کیوں دیر گئے گھر آئے ہو

345

رمانہ عمر
دوسری اور آخری قسط
’’معیز بیٹے ہم نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے کہ آج کل کے حالات میں بہو، پوتیوں کی ذمے داری لینا ہمارے بس کا کام نہیں ہے، تمہیں تو پتا ہے کہ ہماری گلی سے موٹر سائیکلیں چھنتی ہیں، آئے دن کی ہڑتالیں ہوتی ہیں، اب عارفہ اکیلی ان لڑکیوں کے اسکول کالج کا حساب کتاب کیسے دیکھے گی! تمہارے بھائیوں کی بھی یہی رائے ہے۔‘‘
معیز نے سر پکڑ لیا۔ کچھ روز تک دونوں ہی سکتے کی کیفیت میں رہے۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔
کسی کو یہ خیال تک نہ آیا کہ ان بھائیوں کا کالج، یونیورسٹی کا خرچ معیز ہی نے اٹھایا، نہ کسی نے یہ سوچا کہ بہنوں کے جہیز کی نمائش معیز کے پیسوں سے ہوئی، یہاں تک کہ اس بات کا بھی دھیان نہ آیا کہ اس گھر کی بنیادوں میں اسی کے خون پسینے کی کمائی موجود ہے جس کے دروازے اس کی بیوی اور بیٹیوں پر بند کیے گئے ہیں، اسے ٹکا سا جواب نہیں تو اور کیا کہتے ہیں!
جب کراچی سے جدہ کی پہلی اڑان لی تھی تب معیز نے کب سوچا تھا کہ اب وہ چٹے سر اور سفید داڑھی کے ساتھ ہی واپس پلٹے گا۔ وہ تو زیادہ سے زیادہ پانچ یا دس برس کا سوچ کر نکلا تھا، مگر کیا کہیے کہ زندگی کی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی پہلے سے تھوڑا ہی بتاتی ہے کہ کہاں اگلا موڑ آنا ہے۔ وہ تو بس آپ ہی مڑتی چلی جاتی ہے اور اس کے پیچھے پیچھے ہم بھی مڑتے رہتے ہیں۔ اپنی مرضی سے موڑ لینے کا اختیار باقی ہی نہیں رہتا۔ راستہ خودبخود اسی سمت لے جاتا ہے جو سمت مالکِ تقدیر نے لکھ دی ہوتی ہے۔
چلو جو ہوا سو ہوا، مگر دونوں میاں بیوی نے تعلقات میں رتی برابر فرق محسوس نہ ہونے دیا۔ ہر دو سال پر چکر لگتا، تحائف کا انبار اور فرمائشی پروگرام بھی چلتے رہے، مگر جب والدین کی آنکھیں بند ہوئیں تو پھر معیز کا جی اچاٹ ہوگیا۔ عارفہ کے سب عزیز دوسرے ملکوں میں بس چکے تھے، اب کراچی جائیں تو کس کے لیے؟ پھر بھی وہ ملک سے ناتا قائم رکھنا چاہتا تھا، سو اس نے جمع کی ہوئی کچھ رقم اپنے بھائی کے ساتھ مشترکہ کاروبار میں لگا دی۔ چھوٹا موٹا فلیٹ بھی قسطوں پر لیا، مگر وقت نے ثابت کیا کہ پیسے لگائے نہیں بلکہ پھنسائے تھے۔ اب کراچی کے چکر بیوی اور بیٹیوں کے بغیر ہی لگتے۔ ویک اینڈ میں ایک چھٹی ملا کر چلا جاتا اور لٹکا ہوا منہ لے کر واپس آتا۔ عارفہ نے صلاح دی کہ آپ ان پیسوں کو بھول ہی جایئے، اللہ پر بھروسہ رکھیے، ہمیں آپ کی صحت زیادہ عزیز ہے۔ بیٹیوں کی عزت سے شادیاں ہوجائیں، اس سے بڑھ کر ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔ قصہ مختصر یہ کہ منافع تو درکنار اصل رقم سے بھی ہاتھ دھونا پڑا اور فلیٹ پر قبضہ ملنے سے قبل ہی قبضہ ہوگیا۔ کون روز روز نوٹس بھجوائے اور دھمکیاں دے کر خالی کروائے؟ سو یہ بھی ہاتھ سے گیا۔
