میرے والد مصباح الغنی

332

منذر قیوم
مصبا ح الغنی والد محترم کا یو پی ، ضلع بلند شہر کے قصبے ڈبائی سے تعلق تھا۔ دادا عبدالقیوم کیوں کہ وکیل تھے اس لیے پریکٹس کی غرض سے ڈبایی سے انوپ شہر سیٹل ہوگئے تھے والد صا حب کی پیدائش انوپ شہر ، انڈیا ۱۹۳۷۔۰۸۔۲۵، تایا ڈاکٹر اکرام الغنی اور والد صاحب مصباح الغنی نے قائدہ او ر قرآن کی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ تایا ڈاکٹر اکرام الغنی اور والد صاحب نے ابتدائی تعلیم گھرپر ہی حاصل کی۔ والد صا حب نے اسکول انوپ شہر میں (ایل ڈی اے وی) میں حاصل کی۔ انوپ شہر میں ہی محلہ دربار میں جو مسجد تھی عموماً تایا ڈاکٹر اکرام الغنی یا والد صا حب ہی آذان دے دیا کرتے تھے۔ تایاڈاکٹر اکرم الغنی اور والد صاحب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حا صل کی۔ تایا نے سول انجینئرنگ میں سول یونیورسٹی میں ٹاپ کیا ، ا سلئے پی ڈبلیو ڈی نے انکو جاب کی آفر کی اور وہ وہاں ملازم ہوگئے۔ والد صا حب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے آنرز ، ایم اے اور ایل ایل بی کیا۔ والد صا حب ابھی بی اے آنرز میں ہی تھے کہ دادا جان کا انتقال ہوگیا۔ دا دا کے انتقال کے بعد ہمارے تا یا ڈاکٹر اکرام الغنی نے باپ کا سایہ بن کر گھر کی کفالت کی ۔ تایا حیات ہیں ، اللہ تعالی انکا سایہ ہمارے اوپر قایم رکھے ۔ آمین۔ دادا کے انتقال کے بعد والدصا حب نے اپنی بقیہ تعلیم مکمل کی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے آنرز اور ایم اے کیا اور پھر ایل ایل بی کیا۔ دادا جان کو جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ تھی وہاں دادا جان شام کے وقت عصر تا مغرب بچوں کے درمیان مختلف کھیلوں کے مقابلے کراتے ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں والد صا حب بتاتے ہیں کہ بہت ڈسپلین نظام تھا یونیفارم کالی شیروانی او ر سفید پاجامہ، کھانا، نماز اور کھیل سب وقت پر ہوتا تھا۔ یونیورسٹی میں پڑھائی کے علاوہ غیر تدریسی سرگرمیوں میں شعر و شاعری، بیت بازی اور کھیل میں بیڈ منٹن ، ہاکی اور فٹبال کھیلی جاتی تھی اور نمازوں کی بھی رپورٹ لی جاتی تھی۔ والد صا حب یونیورسٹی میں اخبار کا بھی باقاعدگی سے مطالعہ بھی فرماتے ، علی گڑھ کی نمائش میں بھی دلچسپی کے ساتھ شرکت فرماتے۔ والدصاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ناظم صلاۃ بھی تھے۔ رہائش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہی ممتاز ہوسٹل میں تھی۔ ایم اے فائنل میں اسٹوڈنٹس کی طرف سے سیکریٹری بھی مقرر ہوئے۔
ہمارا ددھیال ۱۹۶۴ میں انڈیا سے پاکستان آگیا تھا اور لاہور سیٹل ہوگیا۔
پاکستان آ کر تایا اعلی تعلیم کیلیے ببرمنھگھم چلے گئے اور وہاں سے سول انجینیرنگ (ہایی وے روڈز) میں پی ایچ ڈی کیا اور پھر یہا ں لاہور انجینئرنگ یونیورسٹی (یو ای ٹی) میں تدریسی فرایض انجام دیے ۔ والد صا حب نے بھی یہاں جاب شروع کی۔ لاہو ر آکر (یو ای ٹی) میں ہی اسٹاف کالونی میں مقیم ہوئے (یو ای ٹی) اسٹاف کالونی میں بڑا اچھا ماحول تھا، لوگ پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ دین دار بھی تھے۔ مسجد کیلئے پہلے ایک صا حب نے اپنا ڈرائنگ روم استعمال کیا پھر بعد میں کچھ افراد نے چند ہ وغیرہ کر کے ایک جامع مسجد قائم کر لی تھی۔
۱۹۶۷ میں والد صا حب کی شادی ہوئی۔ ۱۹۷۲ میں والد صا حب فیملی کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میر ا اسکول میں ایڈمیشن ناظم آباد میں ہوا۔
ناظم آباد میں خریدے گئے مکان میں والد صا حب نے میرے اور میر ی چھوٹی بہن کے لئے قائدہ اور قرآن پڑھانے کیلئے قاری صا حب لگائے جو سائیکل پر ہمیں پڑھانے کیلئے آتے تھے۔ بڑی شفقت اور محبت کے ساتھ ہمیں پڑھایا ان کی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے ہم پر کبھی سختی نہیں کی اور ہمیشہ پیار و محبت سے پڑھایا۔ ۳ سال کراچی میں رہنے کے بعد ۱۹۷۵ میں والد صا حب کا والد صا حب نے پوری فیملی کو جدہ بلا لیا۔
