برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

1121

قسط نمبر120
امیر جماعت اسلامی کے استعفے کا معاملہ جماعت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا تھا۔چناچہ اراکین جماعت اور کارکنان میں حد درجہ بے چینی کا پیدا ہو نا ایک فطری عمل تھا اور اس موقع پر جو غیر معمولی جذباتی فضاء بنی ( جس کا گلہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے کیا جسے پچھلی قسط میں نقل کیا گیا تھا ، اس کی وجہ سے ان اراکین کو جنہوں نے جماعت کی پالیسی اور مولانا مودودی کے حوالے سے سوالات اٹھائے تھے، سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں مولانا مودودی کی پیش کردہ قرارداد پر تین دن تک جاری رہنے والی تفصیلی بحث مکمل ہوچکی تھی اور جب یہ بحث بعد سمیٹی جانے لگی تو امیر جماعت اسلامی سید ابو الاعلی مودودی نے قرارداد کی تشریح و توضیع کرتے ہوئے مفصل تقریر فرمائی تاکہ اراکین جماعت اسلامی جماعت کی پالیسی کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور آئندہ کے لائحہ عمل کے ہر پہلو سے بخوبی واقف ہوجائیں۔
اس تقریر میں اراکین جماعت اسلامی اور رفقاء کو ان تمام سوالات اور شبہات کا جواب بھی مل گیا جو جماعت اسلامی کی پالیسی کے حوالے سے ایک عرصے سے موضوع گفتگو بنے ہوئے تھے۔
قرارداد کا متن اسطرح تھا ” جماعت اسلامی پاکستان اس بات پر اللہ کا شکر بجا لاتی ہے کہ اب سے پندرہ سال قبل جس نصب العین کو سامنے رکھ کر اور جن اصولوں کی پابندی کا عہد کرکے اس نے اس سفر کا آغاز کیا تھا ، آج تک وہ اسی منزل مقصود کی طرف انہی اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے بڑھتی چلی جارہی ہے۔۔ جما عت اسلامی اس بات پر مطمئن ہے کہ تحریک اسلامی کا جو لائحہ عمل نومبر1951 میں اراکا ن کے اجتماع عام منعقدہ کراچی میں امیر جماعت اسلامی نے مرکزی شوری کے مشورے سے پیش کیا تھا اور وہ بالکل صحیح توازن کے ساتھ مقصد تحریک کے تمام نظری اور عملی تقاضوں کو پورا کرتا ہے ‘ اور وہی آئندہ بھی اس تحریک کا لائحہ عمل رہنا چاہیے۔۔قرارداد کے آخری پیراگراف میں مزید صرا حت کے ساتھ کہا گیا کہ ” چونکہ جماعت اسلامی اپنے دستور کی رو سے اپنے پیش نظر اصلاح و انقلاب کے لئے جمہوری و آئینی طریقوں پر کام کرنے کی پابند ہے اور پاکستان میں اس اصلاح و انقلاب کے عملا رونما ہونے کا ایک ہی آئینی راستہ ہے اور وہ ہے انتخابات کا راستہ ، اس لئے جماعت اسلامی ملک کے انتخابات سے بے تعلق تو بہر حال نہیں رہ سکتی۔خواہ وہ ان میں بلا واسطہ حصہ لے یا بالواسطہ یا دونوں طرح۔ رہا یہ امر کہ کہ انتخابات میں کس وقت ان تینوں طریقوں میں سے کس ترقی سے حصہ لیا جائے ، اس کو جماعت اپنی مجلس شوری پر چھوڑتی ہے تاکہ وہ ہر انتخاب کے موقع پر حالات کا جائزہ لیکر اس کا فیصلہ کرے “۔
مولانا نے اپنی پیش کردہ قرارداد میں تطہیر افکار و تعمیر افکار ، صالح افراد کی تلاش و تنظیم و تربیت اور اجتماعی اصلاح کی سعی کے حوالے سے تینوں نکات پر تفصیلی گفتگو کی۔ مولانا مودودی کی مدلل تقریر اور وضاحت کے بعد پالیسی اور محض اصلاحی تحریک کے تاثر سے متعلق بہت سے سوالات از خود ختم ہوگئے جو جماعت اسلامی کے بارے میں کچھ اراکین کی جانب سے پیدا کیے گئے تھے یا ان کی غلط مراد اخذ کر لی گئی تھیں۔
