلاشبہ ، مذہبی طبقے کو زیادہ علاج کی ضرورت ہے۔ ہر بات میں لبرلز کو کوسنے سے زیادہ بہتر ہوگا کہ اپنا گھر ٹھیک کیا جائے۔یہی عدل ہے اور یہی دین فطرت،یہ نہیں تو عقیدت کے پردے میں کہانیاں بے شمار ہیں اور گند پہ قالین ڈالنا ہمارا قومی مزاج۔‘‘بہر حال قصہ مختصر یہ کہ ان ایشوز میں سوشل میڈیا نے ڈس انفارمیشن والا کردار بھی موثر انداز سے نبھایا ہے ۔

حصہ