وقت کا پہیہ کچھ اور سرکا۔ دو بڑی بیٹیوں کو پرائیویٹ پڑھوا کر مناسب رشتے ملنے پر سعودیہ میں ہی بیاہ دیا۔ حرم پاک میں نکاح پڑھوایا اور اس کے بعد جس کی قسمت جہاں لے گئی عارفہ اور معیز نے رب کا شکر ادا کیا۔ ایک بیٹی کا شوہر آسٹریلیا کا پڑھا ہوا تھا، سو وہ وہاں بس گئی، دوسرے داماد کی نوکری راس الخیمہ دبئی میں ہوگئی، تیسری کی باری آنے تک سعودیہ میں غیر ملکی طالبات کے لیے تعلیم میں سہولت آچکی تھی۔ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں بھاری فیس کے ساتھ ڈینٹسٹری کی تعلیم کے لیے داخل کروا دیا تو عارفہ جزبز ہوئی، اس پر معیز نے اسے یہ کہہ کر خاموش کروا دیا کہ دونوں بڑی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم نہ دلوا سکنے کا جو قلق مجھے ہے وہ تم نہیں جانتیں، اب جیسے بھی ہو، تیسری کو ضروری ڈگری دلوائوں گا۔ ڈگری کا حصول بعد میں اور شادی کا مرحلہ پہلے طے ہوگیا۔ سو تیسری کے فرض سے بھی فراغت ہوئی۔ اب عارفہ ہر عمرہ ٹرپ پر ایک ہی دعا مانگتی کہ یارب میرا جنازہ امام کعبہ پڑھائیں۔ نہ جانے کب سے وہ چپکے چپکے اس دعا کو مانگنے کی عادی ہوگئی تھی۔ حتیٰ کہ اس کے دل کو یقین سا ہوگیا کہ اس کی موت اسی مبارک زمین پر ہوگی، اور اب… آخری عمرے سے لوٹتے ہوئے وہ آنکھوں سے سمندر بہا رہی تھی۔ اس سرزمین کو پینتیس برس بعد ہمیشہ کے لیے چھوڑ رہی تھی۔ یہاں اس نے معیز کے ساتھ زندگی کے خوب صورت ترین دن گزارے تھے۔ نہ جانے کتنے خوب صورت پل تھے جو اس کی جھولی میں بھرے ہوئے تھے۔ حرم کے چمکیلے صحن میں اس کے بچے ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتے اور وہ مسجد کی دیوار سے ٹیک لگائے انہیں دیکھا کرتی۔ حرم کے صحن میں پھیلی روحانی سی ٹھنڈ، خوشی، سکون، اور لائوڈ اسپیکر سے بلند ہوتی اللہ اکبر کی صدائیں… یہ سب تو اس کا اپنا تھا۔ سب کچھ اس کا اپنا تھا… کیا نہیں تھا؟
آج اس احساس نے اسے توڑ ڈالا تھا کہ یہ سب کچھ چھن رہا تھا۔ مگر یہ سچ تھا کہ وطن واپسی کے لیے قدم بڑھانے والوں کے اس قافلے میں وہ اکیلی تو نہ تھی۔ کتنے ہی خاندان اپنے نصیب کی روٹی کما کر، قسمت کا کھا پی کر اور کھلا پلا کر واپس ہورہے تھے… اور پھر واپس تو ایک روز جانا ہی تھا، آنے والوں کو تو جانا ہوتا ہی ہے، یہ کوئی انہونی تو نہ تھی، حادثہ تو نہ تھا، مگر پھر بھی سارے پریشان ہو ہوکر ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے:
