حضرت شعیب ؑ اور ان کی قوم (پہلا حصہ)۔

1976

۔36واں حصہ
( تفصیل کے لیے دیکھیے سورۃ الاعراف حاشیہ نمبر72:70 : 69 سورۃ الشعراء حاشیہ نمبر116-115: سورۃ التوبۃ حاشیہ نمبر :79)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سرزمین حجاز میں اور چھوٹے صاحبزادے حضرت اسحاق علیہ السلام ارض فلسطین مین دعوت دین کی خدمات پر مامور تھے۔۔۔ آپؑ کی تیسری اہلیہ یا کنیز محترمہ قطورا سے ہونے والے صاحبزادے مدیان جب بڑے ہوئے تو انہیں آپ نے حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحِراحمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع بستی بسانے کے لیے بھیجا۔ یہ پیغمبر نہ تھے لیکن پیغمبر کے بیٹے اور صاحب ایمان تھے۔۔۔ اس علاقے کا نام ان کے نام سے مشہور ہوا اور پرانے قائدے کے مطابق ان کی اولاد اور جو لوگ ان کی دعوت قبول کرکے مسلمان ہوئے وہ بھی بنی مدیان کہلائے۔۔۔ قدیم زمانے کا طریقہ یہ تھا کہ جو لوگ کسی بڑے آدمی کے ساتھ وابستہ ہو جاتے تھے وہ رفتہ رفتہ اسی کی آل اولاد میں شمار ہو کر بنی فلاں کہلانے لگتے تھے، اسی قاعدے پر عرب کی آبادی کا بڑا حِصہ بنی اسماعیل کہلایا۔ اور اولاد یعقوبؑ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والے سب لوگ بنی اسرائیل کے جامع نام سے معروف ہوئے۔ اسی طرح مَد یَن کے علاقے کی ساری آبادی بھی جو مد یان بن ابراہیم علیہ السلام کے زیر اثر آئی، بنی مدیان کہلائی اور ان کے ملک کا نام ہی مَد یَن مشہور ہو گیا۔۔۔ سورۃ الشعراء اور سورۃ الحجر میں ان کا ذکر اصحاب الایکہ کے نام سے کیا گیا ہے اس لیے مفسرین نے اس بار ے میں بحث کی ہے کہ کیا مِدیَن اور اصحاب الایکہ الگ الگ قومیں ہیں؟ یا ایک ہی قوم کے دو نام ہیں؟ ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ دو الگ قومیں ہیں اور اس کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ سورۃ الاعراف میں حضرت شعیبؑ کو اہل مدین کا بھائی کہا گیا ہے، اور جہاں اصحاب الایکہ کا ذکر ہے وہاں صرف یہ ارشاد ہوا ہے کہ (جب کہ ان سے شعیب نے کہا)، ’’ان کے بھائی‘‘ (اخو ھم) کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ جب کہ کچھ مفسرین دونوں کو ایک ہی قوم قرار دیتے ہیں، کیونکہ سورۃ الاعراف اور سورۃ ہود میں جو اخلاقی برائیاں اور سیرت و کردار مدین والوں کا بتایا گیا ہے وہی سیرت و کردار اصحاب الایکہ کا بھی تھا اور حضرت شعیبؑ کی دعوت و نصیحت بھی یکساں ہے، اور آخر کار ان کے انجام میں بھی فرق نہیں ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں باتیں اپنی جگہ صحیح ہیں۔ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ بلا شبہ دو الگ قبیلے ہیں۔۔۔ مگر ہیں ایک ہی نسل کی دو شاخیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو اولاد ان کی بیوی یا کنیز قطورا کے بطن سے تھی وہ تاریخ میں بنی قطورا کے نام سے معروف ہے۔ ان میں سے ایک قبیلہ جو سب سے زیادہ مشہور ہوا، مدیان بن ابراہیم کی نسبت سے مدیانی، یا اصحاب مدین کہلایا، اور اس کی آبادی شمالی حجاز سے فلسطین کے جنوب تک اور وہاں سے جزیرہ نمائے سینا کے آخری گوشے تک بحر قلزم اور خلیج عقبہ کے سوا حل پر پھیل گئی۔ اس کا صدر مقام شہر مدین تھا۔ باقی بنی قطورا شمالی عرب میں تیماء اور تبوک اور العلاء کے درمیان آباد ہوئے اور ان کا صدر مقام تبوک تھا جسے قدیم زمانے میں ایکہ کہتے تھے۔۔۔ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ کے لیے ایک ہی پیغمبر مبعوث کیے جانے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ دونوں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے تھے، ایک ہی زبان بولتے تھے، اور ان کے علاقے بھی بالکل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ ممکن ہے کہ بعض علاقوں میں یہ ساتھ ساتھ آباد ہوں اور آپس کے شادی بیاہ سے ان کا معاشرہ بھی باہم گھل مل گیا ہو۔ اس کے علاوہ بنی قطورا کی ان دونوں شاخوں کا پیشہ بھی تجارت تھا۔ اور دونوں میں ایک ہی طرح کی تجارتی بے ایمانیاں اور مذہبی و اخلاقی بیماریاں پائی جاتی تھیں۔ پھر یہ لوگ بین الاقوامی تجارت کی ان دو بڑی شاہراہوں پر آباد تھے جو یمن سے شام اور خلیج فارس سے مصر کی طرف جاتی تھیں۔ ان شاہراہوں پر واقع ہونے کی وجہ سے انہوں نے بڑے پیمانے پر رہزنی کا سلسلہ چلا رکھا تھا۔ دوسری قوموں کے تجارتی قافلوں کو بھاری خراج لیے بغیر نہ گزرنے دیتے تھے، اور بین الاقوامی تجارت پر اپنا قبضہ جمانے کے لیے انہوں نے راستوں کا امن خطرے میں ڈال رکھا تھا۔ یہی ایک جیسی باتیں ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قبیلوں کے لیے ایک ہی پیغمبر بھیجا اور ان کو ایک ہی طرح کی تعلیم دی۔
حقیقت یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی طرح ابتداً وہ بھی مسلمان ہی تھے اور حضرت شعیب علیہ السلام کے ظہور کے وقت ان کی حالت ایک بگڑی ہوئی مسلمان قوم کی سی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد چھ سات سو برس تک مشرک اور بد اخلاق قوموں کے درمیان رہتے رہتے یہ لوگ شرک بھی سیکھ گئے تھے اور بد اخلاقیوں میں بھی مبتلا ہو گئے تھے، مگر اس کے با وجود ایمان کا دعویٰ اور اس پر فخر بر قرار تھا۔ اس قوم میں دو بڑی خرابیاں پائی جاتی تھی۔ ایک شرک، دوسرے تجارتی معاملا ت میں بد دیانتی۔ اور انہی دونوں چیزوں کی اصلاح کے لیے ان ہی میں سے حضرت شعیبؑ مبعوث ہوئے تھے۔ بچبن سے ہی حضرت شعیب علہ السلام کی اٹھان ایسی تھی کہ وہ اپنی قوم کے ہیرو لگتے تھے۔۔۔ انہائی نیک اور ذہین۔۔۔ اور قوم کو ان سے بہت امیدیں وابستہ تھیں کہ یہ شخص بڑا ہو کر ہمارا نام روشن کرے گا۔۔۔ لیکن آپؑ نے اپنی قوم کو جس حالت میں دیکھا وہ ایسی نہ تھی کہ آپ اسی حاضر و موجود طرز فکر و عمل، اور نظام زندگی میں بلند مقام حاصل کریں بلکہ اس کا تقاضا یہ تھا، کہ قوم کو اصلاح کی دعوت دیں۔۔۔ اسی لیے حضرت شعیبؑ اپنی دعوت کی ابتدا ہی ایمان اور عمل صالح کی تذکیر سے کرتے ہیں آپؑ نے فرمایا کہ اگرتم مومن ہو تو تمہاری کامیابی اور خوبی اس میں ہے کہ تم سچے، کھرے اور امانت دار بنو اس لیے کہ تم یہ بات مانتے ہو کہ ایک روز اللہ سے ملنا ہے۔۔۔ اور اسے پوری زندگی کا حساب دینا ہے۔ اس ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تمہارا کامیابی اور ناکامی کا معیار ان دنیا پرستوں سے مختلف ہو جو خدا اور آخرت کو نہیں مانتے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ جو قومیں ہلاک کی گئیں اللہ کو ان سے کوئی دشمنی تو نہیں تھی کہ وہ انہیں ہلاک کرے۔۔۔ بلکہ ان قوموں نے خود ہی اپنے لیے وہ طرزِ زندگی پسند کیا جو انہیں بربادی کی طرف لے جانے والا تھا۔ پھر اللہ نے انہیں سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کا پورا موقع دیا، ان کو سمجھانے کے لیے رسول بھیجے، ان کے ذریعے سے ان کو غلط ر استے پر چلنے کے برے انجام سے آگاہ کیا اور انہیں کھول کھول کر نہایت واضح طریقے سے بتا دیا کہ ان کے لیے فلاح کا راستہ کون سا ہے اور ہلاکت و بربادی کا کون سا۔ مگر جب انہوں نے اصلاح حال کے کسی موقع سے فائدہ نہ اٹھایا اور ہلاکت کی راہ چلنے ہی پر اصرار کیا تو لا زم تھا کہ وہ ہلاک کی جائیں۔۔۔ یہ ظلم ان پر اللہ نے نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر کیا۔ سو رۃ توبہ آیت نمبر 70 میں ارشاد ہوا:۔ کیا اِن لوگوں کو اپنے پیش روؤں کی تاریخ نہیں پہنچی؟ نوحؑ کی قوم، عاد، ثمود، ابراہیمؑ کی قوم، مدیَن کے لوگ اور وہ بستیاں جنہیں الٹ دیا گیا۔ ان کے رسولؑ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، پھر یہ اللہ کا کام نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔ حضرت شعیبؑ بہت اچھے خطیب تھے ، آپ کے خطبات اور قوم کا جواب جو قران مجید میں نقل ہوا ہے ان شاء اللہ ہم آئندہ نشست میں پیش کریں گے۔
اللہ سبحانہ و تعٰالٰی ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے، اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
وآخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین۔

حصہ