سعودی عرب جدہ میں رہتے ہوے والد صاحب اور والدہ نے بڑی مہمان نوازی کی ہم لوگ تقریبا ۱۵ سال کے قریب جدہ میں مقیم رہے اس دوران ابوجی اپنے دفتر کے کام کے ساتھ ساتھ حج اور عمرے کیلیے آنے والے مہمانوں کو جو انڈ یا پاکستان اور دوسری جگیہوں سے تشریف لا تے تھے رشتے دار اور ابو جی کے دوست احباب ان کو اپنی خوشی سے اپنے گھر ٹھیراتے۔ انکی خدمت کرتے اور امی بھی اپنی خوشی سے ان کی مہما ن نوازی کرتیں۔ ابو جی انکو عمرہ کرانے بھی لے جاتے۔ ابوجی نے جدہ میں رہتے ہو ئے اپنی خوشی کے ساتھ ہر سال حج کی سعادت بھی حاصل کی وہ بھی اپنے چھ بچوں کے ساتھ پانچ بیٹے اور ایک بیٹی۔ اور ہر دفعہ حج پر کوئی نہ کوئی مہمان اور اسکی کی فیملی ضرور ساتھ ہوتی ۔ اور ابوجی بخوشی و رضا یہ خدمت اپنی سعادت سمجھتے تھے۔ سب سے پہلا جو حج اد ا کیا اس میں ابوجی نے اپنی والدہ محترمہ (ہماری دادی امی) کو بھی حج کر ا یا۔ سعودی عرب جدہ سے عموما گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمارا کراچی آنا ہوتا ۔ والد اور والدہ صاحبہ ہم بچوں کو بھی تمام ہی رشتہ داروں کے گھر ملوانے لے جاتے ۔ جسکی وجہ سے ہم اب بھی ان سے واقف ہیں۔
جدہ میں ہم اپنے اسکول سے قریب رہنے کی وجہ سے دو مختلف محلوں میں رہائش پذیر رہے ۔ ایک حی الصحیفہ۷ سال ، جو باب مکہ کے قریب ہے اور جب اسکول دوسرے محلہ حی العزیزیہ میں شفٹ ہوا تو اس محلہ میں بھی ۸ سال رہے اور دونوں مکا ن ابو جی نے یہی کوشش کی کہ مسجد کے قریب ہوں۔ ابوجی علما کرام کا بہت احترام کرتے ۔ مولانا سید ابولحسن علی ندوی (علی میاں) جو کہ انڈیا میں ندوہ العلما کے مہتمم تھے۔ انکا سعودی عرب بھی آنا ہوتا اور مختلف جگہوں پر اصلاحی خطبات ہوتے ۔ ابوجی نے ہی ہم سے انکا تعارف کیا اور ان سے شرف ملاقات بھی کروای اور انکی خدمت میں بھی حاضر رہے ۔ اسی طرح دیگر علما کرام کا بھی احترام کرتے۔ والد صاحب دادا دادی کی تربیت کی وجہ سے شروع سے ہی پانچ وقت کے نماز ی تھے اور اپنے بچوں کو بھی یہی سبق دیا۔ قرآن ختم کرنے پر ہم سب کی آمین بھی کرائی۔ ہم سب کی روزہ کشائی بھی کی اور رغبت اور شوق پیدا کرنے کیلیے روزے کے فضایل بھی بتاتے ۔ہم بہن بھایوں کی تعلیم جدہ میں پاکستانی اسکول جدۃ کی ہے ۔ ابوجی باوجود اپنے آفس کی مصروفیت کے ، وقت نکالتے اور ہمیں پڑھاتے سارے مضامین خود پڑھاتے خاص طور پر حساب اور انگلش اور سا ینس کے مضامین امی پڑہاتیں ، امتحان کی پوری تیاری کراتے ۔ ہمارے اسکول کے اساتذہ سے والد صاحب وقتا فوقتا ہم بچوں کی کارکردگی بھی پوچھتے رہتے ۔ اسکول میں اچھے نمبر لانے پر خوشی کا اظہار بھی کرتے اور شاباشی بھی دیتے ہماری حوصلہ افزایی کیلے انعامات سے بھی نوازتے۔ کبھی کبھی ہم بچوں کو صحت افزا اور تفریحی مقامت پر بھی لے جاتے اور خود بھی محظوظ ہوتے ۔ کیونکہ ہم جدہ میں مقیم تھے ۔ والد صاحب ہمیں عمرے کی ادایگی کیلے ہر ہفتے مکہ بھی لے جاتے تھے۔ اور مدینہ منورہ بھی اکثر زیارت فرماتے تھے۔ (اللہ انیہں اسکا اجر دیتا رہے۔۔۔ آمین)۔ الحمد للہ عشرہ اعتکاف میں بھی حرمین شریفین میں ہم بچوں کے ساتھ اعتکاف فرمایا۔ اکثر عید کی نماز بچوں کے ساتھ کبھی حرم مکی میں ، کبھی مسجد نبویﷺ میں ادا فرماتے ۔ سوگوار میں انہوں نے ۵ بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑیں۔ جن میں سے تین رکن جماعت ہیں۔ اور مختلف ذمہ داریوں پر فایز ہیں۔ وقتا فوقتا اپنے پوتے، پوتیوں او ر نواسی، نواسوں کو بھی انکی دینی اور دنیاوی رہنمایی کیلیے مشورے اور نصیحتیں فرماتے رہتے۔
اپنی کمزوری اور بیما ری کے باوجود آخری فجر کی نماز بھی جماعت کے ساتھ مسجد ہی میں ادا کی ۔ ۱۴ نومبر، ۲۰۱۷ کو علاج کی غرض سے کراچی کے ایک مقامی ہسپتال میں داخل ہوئے۔ ۱۱ دن ہسپتال میں علیل رہے، پھر مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دو کی۔ ۲۵ نومبر، ۲۰۱۷ کی صبح اللہ میاں کے پاس چلے گئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالی انکی کامل مغفرت فرمائے ، انکی قبر کو نور سے منور فرمائے، جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے ۔ آمین۔

حصہ