ایک عورت کی کہانی ’’بوسیدہ روایات‘‘۔

907

افروز عنایت
اسد ابھی سہیل کے گھر کے دروازے پر دستک دینے ہی والا تھا کہ دروازے کا پٹ کھلا اور دو لڑکیاں گھر سے باہر نکلیں۔ ایک لڑکی کے چہرے پر اس کی نظر ٹک گئی۔ لڑکی نے اسد کو اس طرح گھورتے دیکھا تو جھٹ سے اپنے برقعے کا نقاب پلٹ دیا۔ اسد کوئی آوارہ لڑکا نہ تھا۔ نہایت شریف اعلیٰ خاندان کا چشم و چراغ تھا، لیکن لڑکی کی معصومیت اور خوبصورتی نے اس کے دل کو گھائل کردیا ۔ اس دن سے وہ لڑکی اور اُس کا معصوم سراپا اس کے دل و دماغ میں بس گیا۔ اسے اتنا تو یقین تھا کہ یہ سہیل کی بہن نہ تھی، لیکن اپنے دوست سے پوچھتے ہوئے حجاب محسوس کررہا تھا۔ آخر دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اُس نے سہیل سے اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھا۔ سہیل نے اُس کو بتایا کہ یہ دونوں لڑکیاں حاجی شرافت کی بیٹیاں ہیں، انہیں ہمارے گھر کے سوا کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں، میری بہن سے دوستی ہونے کی وجہ سے ہمارے یہاں کبھی کبھار آجاتی ہیں، ویسے بھی حاجی صاحب کے گھرانے کے ساتھ ہمارے گھرانے کے دوستانہ تعلقات ہیں۔ اسد اور سہیل کا یارانہ بچپن سے تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے جگری یار تھے، پھر تعلیمی میدان میں بھی ساتھ ساتھ رہے، اور اب دونوں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ سہیل کی منگنی اس کی کزن سے ہوچکی تھی، جبکہ اسد کے گھر والے بھی اس پر شادی کرنے کے لیے زور دے رہے تھے۔ چونکہ اسد نے رقیہ کو ایک ہی نظر دیکھ کر دل میں بسا لیا تھا، اس لیے اس نے بھی شادی کا ارادہ کرلیا۔ اسد نے گھر والوں سے پہلے سہیل سے مدد مانگی کہ وہ اپنی والدہ سے بات کرے۔
…………
سہیل کی والدہ: بیٹا یہ ناممکن ہے، ایسا نہیں ہوسکتا۔ حاجی صاحب نہیں مانیں گے ۔
سہیل: لیکن اماں اس میں حرج ہی کیا ہے! ہر لحاظ سے اسد ان سے زیادہ اعلیٰ حیثیت کا مالک ہے۔ یہ تو حاجی صاحب کے لیے خوش نصبی کی بات ہے کہ انہیں اسد کی صورت میں ایک لائق داماد نصیب ہوگا۔
سہیل کی والدہ! بیٹا بات یہ نہیں ہے… میرا مطلب ہے کہ وہ واقعی میں ایک بہترین رشتہ ہے، لیکن حاجی صاحب کے خاندان کی روایت ہے کہ بیٹی اپنے خاندان سے باہر نہیں دیتے۔ ان کے یہاں رشتے داروں کے یہاں بیٹی بسانے کا رواج ہے چاہے وہ اس کے قابل ہو یا نہ ہو۔ مجھے بھی رقیہ بہت پسند ہے، میں نے بھی اس بارے میں سوچا تھا لیکن…
سہیل: اماں! آپ خالہ (رقیہ کی والدہ) سے بات تو کرکے دیکھیں، وہ کیا کہتی ہیں۔
…………
رقیہ کی والدہ: آپ کو تو معلوم ہے یہ نا ممکن ہے، پھر حاجی صاحب کو پتا چلا کہ ان کی بیٹی کو ایک نظر دیکھ کر لڑکے نے پسند کیا ہے تو ایک قیامت برپا ہوجائے گی، ہمارے لیے بہت مشکل ہوجائے گی۔
سہیل کی والدہ! آپ حاجی صاحب کو قائل کریں کہ قاضی صاحب کی بیوی کے پاس دو تین بہترین رشتے ہیں، اگر ان میں سے کسی کو…
…………
حاجی صاحب: بیگم! آپ کو ہمارے خاندان کی روایات کا اچھی طرح علم ہے، آپ کو انہیں صاف منع کردینا چاہیے تھا۔
رقیہ کی والدہ: حاجی صاحب! یہ بھی تو دیکھیں اپنے رشتے داروں میں تو مجھے کوئی لڑکا نظر نہیں آرہا ہے۔ یا تو شادی شدہ ہیں یا ہماری رقیہ سے بہت چھوٹے ہیں۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو… میرا مطلب ہے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، ایک تو قاضی صاحب کے بیٹے کے دوست کا رشتہ ہے، بہت پڑھا لکھا اعلیٰ عہدے پر فائز، اور جاگیردار گھرانے کا ہے۔
حاجی صاحب کا بیوی کی بات سن کر ماتھا ٹھنکا، غصے سے کہا: آئندہ بچیاں قاضی صاحب کے گھر نہیں جائیں گی۔
حاجی صاحب نے ہاتھ پائوں مارے اور دور پرے کے رشتہ داروں میں ایک جگہ بیٹی کی بات پکی کردی، جبکہ لڑکا نہ صرف رقیہ سے بارہ تیرہ سال بڑا بلکہ مالی اعتبار سے بھی کچھ کم تھا۔
