میرے تایا ابو امین صادق

602

عمر فاروق اللہ والا
میرے تایا ابو امین صادق صاحب ایک انتہائی شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ ان کا اظہارِ محبت مختلف اور انوکھے انداز میں ہوتا تھا جو عام طور پر لوگوں میں نظر آتا ہے۔ ہر ملاقات میں نصیحتوں کا ایک پہاڑ جو میں اپنے ساتھ لے کر جاتا تھا۔ آج بھی میرے ذہن میں دوڑتے ہیں۔ تایا ابو کی شخصیت کو بیان کرنے کی بات کی جائے تو میرا خیال ہے ایسی بہت سی شخصیات ہیں کہ جنہوں نے ان کے ساتھ بہت طویل وقت گزارا ہے۔ لیکن ان کی شخصیت کے اندر میں نے ایک قلندر مزاجی کو پایا۔ ان کی بادشاہوں والی ادائیں، انداز گفتگو اور شہنشاہوں والی مہمان نوازی کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ تایا ابو ایک اعلیٰ ظرف رکھنے والے انسان تھے۔
مہمان چاہے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو اس کی وابستگی خواہ کسی بھی طبقے سے ہو اپنی مہمان نوازی سے ایسا ظاہر کرواتے تھے کہ وہ ان سے قربت رکھتے ہیں اور اسے اہمیت حاصل ہے۔ اپنی خوش اخلاقی کے ذریعے سامنے والے شخص کے دل میں جگہ بنا لینا ان کے لیے کوئی بڑی بات نہ تھی۔
وہ ایسی سیرت کے مالک تھے کہ ایک شخص اگر ان کے ساتھ ایک نشست بھی کرلے گویا یہ محسوس کرتا تھا کہ امین صادق صاحب سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور میں ان کے سب سے زیادہ قریب ہوں۔ یہی خوش اخلاقی تھی کہ آج بھی ان کے چاہنے والے پوری دنیا کے اندر موجود ہیں کہ جن کے دل روتے ہیں کہ امین صادق ہمارے درمیان نہ رہے۔
اس قلندر مزاجی کے ساتھ ساتھ عاجزی و انکساری کا یہ حال تھا کہ گھر آنے والے ہر شخص سے جھک کر ملنا، کم عمر لوگوں سے بھی اس انداز میں ہم کلام ہوتے کہ ان کے دلوں میں جگہ بنا لیتے۔
ان کی شخصیت کی انوکھی چیز جو میں نے ان کے اندر پائی کہ کبھی انہیں پریشان نہیں دیکھا۔ ایسا کوئی لمحہ نہ تھا کہ جب ان کی پیشانی پر بل آیا ہو۔ اپنی پریشانی کو چھپا لینا ان کی شخصیت میں نایاب چیز پائی۔ اس حد تک کہ اپنی بیماری کو بھی ایسے چھپایا کہ اپنے گھر والے بھی پہچان نہ پاتے تھے کہ وہ کس کیفیت سے گزر رہے ہیں۔
ہمیشہ بچوں کو یہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ اگر قرآن کو سمجھنا ہے تو اقبال کو سمجھ لو۔ علامہ اقبالؒ کی شخصیت سے بہت سے متاثر تھے اور ہمیشہ انہیں پڑھنے کی نصیحت کی۔
وہ ایک اردو ذوق رکھنے والے شخص تھے اور ان کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ اپنے بچوں کے اندر بھی اسی اردو ادب کے شوق کو پائیں۔ یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ علامہ اقبالؒ، ماہر القادری اور مولانا مودودیؒ جیسی شخصیات کی تلقین کیا کرتے تھے۔
وہ ایک وسیع قلب کے مالک تھے، بڑے بڑے طوفانوں کو اپنے اندر سمولیا کرتے اور سامنے والے کو محسوس بھی نہ ہونے دیتے تھے کہ وہ کس کیفیت سے لڑ رہے تھے۔