مولانا نے قرارداد کے دس بنیادی نکات کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ” جس نصب الین کے لئے جماعت اسلامی قائم ہوئی تھی آج تک اسی نصب العین کی جانب گامزن ہے۔ اس لائحہ عمل کے تین اجزاء [تطہیر افکار و تعمیر افکار ، صالح افراد کی تلاش و تنظیم و تربیت اور اجتماعی اصلاح کی سعی] کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ بلکہ تحریک کے یوم آغاز سے ہی لازم رہے ہیں۔”
جماعت اسلامی کی تحریک محض اصلاحی تحریک ہے یا اس کے مزید کچھ وسیع اہداف ہیں ؟ اس حوالے سے مولانا نے دوٹوک الفاظ میں فرمایا ” کسی شخص کو اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ نظام حکومت کی اصلاح اور انقلاب قیادت جدوجہد یعنی سیاست کوئی عارضہ تھا جو جماعت اسلامی کو قیام پاکستان کے بعد کسی وقت یکایک لاحق ہوگیا۔۔ جماعت نے محض اصلاح عقائد و اخلاق ، محض اصلاح رسوم و عقائد ، محض احیائے علوم دین اور اسی طرح کے دوسرے اصلاحی و تعمیری کاموں پر اپنی فکر و عمل کو محدود مرکوز نہیں کیا بلکہ ان سب کاموں کو بڑے اور اصلی مقصد کا ذریعہ قرار دیا۔ اور وہ مقصد یہ تھا کہ فاسد نظام زندگی کو اقتدار کے مقام سے ہٹا کر اس کی جگہ دین حق کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سے غالب و فرمانروا بنایا جائے۔
مولانا نے کہا کہ اب اس سے زیادہ عجیب بات کوئی نہ ہوگی کہ انہی لوگوں کے لئے تحریک کی اصل بنیاد مشتبہ ہوجائے اور وہ اسے بعد کے کسی دور کا عا رضہ لاحقہ سمجھ بیٹھیں۔( مولانا منظور احمد نعمانی اور کچھ دیگر تاسیسی اراکین جو جماعت کو محض اصلاحی جماعت کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے اور اعتراض کیا تھا کہ جماعت نے انتخابی سیاست میں آنے کا فیصلہ کرکے بنیادی پالیسی سے انحراف کیا ہے، یہ ان کے لئے مکمل جواب تھا )
دستور کے حوالے سے جماعت اسلامی کی جدوجہد پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے جواب میں مولانا نے اپنی تقریر میں کہا کہ ” اس مطالبہ دستور اسلامی آج دس سال بعد بعض پرانے رفقاء یہ اعتراض لے کر اٹھے ہیں کہ ہمم نے فطری طریق انقلاب کو چھوڑ کر مصنوئی طریقے سے ایک اسلامی ریاست بنانے کی کوشش شروع کردی برسوں اس کام کے خود علمبردار رہنے کے بعد وہ اس کو ایسے عجیب و غریب معنی پہنا رہے ہیں جو کبھی نہ ان کی زبان سے سنے گئے تھے نہ کسی کو یہ توقع تھی کہ جماعت کے حلقوں میں وہ سنے جائیں گے۔ ان کی تعبیر کے مطابق ہماری اس جدوجہد کا منشا بس یہی تھا کہ دستور ساز اسمبلی ہمارے بتائے ہوئے دستور پر ملک کا دستور بنادے۔اور جب ایسا ہوجائے گا تو وہ مطلوب چیز وجود میں آ جائے گی جسے ہم ایک اسلامی ریاست یا حکومت کہتے ہیں۔ آگے چل کر مولانا نے فرمایا کہ دنیا بھر کے مسلم ممالک پر ہماری دعوت کا اچھا خاصہ اثر پڑا ہے۔ ہمارے لٹریچر نے ان کے اذہان و افکار پر اثر ہی نہیں ڈالا بلکہ ان کی تحریکات کو بھی عملا متاثر کیا ہے۔ متعدد نے آزاد ہونے والے ممالک میں بھی اسلا می دستور کی تدوین کے مطالبات ہونے لگے ہیں صرف 385 آدمیوں کی ابتدائی طاقت سے کام شروع کرکے صرف دس سال میں اتنی سخت مزاحم طاقتوں کے مقابلے میں آپ کس دوسرے طریقے سے اتنا بڑا کام کرسکتے تھے ؟ ”