رقیہ بیاہ کر شوکت کے گھر آئی تو چند ہی روز میں اس گھرانے کی عادات اس پر آشکار ہوگئیں۔ ہر ایک جھگڑالو اور بد زبان تھا، ذرا ذرا سی بات پر گھر میں ہاتھا پائی تک شروع ہوجاتی۔ شوکت ان سب میں سب سے آگے تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف اس کی زبان بلکہ ہاتھ بھی رقیہ پر اُٹھنے لگا۔ رقیہ اس ماحول کی عادی نہ تھی، اپنے گھر کی نہایت لاڈلی اور ہردلعزیز بیٹی تھی۔ سونے پر سہاگہ نہ جانے کس طرح اس کے شوہر کے کانوں میں یہ بات پڑ گئی کہ رقیہ کے لیے رشتہ قاضی صاحب کے بیٹے کے کسی دوست کا بھی آیا تھا، وہ بڑا شکی قسم کا مرد تھا، اس نے رقیہ کا جینا حرام کردیا بلکہ اس سلسلے میں اس کے گھر والوں نے مزید آگ کو بھڑکایا۔ آخر شوکت نے نومولود بچی کی پروا بھی نہ کی اور طلاق کے کاغذات اور بچی کے ساتھ رقیہ کو اس کے والدین کے گھر بھیج دیا۔ رقیہ کے لیے یہ صدمہ برداشت سے باہر تھا۔ اس کے والدین کے لیے بھی یہ ایک بڑا سانحہ تھا۔ ان کے خاندان میں آج تک کسی کی طلاق نہیں ہوئی تھی۔ رقیہ کتنے عرصے اس کاری ضرب کی وجہ سے بیمار رہی، آخر اپنی بچی کی وجہ سے اس نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ یہ ایک ناکردہ گناہ کی سزا اسے سنا دی گئی تھی۔
کیونکہ طلاق کے ساتھ ساتھ چاروں طرف سے اس پر انگلیاں اُٹھ رہی تھیں۔ اس وقت یہ گھرانہ بڑی آزمائش کا شکار تھا۔ معاشرے میں یہ گھرانہ معزز اور عزت دار سمجھا جاتا تھا، اس واقعے نے ان کی عزت کو ملیامیٹ کردیا تھا۔ اسد کو جب تمام حقیقت معلوم ہوئی تو وہ اپنے آپ کو مجرم سمجھنے لگا کہ اس کی وجہ سے یہ خاندان پریشانیوں کا شکار ہوا ہے۔ ایک طرف بیٹی کی طلاق، دوسری طرف اُٹھنے والی انگلیاں… آخر بہت سوچ کر اس نے ایک حتمی فیصلہ کیا۔
سہیل: میرے خیال میں تو حاجی صاحب بالکل نہیں مانیں گے۔ دوسری طرف سوچو کیا تمہارے گھر والے راضی ہوجائیں گے؟ جب کہ تم نے بتایا تھا کہ وہ پہلے بھی بڑی مشکل سے راضی ہوئے تھے۔ اب تو وہ طلاق یافتہ اور ایک بچی کی ماں…
اسد: یار اب صرف میری محبت کی بات نہیں بلکہ اُس کی تمام زندگی… اور اُس کی تمام تکلیف کا باعث… میری ذات ہے، جس کی میں تلافی کرنا چاہتا ہوں۔
سہیل: ٹھیک ہے، میں پہلے ابا سے بات کرتا ہوں، وہ اس بارے میں کچھ کرسکتے ہیں، جب تک تم اپنے گھر والوں کو راضی کرو۔
…………
حاجی صاحب: تم میرے بہترین دوست ہو، میرے خاندان کی روایات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہو۔
قاضی صاحب: معاف کرنا دوست، تمہیں میری بات تلخ لگے گی مگر اس روایت کی بھینٹ بیٹی کو چڑھا چکے ہو۔ ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ اور ایک بچی کی ماں، سوچو اس کا مستقبل کیا ہوگا! تمہیں اللہ زندگی دے، کب تک بیٹی کا ساتھ دو گے؟ دینِ اسلام رشتوں کے بارے میں تقوے کو اہمیت دیتا ہے۔ بھابھی اور اپنے بھائیوں وغیرہ سے بھی مشورہ لو پھر مجھے جواب دینا۔
…………
حاجی صاحب کے بھائی: بھائی جان! میرے خیال میں تو اس رشتے میں کوئی خامی نہیں ہے۔ ہم سب آپ کو خاندان کا بڑا سمجھتے ہیں، ادب کرتے ہیں، ہم نے کبھی آپ کی مخالفت نہیں کی۔ یہ صرف رقیہ بیٹی کا معاملہ نہیں، خاندان میں اور بھی بہت سی بچیاں ہیں، اگر ہم اس طرح اپنی روایات پر قائم رہیں گے تو یہ بچیاں زندہ درگور ہوجائیں گی۔ قاضی صاحب کی بات مان لیجیے، اسی میں ہم سب کے لیے بہتری ہوگی۔
رقیہ کی ماں جو بیٹی کی بربادی پر کھل کر رو بھی نہ سکی تھی، اس نے بھی حاجی صاحب کی منت سماجت کی۔ آخر حاجی صاحب اس رشتے کے لیے راضی ہوگئے ۔
رقیہ کی زندگی میں اللہ نے دوبارہ خوشیاں بھر دیں۔ نہ صرف اسے ایک مضبوط سائبان مل گیا بلکہ اس کی بیٹی کو باپ کی شفقت بھی مل گئی… اور سب سے بڑی بات، اس الم ناک واقعہ کے بعد اس کے خاندان کی یہ پرانی روایت ختم ہوگئی، جس کی بھینٹ کئی بچیاں اور بچے چڑھ چکے تھے۔

حصہ