جامعہ پنجاب اور جمعیت

440

ابن بہروز
ایک بار پھر سب کے ہاتھ میں جھنجھنا پکڑا دیا گیا۔ بال کی کھال نکالی جانے لگی۔جامعہ پنجاب میں چوں کہ جمعیت کا مضبوط نیٹ ورک موجود ہے اس لیے وہاں سے کسی بھی قسم کی ہنگامہ آرائی کی خبر سے شریر لوگوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔یہی جمعیت جب پنجاب یونی ورسٹی میں تعلیمی سرگرمیاں کرتی ہے، لاکھوں روپے لگا کر طلبہ کی فلاح وبہبود میں حصہ لیتی ہے تو اس وقت اس میڈیا کے پاس اپنے نمائندے بھیجنے کا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ آئیں اور ان مثبت سرگریوں کو بھی کور کرنے کی کوشش کریں۔
جمعیت کراچی کے اطلاعات کے ایک ذمے دار ایک دفعہ ڈان اخبار کے دفتر گئے اور اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو کور کرنے کی بات کی تو اُن کے سٹی پیج کے انچارج نے دوٹوک کہا کہ وہ ایسی خبریں نہیں لگاتے ۔ہاں اگر کوئی لڑائی جھگڑے والی خبریں ہوں تو وہ اُن کی ترجیح ہے۔اس سوچ کے ساتھ آپ ہی بتائیے کہ ایک مثبت معاشرہ کیسے پروان چڑھ سکتا ہے۔
اس بار واقعہ یہ ہے کہ جمعیت گزشتہ چار برسوں سے پائنیر فیسٹیول کے نام سے ایک بڑا ایونٹ منعقد کرتی آرہی ہے جس میں نمایاں کارکردگی والے طلبہ وطالبات میں انعامات کی تقسیم، طلبہ کے لیے ورکشاپس، طنزومزاح پر مشتمل مشاعرے کا انعقاد تھا۔رات تقریباً چار بجے کے قریب نام نہاد پشتون کونسل (یہ وہ طالب علم ہیں جنھیں مجاہد کامران نے بلوچستان کوٹے پر داخلے فراہم کیے۔یہاں آکر ان میں سے اکثر لڑکے فری بلوچستان کے لیے سرگرمیوں میں ملوث ہوگئے)نے حملہ کرکے سارے پروگرام کو تہس نہس کردیا، بے وقوفوں نے غلطی یہ کی کہ فیس بک پر یہ ساری پلاننگ کی، جسے ایک چینل نے ایکسپوز کیا۔
معروف صحافی طارق حبیب نے رئوف کلاسرا اور آصف محمود کی جانب سے جمعیت پر بے جا تنقید اور رائی کا پہاڑ بنانے پر سوشل میڈیا پر اپنے ان خیالات کا اظہار کیا۔
’’جامعہ پنجاب میں چند ماہ قبل طالبات کے کیمپ پر ’’غیور قوم پرستوں‘‘ نے حملہ کیا تو میڈیا حسب عادت و روایت جمعیت پر برس پڑا۔ ان دنوں میں ایک رپورٹ پر کام شروع کیا کہ جمعیت نے ملک کو باصلاحیت خون فراہم کیا ہے یا ان پڑھ، جاہل گنوار لوگ دیے ہیں۔رپورٹ تو بوجہ غم روزگار مکمل نہ کرسکا مگر جو ڈیٹا جمع ہوسکا،اس کے مطابق ملک کے حساس ترین ریسرچ سینٹرز، اٹامک سینٹرز سمیت دیگر نو اداروں میں تین سو سے زائد افراد ذمہ داریاں ادا کرنے اور ملک کو سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ناقابل تسخیر بنانے کے لیے تگ و دو کررہے ہیں ۔ دیگر قومی سطح کے اداروں میں تعداد کہیں زیادہ ہے۔ جمعیت میں خامیاں بھی بہت ہیں، اب دیکھیں نا۔ جمعیت ایسا فرد تیار نہیں کرسکی جو’’پنجابیوں کا قبرستان، جامعہ پنجاب اور آزاد بلوچستان‘‘…. جیسے نعرے ہی لگاسکے جو کوٹے پر پڑھ کر امتحان تک پاس نہ کرسکے جو ماہانہ وظیفہ لیکر وظیفہ دینے والوں کا قبرستان تیار کرنے کے لیے سرگرداں رہے۔ جمعیت میں خامیاں تو ہیں۔ بالکل ہیں۔ سندھی، بلوچی، پٹھان، مہاجر، پنجابی… سب ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہوتے ہیں۔ وطن پر آنچ آئے تو البدر و الشمس کی صورت دفاع وطن کے لیے قربانیاں دینے والے نوجوان دیتی ہے۔ ہاں یہ جمعیت کی خامی ہی تو ہے کہ ہتھیار ڈالنے والے ’’لڑاکا‘‘ نہ فراہم کرسکی، ایسے تنخواہ خوار محافظ نہ دے سکی،جو دشمن کی حراست میں اسے خوش کرنے کے لیے گندے لطیفے سنا کر درباری مسخرے کا کردار بھی نبھا سکے۔یہ بھی جمعیت کی خامی ہی تو ہے کہ تعلیمی اداروں کو ایسا ماحول دیتی ہے کہ حسن نثار یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ میں اپنی بچیوں کو اس لیے اطمینان سے پڑھنے بھیج دیتا ہوں کہ وہاں جمعیت موجود ہے۔ اپنے گھر کی خواتین کو بھیجتے ہوئے تواطمینان محسوس کرتے ہو مگر جب جمعیت مخالف عناصر سرگرم ہوتے ہیں تو ہذیان بکتے بکتے تمھاری رال ناف تک پہنچ جاتی ہے۔اچھا ہاں کیا کہا آپ نے… ناسا واسا کا ذکر کیا تھا شاید…جمعیت کوئی فرد ناسا میں نہیں ہے لیکن آپ سے وعدہ ہے حضور… جس دن روز ٹی وی کے مالک نے ناسا کی فرنچائز حاصل کرلی نا اس دن ناسا میں بھرتی کرانے کے لیے آپ سے درخواست کریں گے۔بس فرنچائز حاصل کرنے کے بعد آپ کے ٹی وی والا اصول ہی وہاں مت رکھ دینا کہ ’’یہاں تنخواہ نہیں ملتی آپ رپورٹر بنو، مائیک و کیمرہ لے کر باہر جائو…کمائی کرو… خود بھی کھائو ہمیں بھی کھلائو۔ ‘‘
یہ تو جناب طارق حبیب کے ریمارکس ہیں لیکن کیا ہمارے یہ صحافی، اینکر کبھی جمعیت کی مثبت سرگرمیوں کو اجاگر کریں گے، کیا انھیں معلوم بھی ہے کہ جمعیت صرف بڑے پیمانے پر کیا کیا سرگرمیوں کرتی ہیں؟لاہور کے ایک صحافی ’فرحان احمد خان‘ جامعہ پنجاب اور جمعیت کو لیکر خوب دل کی بھڑاس نکالتے ہیں لیکن ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو انھیں جمعیت کی کسی سرگرمی کا علم نہیں ہوتا یا پھر ان کے اپنے بنائے گئے مفرضات میں جمعیت کی کوئی اچھائی انھیں نظر نہیںآتی ہے۔
ان جیسے ہی لاعلم اور بے خبر صحافیوں کے لیے جمعیت کی بڑی سرگرمیوں پر مشتمل ایک تعارف پیش کیا جارہا ہے تاکہ اُن کی تاریک بینائی میں کچھ روشنی کی چمک پیدا ہو۔
ہفتہ کتب:
ڈائو میڈیکل کالج جہاں اسلامی جمعیت طلبہ نے اس سرگرمی کی روایت ڈالی۔ یہ سرگرمی ان مستحق طلبہ کی مدد کے لیے منعقد کی گئی تھی جو کہ مالی طور پر مستحکم نہ ہونے کے سبب اپنی جیب سے میڈیکل کی ضخیم کتابوں کو خرید نہیں سکتے تھے۔ اس مہم کے تحت جمعیت سابق طلبہ سے اور اردو بازار میں کتب فروشوں سے پرانی کتابیں امداد کی صورت میں جمع کرتی اور مستحق طلبہ کو مفت فراہم کردیتی۔ اس کے بعد جمعیت نے ہر تعلیمی ادارے میں موجود مستحق طلبہ کی مدد کے لیے ہفتہ امداد طلبہ کی مہم بھی شروع کی۔ یہ سرگرمی اس قدر مقبول ہوئی کہ اس وقت سے لے کر آج تک جاری و ساری ہے اور پورے پاکستان میں منعقد کی جاتی ہے۔
