دنیا دائری

345

تنویر اللہ خان
ہرفرد کے گرد تعلق کے کئی دائرے ہوتے ہیں ان میں سے ہی ایک دائرہ اُس کے اپنے گھراور خاندان کا ہوتا ہے جو فرد سے قریب تر بھی ہوتا ہے اور نسبتاً چھوٹا اور مستقل ہوتا ہے، جب کہ دیگر دائروں میں دوست پاس پڑوس اور ہم خیال لوگ شامل ہوتے ہیں تعلقات کے یہ تمام دائرے پہلے دائرے یعنی گھر اورخاندان کی نسبت بڑے بھی ہوتے ہیں اور دور بھی ہوتے ہیں اور ان کے کرداربھی بدلتے رہتے ہیں۔
پہلا دائرہ جس کو ہم خاندان کا دائرہ کہتے ہیں جس میں ماں، باپ، دادا، دادی، بھائی، بہن، چچا، ماموں ہوتے ہیں اس دائرے کو ہم (Circle of Relevance) کا نام دیتے ہیں اس دائرے کے کردار بائی چوائس نہیں ہوتے بلکہ میڈبائی اللہ ہوتے ہیں اور اس کے کردار مستقل ہوتے ہیں جب کہ دوسرے تمام دائرے جن کو ہم احباب کا دائرہ (Circle of Concern) کہتے ہیں یہ دائرہ بائی چوائس بھی ہوتا ہے اور میڈبائی سیلف بھی ہوتا ہے اور تبدیل بھی ہوتا رہتا ہے۔
پہلا دائرہ یعنی بیوی بچے بہن بھائی ان پرہم براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں ان کا ایک دوسرے سے روز بلکہ ہروقت کا واسطہ پڑتا ہے لہٰذا ان پر ہمارا حکم یا بات چلتی ہے لہٰذا ان سے اپنی بات منوانا آسان اور ممکن ہوتا ہے ہم اُن پر اثرانداز ہوتے ہیں اور وہ ہم پر اثرانداز ہوتے ہیں، جب کہ دوسرا دائرہ احباب (Circle of Concern) کا ہے جو ہم سے متعلق ضرور ہوتا ہے لیکن نہ ان سے ہمارا روز کا واسطہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی ضروریات ہم سے وابستہ ہوتی ہیں لہٰذا اس دائرے کے لوگوں سے ہم اپنی بات حکماً نہیں منواسکتے۔
تعلقات کے دائروں کی نوعیت کے اس فرق کی وجہ سے جب ہم چھوٹے دائرے میں کوئی بھی کام کرتے ہیں اور اصلاح اور تعیلم تربیت کی جو بھی کوشش کرتے ہیں تو وہ زیادہ آسان، زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے اوراپنے کام کی خوبیوں، خامیوں اس کے اثرات کی لمحہ بہ لمحہ خبر ہمیں ملتی رہتی ہے، اس چھوٹے دائرے کا کوئی بھی ایکشن یا ری ایکشن چھپا نہیں رہ سکتا لہٰذا اس دائرے میں کوشش کی کامیابی کے امکانات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں لہٰذا جب چھوٹا دائرہ یعنی گھر اور خاندان آپ کی دعوت، آپ کے پیغام کے مطابق ہوجائے تویہ اپنے اردگرد کے لیے ایک مثال بن جاتا ہے جب کہ دُنیا اور آخرت میں آپ سے پہلی اور لازمی جواب طلبی آپ کے گھر اور خاندان کی ہی ہوتی ہے لہٰذا اگر ہم اس چھوٹے دائرے میں کامیاب ہوجائیں تو ہمیں ہمت اور حوصلہ ملتا ہے اوراس کامیابی کی وجہ سے بڑے دائرے میں بھی ہماری بات سُنے جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