اس موڑ پر اگست 1941 میں جماعت اسلامی کے منظم ہونے باقاعدہ تحریک کو تنظیم میں ڈھالنے کا احوال مولانا مودودی اپنے اسطرح بیان کرتے ہیں ۔
” جماعت کی ابتداء اگست 1941 میں 75 ارکان اور 74 آنے کے سرمائے سے ہوئی تھی ( صرف دو آنے کی کسر تھی ورنہ ارکان اور سرمائے کے درمیان کچھ فرق ہوتا )۔اپنے قیام کے دس مہینے مہینے بعد ہم نے یہ فیصلہ کیا لاہور سے مرکز کو منتقل جائے اور جون 1942 میں ہم گاؤں میں جا بیٹھے۔
جو دارالا سلام کے نام سے موسوم تھا۔ اور پٹھان کوٹ سے چار میل کے فاصلے پر تھا۔
ہم نے یہ فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ اس وقت ملک میں قیام پاکستان کے لئے زبردست تحریک چل رہی تھی اور ہم یہ مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ شہر میں بیٹھ کر اپنا کام کریں اور تحریک کے ساتھ خواہی نخواہی کوئی مزاحمت کی صورت پیدا ہوجائے۔ جماعت اسلامی کے نظر یہ بات ہرگز تھی کہ پاکستان کے قیام کے لئے جو تحریک چل رہی ہے اس میں وہ کسی نوع کی مزاحمت کرے۔ آج کوئی شخص ہمارے اوپر جو الزام چاہے رکھ دے جماعت کے کسی ریزولیشن ، اس کے کسی اجتماع کی کاروائی ، اور اس کے کسی بیان سے یہ بات ثابت نہیں کی جاسکتی کہ جماعت نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی۔
اس وقت ہمارے پیش نظر جو کام تھا وہ یہ کہ خاموشی کے ساتھ اپنے ارکان اور اپنے متفقین کی تربیت اور تنظیم کریں اور اپنے آپ کو ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کریں جو خدانخواستہ اگر تحریک پاکستان ناکام ہوجائے تو ہمارے نزدیک پورے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے تھے ، اور اگر یہ تحریک کامیاب ہوجائے تو ہندوستان میں مسلمانوں اور پاکستان میں اسلام کے ساتھ جن حالات کے پیش آنے کا خطرہ تھا۔اس لئے ہم نے اپنی تنظیم اور تربیت کا طریقۂ اختیار کیا جو آنے والے ممکن حالا ت کے لئے ہمیں موزوں نظر آتا تھا۔ اسی مقصد کو پیش نظررکھتے ہوئے اگست 1941 سے اگست 1947 تک چھ سال کی مدت ہم نے اس کوشش میں صرف کی کہ جماعت اسلامی کی تنظیم اس قدر مضبوط ہوجائے کہ آئندہ پیش آنے والے حالات میں خواہ کیسے ہی طوفان اٹھیں ، اس تنظیم کو ہلایا نہ جاسکے اور تنظیم اپنی جگہ قائم رہے۔”
اندازہ لگائیے کہ کس قدر صاف اور واضع وژ ن کے ساتھ مولانا مودودی نے اراکین جماعت کی تنظیم اور تربیت سازی کی تھی کہ ماچھی گوٹھ کے موقع پر جب امین احسن اصلاحی صاحب ، مولانا منظور نعمانی صاحب ، اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب جیسے بلند قامت علمی اکابر نے جماعت کی پالیسی سے اختلاف کیا تب بھی تنظیم اور جماعت اسلامی نے کامل یکسوئی کے ساتھ اس بحران کو بنا کسی تذبذب اور جنجھلا ہٹ کے کامیابی کے ساتھ انگیز کرلیا
حوالہ جات : تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل
تحریک اسلامی۔ ایک تاریخ ایک داستان۔(سید مودودی کی نگارشات پر مبنی رپوتاڑ۔شائع کردہ۔منشورات صفحہ۔126– 127)
(جاری ہے)

حصہ