قبضہ سچا دعویٰ جھوٹا

334

زاہد عباس

یہ موسم کی بارش، یہ بارش کا پانی
یہ پانی کی بوندیں تجھے ہی تو ڈھونڈیں
آئے موسم رنگیلے سہانے جیا نہیں مانے…

ان گانوں کے بول بتارہے ہیں کہ انسانی زندگی سے موسموں کا تعلق کس قدر گہرا ہے۔ گرمی ہو یا سردی، خزاں ہو یا بہار… ہر موسم کا اپنا الگ مزا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جنہیں قدرت نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا۔ ایک طرف خدا نے ان نعمتوں کی صورت ہماری زندگیوں میں رنگ بکھیرے، تو دوسری طرف ہم نے بھی کئی خودساختہ موسم بنا لیے… مثلاً جلسے جلوسوں کا موسم، تہواروں پر جھنڈے لگانے کا موسم، سیاسی قلابازیوں کا موسم، دھرنوں کا موسم… اور تو اور شادی بیاہ کی تقریبات کو بھی موسم سے منسوب کر ڈالا۔ یہاں سیاسی قلابازیوں اور دھرنوں کے موسم پر بات کرنے سے بہتر ہے کہ میں شادی بیاہ کے موسم تک ہی محدود رہوں۔
ہمارے معاشرے میں شادیوں کے لیے عیدالفطر سے (سوائے محرم کے مہینے کے) ربیع الثانی تک کا وقت مقرر کردیا گیا ہے۔ مخصوص کیے گئے ان مہینوں کے سوا اس تقریبِ سعید کا ہونا روایت سے ہٹ کر تصور کیا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں قائم خودساختہ روایتوں کا ٹوٹنا مشکل ہوا کرتا ہے، لیکن اِس سال حکومتِ سندھ نے معاشرے میں قائم اس فرسودہ روایت کو سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے غیر قانونی شادی ہالوں کوگراکر اُس وقت توڑ ڈالا جب موسمِ شادی اپنے عروج پر تھا۔ واضح رہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کارروائی کرتے ہوئے انتظامیہ نے سرکاری زمینوں پر قائم درجنوں غیر قانونی شادی ہال مسمار کیے جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنی شادی کی تقریبات منسوخ کرنی پڑیں۔ اسلام میں تقریبِ نکاح کے لیے وقت کی قید نہیں، اور نہ ہی مخصوص کیے جانے والے اوقات کی کوئی ممانعت ہے۔ یہاں تو بس میرا ذاتی اختلاف یہ ہے کہ کسی بھی معاملے کو اگر وقت کی قید میں جکڑ دیا جائے تو مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ ظاہر ہے جب لوگوں کی اکثریت ایک ہی وقت میں شادیوں کی تقریبات کرے گی تو ضروری استعمال کی اشیاء سے لے کر تواضع پر آنے والے اخراجات میں خاصا اضافہ ہوگا جس کا اثر براہِ راست معاشرے کے اُن غریبوں پر پڑے گا جو اپنی جوان بچیوں کو دو کپڑوں میں رخصت کرنے کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ وہ سچ ہے جس سے شاید ہی کوئی ذی شعور شخص اختلاف کرے۔
خیر بات ہورہی تھی گرائے گئے شادی ہالوں کی۔ پہلے پہل تو میں بھی یہی سمجھتا رہا کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف انتظامیہ کی جانب سے مشن امپوسیبل طرز پر کیا گیا آپریشن سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح کے عین مطابق ہے، لیکن جلد ہی میرے سامنے کچھ ایسے حقائق آنے لگے جنہوں نے انتظامیہ کی جانب سے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کیے جانے والے اس آپریشن کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ کہتے ہیں ’’قبضہ سچا، دعویٰ جھوٹا‘‘… بالکل یہی کچھ کراچی میں مسمار کیے گئے شادی ہالوں کے ساتھ بھی ہوا۔ بظاہر ان غیر قانونی شادی ہالوں کو گرا تو دیا گیا لیکن قابضین کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی قانونی کارروائی نہ کی گئی، اور نہ ہی قبضہ کی گئی جگہوں کو خالی کروانے کے لیے کوئی ایسا اقدام کیا گیا جس کی بدولت یہ سرکاری پلاٹ عوام کے لیے مختص کیے جاتے۔ جب حکمرانوں کے اہداف میں بدنیتی شامل ہو تو اسی قسم کے نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں، یعنی گرائی گئی دیواروں کی جگہ قبضہ گروپ کی جانب سے تمبو، قناتیں لگا کر دوبارہ کام شروع کردیا گیا، جہاں پروگرام نہ ہوسکے اُن جگہوں کو ڈیکوریشن کا سامان ڈال کر اپنے قبضے میں رکھا گیا، اتنا زیادہ شور شرابہ اور نتیجہ صفر… جو مالک تھے وہی مالک رہے۔ صرف سامنے کی دیوار توڑ کر جس کی تعمیر فقط ایک پروگرام کی آمدن کے عوض دوبارہ کی جاسکتی ہے، نام نہاد آپریشن کی کامیابی کے دعوے کرنے کے ساتھ ساتھ قابضین کو دوبارہ کاروبار کرنے کا پورا موقع فراہم کردیا گیا۔ شہر کے کسی بھی علاقے میں جاکر مشاہدہ کرلیں، آپ کو یہی صورتِ حال دکھائی دے گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسمار کیے جانے والے شادی ہالوں کا ملبہ اُس جگہ سے اٹھا کر ان سرکاری زمینوں کو حکومت اپنے کنٹرول میں لے لیتی، یا پھر ان جگہوں کو فوری طور پر پارک یا کسی بھی فلاحی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھ کر ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا جاتا۔ بجائے اس عمل کے سرکاری زمینوں کو دوبارہ قبضہ گروپ کے حوالے کردیا گیا۔