لہٰذا سب سے پہلے اپنے گھر کو اہمیت دیں، جب آپ کا گھر اور خاندان مثالی ہوگا تو آپ مضبوط قدموں اور زیادہ اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ سکیں گے، سب سے پہلے اپنے قلعے یعنی گھر کو مضبوط بنائیں، محفوظ پناہ گاہ اور موثر پشت بانی کے بغیر پیش قدمی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کامیابی کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں، اگر ہم معاشرے کو ایک عمارت سے تعبیر کرتے ہیں توخاندان اس عمارت کی بنیاد ہے اور خاندان کی بنیاد پر ہی معاشرے کی عمارت بنتی ہے۔
خاندان کی ابتدا شوہر اور بیوی کے رشتے سے ہوتی ہے، دُنیا کے ہر رشتے نے شوہر اور بیوی کے تعلق سے جنم لیا ہے، عورت ماں، بیٹی بہن بعد میں بنی ہے وہ اپنی اولین شکل میں بیوی تھی، اسی طرح مرد باپ، بیٹا، بھائی بعد میں بنا ہے وہ اپنی اولین شکل میںشوہرتھا ، سہل فہمی کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دُنیا کا پہلا انسانی تعلق آدم او حوا کی صورت میں شوہر اور بیوی کا تھا، لہٰذا شوہر اور بیوی کا تعلق جتنا اچھا ہوگا، گہرا اور ہم آھنگ ہوگا خاندان بھی اتنا ہی اچھا اور ہم آھنگ ہوگا اگر شوھر اور بیوی کا تعلق کشیدہ یا واجبی سا ہوگا تو خاندان بھی کشیدگی اور نفسانفسی میں مبتلا ہوگا۔
ہم اچھا خاندان کیسے بنا سکتے ہیں، خاندان کو کیسے جوڑ کر رکھ سکتے ہیں، خاندان کی نشوونماکیسے کر سکتے ہیں اسے ہم آھنگ کیسے کرسکتے ہیں آگے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
٭احساسِ ذمہ داری(Commitment) احساس انسان اور جانور کے درمیان بڑا فرق ہے، بلاشبہ احساس اذیت کا دوسرا نام ہے، اذیت ختم ہونے کے بعد بھی جب یاد آئے تکلیف دیتی ہے لیکن احساس فرض ادا ہونے کے بعد ہمیشہ خوشی کا ہی سبب رہتا ہے لہٰذا خاندان کو جوڑ کر رکھنے میں احساس ایلفی کا کام دیتا ہے لہٰذا خاندان کا ہر فرد اپنی سطح اور استطاعت کے مطابق ذمہ داری محسوس کرے اُسے پورا کرنے کی کوشش کرے، اپنے گھر اور خاندان، رحمی رشتوں، اپنی رعیت کو دیگر تمام تعلقات پر ترجیح دے، ہمارے دین اسلام نے بھی خیال رکھنے، خرچ کرنے، اچھا سلوک کرنے میں اپنے گھر، اپنے خاندان کو ترجیح دینے دی ہے، آپ کے مال، آپ کے حسنِ سلوک کے سب سے زیادہ مستحق نہیں بلکہ حق دار آپ کے قریبی دائرے کے لوگ ہیں۔
٭اللہ کے رسول محمدؐ نے بھی بلاضرورت گھر سے باہر رہنے کو منع فرمایا ہے، لہٰذا یہ بات بالکل اہم نہیں ہے کہ ہم ایک ساتھ کس طرح وقت گُزاریں، بلکہ یہ زیادہ اہم ہے کہ ہم کسی بھی طرح ایک ساتھ وقت گُزاریں، ہمیں یہ مسئلہ رہتا ہے کہ ہم ایک ساتھ بیٹھ کر کیا باتیں کریں،کیا کام کریں، خاندان کے جوڑنے کے لیے خاندان کو بلاسبب وقت دیں جلد آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ایک نشست دوسری نسشت کا سبب بنتی ہے، مل کر کیا جانے والا ایک کام دوسرے کام کا سبب بنتا ہے، لہٰذا اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ ہم ایک ساتھ بیٹھ کرکیا کریں اس سوچ سے نجات حاصل کریں۔ پہلے باہمی ربط پیدا کریں آپ کا پہلا قدم مستقبل کے راستے کشادہ کردے گا، اس تعلق کو اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے قائم کریں گے تو مثبت سرگرمیاںخود آپ کو تلاش کریں گی۔