کتب میلہ:
یہ علم دوست سرگرمی جمعیت کا وہ احسن قدم ہے جس نے جمعیت کی علمی شناخت اور تعلیم سے محبت کے جذبے کو پورے معاشرے میں ایک مثال بنا دیا۔ جامعہ کراچی، جامعہ پنجاب، جامعہ پشاور،جامعہ اردو، جامعہ این ای ڈی، جامعہ دائود اور شہر کی دیگر بڑی جامعات جمعیت کی اس سرگرمی کی احسان مند ہیں کہ جس کی بدولت ان میں پڑھنے والے لاکھوں نہیں بلکہ اب تک کروڑوں طلبہ رعایتی قیمت پر مہنگی کتابوں کو حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔ یہ اتنی بڑی سرگرمی تھی کہ اس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے بڑے کتب فروشوں اور اشاعتی اداروں نے شہر کی سطح پر عالمی کتب میلوں کا انعقاد کرنا شروع کردیا ہے۔یہ تین روزہ کتب میلے آج بھی طلبہ اور تعلیمی یافتہ طبقے میں جمعیت کی ایک بہترین شناخت ہیں۔
بلڈ ڈونیشن کیمپ:
جمعیت نے نہ صرف تعلیمی میدان میں اپنا نمایاں کردار نبھایا ہے بلکہ خدمت خلق کے جذبے کے تحت معاشرے میں موجود ضرورت مندوں کے لیے بھی ہمدردی کا ہاتھ ہمیشہ آگے بڑھایا ہے۔ تعلیمی اداروں میں بڑی تعداد میں لگنے والے بلڈڈونیشن کیمپس کے ذریعے لاکھوں طلبہ سے خون کے عطیات جمع کیے جاتے رہے ہیں اور ان کو غریب اور مستحق بیماروں کو مفت دیے گئے۔ یہ سرگرمی جہاں صحت کے میدان میں جہاد ہے وہیں طلبہ میں معاشرے کی خدمت کا جذبہ پروان چڑھانے میں اہم کردارادا کرتا ہے۔
کریش کلاسزاور سیلف اسسمنٹ ٹیسٹ :
پاکستان میں تعلیم کا شعبہ آغاز سے ہی ریاست کی نظروں اور توجہ سے اوجھل رہا ہے۔اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنی مدد آپ کے تحت بہترین تعلیمی ماحول کی فراہمی اور ملک کے لیے ہونہار طلبہ کی تیاری کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے کریش کلاسز کا پراجیکٹ شروع کیا تھا جس کے سبب اب تک لاکھوں طلبہ جو بھاری بھرکم فیسوں کے عوض کوچنگ سینٹر میں جا کر تعلیم حاصل نہیں کر پاتے تھے ان کو مفت تعلیم دینے کا کام کیا۔ اسی طرح شہر کی بڑی اور پروفیشنل جامعات میں داخلہ لینے والے طلبہ کی معاونت کے لیے ٹیسٹ منعقد کرواتی ہے تاکہ وہ محنت کر کے تعلیمی عمل کو جاری رکھ سکیں۔
طلبہ عدالتیں اور مباحثے:
یہ وہ دور تھا جب نظریات کا مقابلہ نظریات سے، دلیل کا جواب دلیل سے دیا جاتا تھا۔ اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ نے ملک کے طول و عرض بالخصوص شہر کراچی، شہر لاہور میں خدا بے زار تہذیب کے آلہ کاروں کا مقابلہ اپنے نظریاتی لٹریچر اور نظریاتی سرگرمیوں سے کیا۔ ملکی ایشوز پر طلبہ عدالتیں لگائی جاتی تھیں جن میں طلبہ خود واقعات و شواہد کی روشنی میں بے دار مغزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی ایشوز پر اپنا موقف بیان کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی مباحثوں کی صورت میں طلبہ کے ذہن میں جنم لینے والے خیالات کو یکجا کر کے ان کو صحیح رخ اور سمت دے کر بہترین ممکنہ حل ان کے سامنے پیش کیے جاتے۔ یہ مباحثے تھے کہ جن کی بدولت اسلام سے دور کرنے والے نظریات کے مقابلے میں اسلامی نظریہ حیات پیش کیا جاتا اور اس کی عملی صورت گری کی جاتی۔ یوں اسلام کے خلاف ہونے والا پروپیگنڈاکا قلع قمع کیا گیا۔
