زبان اور لطفِ زبان

756

ہر وہ فرد جو زبان و بیان کی نزاکتوں کا فہم رکھتا ہے وہ نہ صرف اس کی رعایتوں سے استفادہ کرتا ہے بلکہ اس کی طلسماتیت اور سحر انگیزیت کا سہارا لے کر قاری یا سامع کو مسحور کرکے رکھ دیتا ہے۔
زبان کیا ہے، لطفِ زبان کسے کہتے ہیں، الفاظ کیا ہیں اور لفظوں کی بازی گری کس کو کہا جاتا ہے، یہی وہ اوصافِ کلام و بیان ہیں جن کا سہارا لے کر ایک لکھاری یا خطیب اپنے سامع اور قاری کے من میں اپنے لیے کشش پیدا کرتا ہے یا جگہ بنا لیتا ہے۔
الفاظ بھی بڑے قاتل ہوتے ہیں، مارتے بھی ہیں اور مرنے بھی نہیں دیتے۔ کبھی تیر و تبر بن کر قلب و جگر چھلنی کرکے رکھ دیتے ہیں، تو کبھی ڈاکٹر کا نشتر بن کر علاجِ آبلہ پائی اور جراحیٔ قلب و جگر کرنے لگتے ہیں۔ یہ الفاظ ہی تو ہوتے ہیں جو جھلسے ہوئے کھلیانوں میں چاندنی بوتے ہیں، اور یوں بھی ہوتا ہے کہ ہنستی بستی بستیوں کو آن کی آن میں خس و خاشاک کی مانند پھونک کر رکھ دیتے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

الحذر الحذر اے غلامانِ زر
میں نے دیکھا ہے اک خواب وحشت اثر
کچھ شکستہ مکانوں سے شعلے اٹھے
اور پھر شہر کا شہر جلنے لگا
الفاظ کیا ہیں، مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

مثلاً کہنا یہ ہو کہ یہ ’’آپ کا واہمہ ہے‘‘ تو کہتے ہیں ’’آپ کو خوش فہمی ہوئی‘‘۔ فرق صرف یہ ہے کہ سراب پیاسے کے لیے پیام مرگ ہے، جب کہ لفظوں کی یہ بازی گری کسی کی عزت و توقیر میں بالکل اسی طرح کی چمک دمک پیدا کردیتی ہے جیسے قلعی گر پیتل اور تانبے کے ظروف کی حیثیت بدل کر رکھ دیتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ ہم اس قسم کے انداز گفتگو کو تہذیب و شائستگی کا جزوِ لاینفک قرار دینے پر مجبور ہیں کہ ہم اسی معاشرے کا حصہ بھی تو ہیں۔
ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ ’’یہ مت دیکھو کہ کہنے والا کون ہے، یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے‘‘۔ بڑوں کی اس بات میں واقعی بہت بڑا پن ہے۔ ایک صاحب کے اس جملے پر ذرا غور فرمائیں جو انھوں نے اپنے گھر دعوت کے موقع پر ارشاد فرمایاکہ ’’آپ کھائیں، ہم تو کھاتے ہی رہتے ہیں‘‘۔ ہے ناں بڑوں کی باتوں میں بڑا پن، ورنہ مشکل ہوجائے اس بات کی جانچ کہ کہنے والے کی بات اہم ہے یا کہنے والا۔
اردو بہت ہی زبان دوست ہے، یہ نہ صرف دنیا کی ہر زبان کو اپنا لینے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے بلکہ بعض الفاظ کو تو اس طرح ضم کرلیتی ہے کہ ان کے اصل معنی و مفہوم ہی وہ نہیں رہ پاتے جس زبان کے وہ الفاظ ہوتے ہیں۔ مثلاً کاپی انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کا اردو ترجمہ ہے ’’نقل‘‘، مگر عرفِ عام میں ہمارے ہاں اس لفظ کو انگریزی کے ایک اور لفظ ’’نوٹ بک‘‘ کے بطور استعمال کیا جاتا ہے۔ کاپیز کو کاپیاں کہنا، بلڈنگز کو بلڈنگیں کہنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے پتنگیں کہنا، پھلجھڑیاں کہنا وغیرہ۔
کہتے ہیں ’’الفاظ بولتے ہیں‘‘۔ جس نے بھی کہا ہے سچ ہی کہا ہے۔ ویسے تو یہ بات ہے بہت عجیب سی کہ کسی تحریر کو کہا جائے کہ وہ بولتی ہے، لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ بات تحقیق شدہ ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے آنکھیں بولتی ہیں، چہرہ بولتا ہے، بکھرے ہوئے بال کوئی کہانی سنا رہے ہوتے ہیں، آنکھوں میں تیرتے ڈورے سرگوشی کررہے ہوتے ہیں، اور دریدہ دامنی، پاؤں کے آبلے، چہرے کا پسینہ، جھکی ہوئی گردن، کانپتی ہوئی ٹانگیں، لرزتے ہوئے ہونٹ، اجڑی ہوئی رنگت اور کنپٹی میں دھڑکتا ہوا دل کچھ نہ کچھ سنا رہا ہوتا ہے، کہہ رہا ہوتا ہے۔ جہاں تک فریاد و فغاں کا مسئلہ ہے وہ کائنات کے ایک ایک ذرے سے بلند ہورہی ہے۔ ہر گزرنے والا لمحہ، ہر گردش کرنے والی شے، شجر، حجر اور ذی روح فریاد بلند کرتے نظر آرہے ہیں۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ سامع یا قاری کون ہے۔ دنیا میں لاکھوں سننے والے ہیں اور لاکھوں پڑھنے والے… مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہمیں نہ پڑھاؤ، ہمیں مت سناؤ، ہم نے جان لیا، ہم نے مان لیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں لفظوں کی زبان، پڑھ لیتے ہیں چہروں کی تحریر، جن کی نگاہیں بھانپ لیتی ہیں رنگوں کے اس تغیر کو جو کروٹیں لے رہا ہوتا ہے کسی کی ایک ایک ادا میں۔ یہاں تک کہ وہ سن لیتے ہیں