٭ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کیجیے خصوصاً والدین کے پاس اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے علاوہ نہ کوئی اور تربیت کا موثر طریقہ ہے اور نہ ہی کوئی اور اس کا متبادل ہے لہٰذا اپنے بچوں، بہن بھائیوں کو لعن طعن کرنے کے بجائے ہمیشہ اُن کی ہمت بندھائیں، اُن کے کاموں کو بے وقعت کرنے کے بجائے ان کے کاموں کی قدر کریں، اُن کے کاموں میں اگر کوئی خامی نظر آئے تو اُس کی نشان دہی ضرور کریں لیکن خوئے دل نوازی کے ساتھ، اللہ اپنے نبی محمدؐ کی خصوصیت بیان کرتا ہے کہ ’’اے نبی ہم نے تمہیں نرم خو بنایا ہے‘‘ اپنے متعلقین کے کاموں کو گھٹیا ثابت کرنے سے منفی، نفرت انگیز اور مجرمانہ رجحانات جنم لیتے ہیں۔
٭ اپنی اور اپنے خاندان کی کامیابوں کو یاد رکھیں اور ناکامیوں سے صرف سیکھیں ناکامیوں کو اپنے سر پر سوار نہ کریں، دُنیا کا کوئی کامیاب آدمی علاوہ انبیاؑ کے غلطیوں سے مبّرا نہیں ہے سب غلطیاں کرتے ہیں لہٰذا اپنی ناکامیوں کو مسئلہ نہ بنائیں بلکہ اُن سے سیکھیں، ناکامیوں کو بار بار یاد کرنے سے ڈپریشن اور پست ہمتی پیدا ہوتی ہے لہٰذا اپنی کامیابیوں کو یاد رکھیں اور ناکامیوں سے صرف سبق لیں، اپنے بچوں اور اہل خانہ کے اچھے اور کامیاب کاموں کا بار بار تذکرہ کریں اور ناکامیوں کے بار بار ذکر سے اجتناب کریں، اسی طرح جو آپ کو میسر ہے اُس پر اللہ کا شُکر ادا کریں اور جس چیز سے محروم ہیں اُسے اپنی حسرت نہ بنائیںِِِِ، جو گاڑی آپ کے پاس ہے وہی سب سے اچھی ہے، جس گھر میں آپ رہتے ہیں وہی سب سے اچھا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی کاہلی کو قناعت سمجھ لیں، اپنے حالات اور گرد نواح کو بہتر ضرور کریں لیکن اپنے خراب اور دوسروں کے اچھے حالات کو حسد، حسرت کا سبب نہ بنائیں اسلام یہی سکھاتا ہے اور طویل انسانی تجرے کا نچوڑ بھی یہی ہے کہ ’’قناعت میں ہی سکون ہے‘‘۔
٭ اپنے بچوں اور اپنے خاندان سے اپنے خیالات کا اظہار کریں، آپ کیا سوچتے ہیں آپ کے بچے اور خاندان کے لوگ کیا سوچتے ہیں اس سے آپ اُسی وقت واقف ہو سکتے جب آپ اپنے خیالات کو ایک دوسرے سے شیئر کریں گے۔ جب تک آپ عام موضوعات پر اپنے اہل خانہ سے گفتگو نہیں کریں گے تو خاص موضوعات پر کیسے بات کریں گے؟ جب آپ اپنے بیٹے کے کپڑے، بالوں کے اسٹائل، پسند وناپسند پر بات نہیں کریں گے تو زندگی کے بڑے بڑے انتخاب، اہم معاملات پر آپ اُس سے کیسے بات کریں گے، لہٰذا چھوٹے چھوٹے موضوعات کو غیر اہم نہ سمجھیں اپنے بچوں اور خاندان سے ہر طرح کے موضوعات پر تبادلہ خیال کریں، اس سے آپ اُن کے خیالات سے واقف بھی ہوں گے اور اگر ان کی اصلاح کی ضرورت ہوگی تو وہ بھی کرسکیں گے۔