اسٹڈی سینٹرز:
اسلامی جمعیت طلبہ کراچی نے طلبہ کو ان کے علاقوں میں تعلیمی ماحول فراہم کرنے کے لیے شہر کے مختلف مقامات پر البدر اسٹڈی سینٹرز کو قائم کیا جن میں مختلف قسم کے کورسز کروائے جاتے رہے۔ یہ سینٹرز طلبہ کے لیے امتحانات کی تیاری کے لیے بھی معاون ثابت ہوئے۔ اس کے علاوہ ان سینٹرز میں قائم بڑے کتب خانے طلبہ کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے والے اخبارات کے مطالعے اور معلومات عامہ فراہم کرنے والی نادر کتب تک رسائی دیتے رہے۔
ٹیلنٹ ایکسپو :
ٹیکنالوجی کے اس دور میں نوجوان نسل کو بے راہ کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں اور ملک کا نوجوان اپنی زندگی کے مقصدکو بھول چکا ہے ۔ ہر طرف قیادت کا فقدان نظر آتا ہے اور پوری قوم مایوسی کا شکار ہے اور پڑھے لکھے ذہنوں میں تعلیم کو دنیا پرستی کا عنوان بنا کر اسلام اور دین کے تصورات کو مسخ کر کے انہیں کسی اور تہذیب کا آلہ کار بننے کی دعوت عام ہے، ایسے میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی نے وقت اور حالات کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس چینلج کو قبول کیا کہ طلبہ میں دین کی دعوت کو موثر انداز میںمعاشرے کے ہر طبقے تک پہنچایا جائے۔ اس ضمن میںاسلامی جمعیت طلبہ نے پاکستان بھر میں تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنی چھتری تلے جمع کر کے ان کی صلاحیتوں اور ٹیلنٹ کو پوری دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستانی نوجوان اسلام سے محبت کرتے ہیں اور اسی کو اپنی زندگی گزارنے کا راستہ سمجھتے ہیں۔ ٹیلنٹ ایکسپو کے عنوان سے جاری اس سرگرمی نے تعلیم کے میدان میں طبقاتی نظام کا خاتمہ کیا اور ہر باصلاحیت طالب علم کو پلیٹ فارم مہیا کیا۔ اسی طرح ان طلبہ میں دین کا شعور بے دار کرنے کے لیے بڑی تعداد میں دینی لٹریچر اور قرآن و سنت کی دعوت پر مبنی تربیتی سیشن ان کے لیے منعقد کیے۔یہ سرگرمی اتنی موثر رہی کہ اب پورے پاکستان میں اسلامی جمعیت طلبہ کے تحت یہ ایونٹ جاری و ساری ہیں اور لاکھوں طلبہ میں اُمید کی کرن پیدا کر رہے ہیں۔
یہ تو وہ سرگرمیاں ہیں جو ابھی یاد ہیں، اگر اسے مکمل طور پر اکھٹا کیا جائے تو سیکڑوں ایسی سرگرمیاں ہیں جو تحریر کی جاسکتی ہیں، چھوٹے پیمانے پر ہونے والی سرگرمیوں کو تو آپ رہنے ہی دیں، اگر مزید تفصیلات جاننی ہو تو آپ فیس بک پر اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا پیج وزٹ کریں تو تشنگی دور ہوجائے گی۔

حصہ