دلوں کی دھڑکنیں تک، اور دعاگو رہتے ہیں ؎
جو دل میں اٹھتی ہوئی ٹیس کو بھی جان سکے
خدا ہمارے ہمیں وہ سماعتیں دے دے
کاش یہ تمنا خواب کی تعبیر کو بھی شرما کر رکھ دے۔
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا جو میری شامت آئی
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے

 

یہ غالب کا ایک مشہور شعر ہے۔ غور کیجیے ’’شامت‘‘ آنا اور ’’پاسباں کے قدم‘‘ لینے کو کس طرح مربوط کیا ہے۔ اس طرح ایک دوسرے شعر میں غالب کہتے ہیں ؎

کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
بس اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

اب دیکھیں واعظ و غالب کے نکلنے اور جانے کی رعایت سے کس طرح لطف پیدا کیا گیا ہے، اور بات کو کس درجہ شوخ، پُرمغز، لطیف و حساس بنادیا گیا ہے۔
لفظوں کی جادوگری کیا شے ہے؟ اس کا ادراک بہت مشکل ہے۔ روتوں کو ہنسا دینا اور ہنستوں کو رلا دینا والی بات تو بہت پرانی ہے، میں آپ کو آنکھوں دیکھی بناتا ہوں کہ میں نے بھاگتے ہوئے لوگوں کو نہ صرف پلٹ کر آتے دیکھا بلکہ وہ جلسہ گاہ میں اس طرح جم کر بیٹھ گئے جیسے انسان نہ ہوں پتھر کے بت ہوں، یا پھر درختوں کے سوکھے تنے۔ واقعہ یہ ہے کہ جلسہ شورش کاشمیری کا تھا۔ جونہی وہ تقریر کرنے کھڑے ہوئے ہنگامہ ہوگیا، کرسیاں چلیں، لاٹھیاں چلیں، سنگ باری ہوئی۔ ایسے میں کہاں رکتے ہیں لوگوں کے قدم! بدقسمتی سے ایک پتھر ہوا میں اڑتا ہوا آیا اور شورش کاشمیری کی پیشانی کو عالمِ وارفتگی میں کچھ یوں بوسہ دیا کہ خون کی ایک دھار پورے چہرے کو لہولہان کرگئی۔ کئی افراد ان کی جانب لپکے کہ ان کو روکیں، مگر وہ پہلے سے بھی زیادہ پھرتی کے ساتھ مائیک کی جانب بڑھے اور حاضرینِ جلسہ سے کچھ یوں مخاطب ہوئے:
’’لوگ (بائیں ہاتھ کی آستین سے چہرے پر پھیلے ہوئے خون کو صاف کرتے ہوئے) یہ سمجھتے ہیں کہ میں تقریر رٹ کر آتا ہوں… سنو اے ہنگامہ کرنے والو! میں تقریر رٹ کر نہیں آتا بلکہ جب میں تقریر کرنے کھڑا ہوتا ہوں تو الفاظ میرے سامنے صف باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور میں جس کو حکم دیتا ہوں وہ غلاموں کی طرح حاضر ہوجاتا ہے۔‘‘