٭ اپنے کاروباری، سماجی، رفاہی، دعوتی، تبلیغی کاموں میں اپنے بچوں اور اہل خانہ کو ضرورشریک رکھیں، آپ گھر سے باہر دُنیا جہان کا کام کرتے پھریں اور آپ کے اہل خانہ آپ کے کاموں سے بے خبر ہوں تو ایسا ہونا بہت ممکن ہے کہ آپ کے بچے آپ کی سرگرمیوں کو وقت کا زیاں سمجھتے رہیں لہٰذا اپنی ان سرگرمیوں سے اپنے اہل خانہ کو ضرور ہم آھنگ کریں۔
٭ اپنے بچوں سے اظہار محبت کیجیے، اپنی عادت پر جبر کرکے اُن سے اس طرح کے جملے کہیں، ہم تم سے محبت کرتے ہیں، تم ہمارے لیے اہم ہو، تم سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں، تم سب کچھ کرسکتے ہو، میرے ایک دوست اپنے بچوں سے کہتے ہیں ’’مسلمانوں کو اچھے قائد کی ضرورت ہے لہٰذا میں تم میں امیر المومنینن والی صفات دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔ آپ اپنے حالات کے مطابق جو بھی طریقہ اختیار کرنا چاہیں کیجیے بنیادی مقصد یہ ہے اپنے جذبات کو چھپا کر نہ رکھیں، کہیں منیر نیازی کی طرح یہ نہ کہنا پڑے کہ ’’حقیقت اور تھی کچھ‘‘۔
٭ اپنے اہل خانہ کی روحانی فلاح اور تربیت کا اہتمام کریں، اُن میں اللہ خوفی، نیکی، اچھائی، انصاف، مساوات، ہمدردی خیرخواہی، شراکت داری، نرمی، مفاہمت کی عادتیں پیدا کریں، اُن میں دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی عادت ڈالیں، جب بہت سے آدمی کنبے کی صورت میں ساتھ رہتے ہیں تو اختلاف ہونا ایک دوسرے سے ایذا پہنچنا لازمی ہے، دُنیا میں مکمل عدل ہونا ناممکن ہے، لہٰذا خاندان کوجوڑے رکھنے کا کام درگُزر اور برداشت کے علاوہ کسی اور طریقے سے ممکن ہی نہیں ہے۔
محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے رحمی رشتوں سے جُڑکر رہو تو اللہ تمہیں ایسے راستوں سے رزق دے گا کہ جس کا تمہیں تصّور بھی نہیں ہوگا۔
اچھی صلاحیت بھی رزق ہے، پیسہ بھی رزق ہے، اچھا کاروبار بھی رزق ہے اللہ کے رسولؐ کے مطابق رحمی رشتوں سے جُڑ نے میں رزق کی کشادگی ہے، لہٰذا خاندان کی مضبوطی، خاندان کے جوڑ، خاندان کی خیر خواہی، خاندان سے محبت کو اہمیت دیں، خاندان اختیاری نہیں ہوتا یہ تمام رشتے اللہ کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں لہٰذا یہ رشتے جیسے بھی ہوں ان کو ربؐ کا حکم اور اُس کی رضا سمجھتے ہوئے خوش دلی سے قبول کریں، اس طرح ایک اچھا خاندان وجود میں آئے گا، اچھا خاندان، اچھے معاشرے، اچھی قوم،اچھے ملک، اچھی دُنیا کی تشکیل دے گا۔

حصہ