کراچی میں زمینوں پر قبضے کی تاریخ نئی نہیں، کبھی کچی آبادیوں کے نام پر، تو کبھی چائنا کٹنگ کی صورت، ہمیشہ یہاں لینڈ مافیا سرگرم رہا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ سارا کام نہ صرف سرکاری سرپرستی میں کیا جاتا رہا بلکہ قبضہ کی گئی زمینوں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے قوانین بھی بنائے جاتے رہے۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ 1985-86ء میں انہی بنائے گئے قوانین کے تحت کچی آبادیاں بسائی گئیں، بلکہ سرکاری زمینیں ہتھیانے کا یہ سلسلہ ’’گوٹھ آباد اسکیم‘‘ کے نام سے اب تک جاری ہے۔ جس کی تازہ مثال احسن آباد سیکٹر 10 اسکیم 33 ہے جہاں چائنا کٹنگ کی گئی 1977ء کے ماسٹر پلان سے منظور شدہ اس بستی میں تقریباً 42ہزار پلاٹس ہیں جہاں حکومت کی ملی بھگت سے سیکٹر 5اللہ بخش گوٹھ ، سیکٹر 3,2اور 4میں بروہی گوٹھ کے نام سے قبضہ کیا گیا ۔ سیکٹر2میں 33ایکڑ پر سہون سٹی، سیکٹر4پر حاجی اللہ بخش کے نام سے قبضہ کیا گیا۔ اخبارات میں چھپنے والی اس خبر کے علاوہ میں ذاتی طور پر ایسے کئی علاقوں سے واقف ہوں جہاں تعمیر کیے جانے والے بڑے منصوبے ناجائز طور پر آباد کی جانے والی بستیوں کی نذر ہوگئے۔ اسلام آباد میں تعمیر کیا جانے والا ایوب پارک بھی ایسے ہی منصوبوں میں سے ایک ہے، جسے کراچی میں پارک کے لیے مختص پچاسی ایکڑ اراضی پر محیط پلاٹ پر قبضہ ہوجانے یا کروائے جانے کے بعد کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی درجنوں تعمیراتی منصوبے حکومت کی بدنیتی اور نااہلی کی وجہ سے کراچی سے باہر منتقل کردیے گئے۔
سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اگر حکمرانوں کا تعاون نہ ہو تو بڑی سے بڑی فن کاری کے باوجود کوئی بھی شخص ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کرسکتا۔ ناجائز تجاوزات ہوں یا غیر قانونی تعمیرات… فٹ پاتھ پر ہوتے کاروبار ہوں یا بغیر اجازت نامے کے بلند عمارتوں کی تعمیر… حکومتی چھتری کے بغیر یہ سب ممکن نہیں۔ جسے انتظامیہ کا تعاون اور حکمرانوں کی آشیرباد مل جائے وہ شخص ایک ایسا چلتا پرزہ بن جاتا ہے جو اپنے سامنے آنے والی ہر سرکاری چیز پر قبضہ کرنے اور اس کو فروخت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ان راشی افسران اور قبضہ مافیا کے گٹھ جوڑ نے سندھ خاص کر کراچی میں جو تباہی مچائی اس کا اندازہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے ان انکشافات سے کیا جا سکتا ہے کہ کراچی کی وفاقی کالونیوں کے مکانات اورفلیٹس پر سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے سیاسی گروپ قابض ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے کہا کہ فلیٹوں اور مکانوں میں ریٹائرڈ افسران و ملازمین بھی تاحال رہائش پذیر ہیں، جبکہ کئی سرکاری ملازمین نے اپنے نام الاٹ کردہ کوارٹر تیسرے فریق کو فروخت کردیے ہیں۔ واضح رہے کہ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے چھے ماہ بعد سرکاری رہائش گاہ لازمی طور خالی کرنا ہوتی ہے۔۔ لیکن کیا کیا جائے گزشتہ تیس برسوں سے کراچی کی سیاست نے یا ایک مخصوص سیاسی جماعت کی طرزِ سیاست نے لوگوں کو حقوق کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا وہ درس دیا جس نے ہمارے معاشرے میں لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کو دادا گیری کی جانب دھکیل دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری سرکاری املاک سرکار کے بجائے قبضہ گروپوں کی ملکیت ہیں۔ ماضی میں جو کچھ بھی ہوتا رہا اُس کے ازالے کے لیے عوام کو حکمرانوں کی جانب دیکھنے کے بجائے ایسے لوگوں کو منتخب کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے کراچی کے عوام کی بلاتفریق خدمت کی۔ عوام کو موجودہ حکومت کے خلاف متحد ہوکر اپنے اصل حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی تبھی اس شہر سے لاقانونیت اور لینڈ مافیا سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے، ورنہ ہم آنے والی نسلوں کو غلامی کے سوا کچھ نہیں دے سکیں گے۔

حصہ