پلٹ آئیے اس ماحول کی جانب، بن جائیے اس ماحول کا حصہ، بہتا ہوا خون آستین سے پونچھا جارہا ہو، ایک بپھرا ہوا اجتماع ہو، زخم خوردہ مقرر بار بار خون پونچھ رہا ہو اور اس پر لفظوں کا یہ طلسم؟ آگ کیونکر نہ سرد ہوتی، پاؤں کیونکر نہ جم جاتے، جسم کس لیے نہ پتھر ہوجاتے، اور حاضرین پر سوکھے ہوئے درختوں کے تنوں کا گمان کیونکر نہ ہوتا؟
بساط بساط ہی ہوتی ہے اور مہرے مہرے ہی ہوتے ہیں۔ اس پر میں بھی کھیلتا ہوں اور کھلاڑی بھی۔ وہی وکٹ ہوتی ہے لیکن ہر کھلاڑی اور ہر ٹیم کا انداز جدا جدا ہوتا ہے۔ بات صرف بساط، مہروں، میدان، وکٹ اور ٹیم کی نہیں ہوتی۔ بات ہوتی ہے وقت، حالات، موسم اور مدمقابل کی صلاحیتوں کو سمجھ کر بروقت چال چلنے کی۔ میدان ادب کا ہو یا دشمن سے زور آزمائی کا، اصولِ حرب و ضرب نہیں بدلا کرتے۔ شعر ہو یا تحریر، متقاضی ہوتی ہے اس امر کی کہ اسے ماحول کے کس سانچے میں ڈھالا جارہا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کی نظم کے ان بندوں کی اٹھان دیکھیے اور تصور کی پرواز کا سہارا لے کر پہنچیے 1965ء کی جنگ کے ماحول میں۔

چاند اس رات بھی نکلا تھا مگر اس کا وجود
اتنا خوں رنگ تھا جیسے کسی معصوم کی لاش
تارے اس رات بھی نکلے تھے مگر اس ڈھب سے
جیسے کٹ جائے کوئی جسمِ حسیں قاش بہ قاش
اتنی بے چین تھی پھولوں کی پھبن گلشن میں
جیسے ماں جس کو کھوئے ہوئے بچے کی تلاش
آخری بار اندھیروں کے پجاری سن لیں
میں سحر ہوں میں اجالا ہوں، حقیقت ہوں میں
میں محبت کا تو دیتا ہوں محبت سے جواب
لیکن اعدا کے لیے قہر و قیامت ہوں میں
میرا دشمن مجھے للکار کے جائے گا کہاں
خاک کا قہر ہوں افلاک کی دہشت ہوں میں

اب یہ بات بہت عام ہوتی جا رہی ہے کہ ہر غلط لفظ، تلفظ اور بات کو غلط العام اور فصیح کا سہارا لے کر مروج کرلیا جاتا ہے۔ درست ہے کہ اگر کوئی غلطی عام ہوہی جائے تو اسے اپنانے کے سوا چارہ بھی کوئی نہیں رہتا، لیکن ایک غلطی کا عام ہوجانا ایک الگ مسئلہ ہے اور اس کو فصیح مان لینا دوسرا مسئلہ۔ غلطی زبان و ادب میں اُس وقت فصیح سمجھی جاتی ہے جب اس کو اس زبان کے شعرا، ادبا اور دانشور غلط العام مانتے ہوئے اپنی تحریروں کو اس سے مزین کرنے لگتے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اب ہر شے مادر پدر آزاد ہوتی چلی جا رہی ہے۔ لہٰذا اب یہ عیب کی کوئی بات نہیں کہ ہم کچھ یوں بھی لکھنا شروع کردیں کہ ہم فلاں شے ’’تلاش رہے‘‘ ہیں، یا ہمیں ’’پانیوں‘‘ کی کھوج ہے وغیرہ وغیرہ۔

حصہ