قائدانہ صلاحیتیں اس حد تک تھیں کہ اپنے بہن بھائیوں میں چھٹے نمبر پر ہونے کے باوجود پورے وسیع خاندان کے باپ کی حیثیت رکھتے تھے اور اپنے خاندان کو جوڑ کر رکھنا اور ہر ہر معاملے میں اپنا پورا حصہ ڈالنا ان کی ایک بہت بڑی خوبی تھی۔ خاندان کے اندر شادی بیاہ جیسے بڑے معاملات سے لے کر چھوٹے چھوٹے معاملات بھی ان کے مشورے کے بغیر نہیں ہوتے تھے۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ عظیم قائدانہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ چاہے کسی بھی حال میں ہوں صفائی ستھرائی کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ ہمیشہ صاف ستھرے لباس اور پرسکون ماحول کو پسند کرتے تھے۔ اور اس معاملے میں ذرا بھی کمی کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ خواہ کتنی ہی مشکلات کیوں نہ ہوں۔
سکندری مزاج کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی میں سادگی بھی شامل تھی۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سفید رنگ کو پسند کیا کرتے تھے۔
امین صادق کی شخصیت کو بیان کرنے بیٹھا جائے تو یہ قلم رکھتا نہیں اور ذہن میں ان کی ہر بات گونجتی ہے مگر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ آج تایا ابو اس خاندان کو یتیم چھوڑ کر ہزاروں دلوں کے اندر اپنی یادیں چھوڑ کر ہم سے جدا ہو چکے ہیں۔ وہ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ وہ اگر سڑک پر کوئی پتھر پڑا ہو تو وہاں سے بہت لوگ گزرتے ہیں مگر ان لوگوں میں کامیاب وہ ہے جو اس پتھر کو ہٹائے اور لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لے۔ اب اس پتھر کو ہٹانے کے لیے اسے رکنا پڑے گا اس میں اس کا وقت لگے گا۔ اور اس کی صلاحیت استعمال ہوگی مگر وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہ جائے گا۔ جیسے امین صادق آج لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں ۔
اب تایا ابو تو ہمارے درمیان نہ رہے مگر ان کی یہ سوچ اور ان کا یہ نظریہ کہ جس کی وجہ سے وہ اتنے قیمتی بنے اس سوچ کو امین صادق کی آل اور ان کی شجر سے تعلق رکھنے والا خون اور ہر ذہن جب تک آزاد خاندان کا نام زندہ ہے اس سوچ اور نظریہ کو بھی زندہ و جاوید رکھے گا۔ اور آل امین صادق کے ہر ہر عمل سے اس سوچ کا اظہار ہوگا اور انشاء اللہ جس تحریک سے وہ وابستہ رہے اس تحریک کے اندر ان کا خون اور ان کی سوچ ہمیشہ قائم رہے گی۔ انشاء اللہ۔
لوگ تو روز مرتے ہیں مگر کچھ لوگ اپنے خاندانوں کے لیے اور اپنے ملک و قوم کے لیے اثاثہ ہوتے ہیں ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس عظیم شخص کی عزیمت سے ہم لوگ فیض یاب نہ ہوسکے۔ اور وہ ہم سے بچھڑ گئے۔
وہ ہمیشہ ایک شعر ہمیں سنایا کرتے تھے کہ ؎

جس دن کتابِ عشق کی تکمیل ہوگی
رکھ دیں گے زندگی تیرا بستا اتار کر

اس عشق نبویؐ، عشق قوم و ملت اور اپنے خاندان سے عشق کو نبھانے میں ہی انہوں نے پوری زندگی گزار دی اور آج وہ محبت کرنے والا شخص ہم سے رخصت ہوچکا ہے۔
میں بس آزاد خاندان کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ جس پیغام کو لے کر تایا ابو نے اپنی زندگی گزاری ، اسی راستے میں اس خاندان کا خون پسینہ اس وقت تک لگتا رہے گا جب تک وہ ہم وہ کامیابی حاصل نہ کرلیں جو امین صادق چاہتے تھے۔ ان کی کامیابی کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ خود تو اپنے راستے پر کامیاب ہوگئے ہیں، اب امتحان ہے کہ ہم اپنے آپ کو اسی سانچے میں ڈھالیں کہ جیسا وہ ہمیں دیکھنا چاہتے تھے۔
دعا ہے اللہ رب العالمین سے کہ وہ ہمیں اس عظیم عہد کو وفا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حصہ