’’کچھ بنایا بھی ہے؟ کوئی گھر، کوئی پلاٹ، کوئی بزنس کاروبار…؟ کوئی ٹھکانہ؟‘‘
معیز اور عارفہ کے پاس اللہ کے سوا کسی کا آسرا اور بھروسہ نہ تھا، اور اللہ کے سوا کوئی آسرا ہے ہی کہاں؟
برسوں کا جما جمایا گھر اجاڑنا بھی مشکل تھا، مانوس سے در و یوار کو چھوڑنا بھی مشکل، اور مکہ، مدینہ کو الوداع کہنا تو سب سے مشکل… مگر معیز کے لیے بنا پنشن، گریجوٹی اور میڈیکل انشورنس کے، کراچی جیسے شہر میں سیٹ ہونا سب سے مشکل تھا، جہاں چھٹیوں کے دوران مہینہ گزارنے پر ہی بینک بیلنس صفر کو چھونے لگتا تھا۔ اب بقیہ زندگی کا تصور اسے ہولا دینے کو کافی تھا۔ مگر وہ مرد تھا، ابھی تک آنکھ سے ایک آنسو نہ بہایا تھا، اور نہ ہی عارفہ کے سامنے اس نے کسی قسم کی پریشانی کا اظہار کیا تھا۔
…٭…
جہاز نے جدہ ائر پورٹ سے اڑان بھری تو عارفہ نے کھڑکی کے شیشے سے باہر دیکھتے ہوئے خود کو سمجھایا۔ اس نے پکا ارادہ کرلیا کہ اب اسے ہمت سے کام لینا ہے اور آگے کی زندگی میں معیز کو سہارا دینا ہے۔ کیا ہوا جو اُن کے پاس وسائل نہیں! معیز کی ہمت اور صحت سلامت رہے تو وہ ضرور اپنے لیے امکانات کے راستے تلاش کرلیں گے۔ اس نے سوچا کہ معیز جیسا شخص جس نے ساری زندگی اسے شہزادی بناکر اپنی ہتھیلی پر دھرے رکھا، اب وقت ہے کہ عارفہ اس کا سہارا بنے۔
قائداعظم انٹرنیشنل ائرپورٹ پر لینڈ ہوئے اور سامان کی ٹرالی گھسیٹتے باہر نکلے تو حسبِ توقع کراچی کی مرطوب ہوا نے استقبال کیا اور عینک دھندلا گئی، لیکن خلافِ توقع چشموں کو بہتیرا صاف کرنے کے بعد بھی کوئی شناسا چہرہ نظر نہ آیا۔
عارفہ ایک طرف ٹرالی کے ساتھ کھڑی ائرپورٹ کے شناسا سے مناظر میں کھوئی ہوئی تھی۔ مشتاق نگاہیں، باہر والوں کا بے تاب ہوکر جھانکنا، اور اندر والوں کو ڈھونڈتی نگاہیں، پیاروں سے ملاقات، کہیں کسی بوڑھی جھری دار آنکھوں میں یکدم سے چمک کا پیدا ہونا، تو کہیں ننھے منے بچوں کا اپنے بوڑھے دادا یا نانا کی بانہوں میں جھول جانا۔ کسی بھائی بھتیجے کا تیزی سے بڑھ کر اکیلی آتی خاتون کے سامان کی ٹرالی کو تھامنا اور خاتون کا لمحے بھر میں سامان سے بھری ٹرالی کی جانب سے بالکل ہی غافل ہوجانا… ملن کی خوشیاں… واپسی کی دہلیز پر رکھے جلتے ہوئے دیے جو عارفہ کے لیے اب بجھائے جا چکے تھے۔
اسے یہ مناظر تیس برس پیچھے لے گئے جب وہ پہلی بار نائلہ کو پرام میں لے کر پہنچی تھی… ایک دنیا اس کے استقبال کو موجود تھی… بچی کو سب نے پہلی بار ہی دیکھا تھا۔ کیا میکہ، کیا سسرال، ایک جلوس تھا جو اس کے خیر مقدم کو موجود تھا… ہائے یہی جگہ تھی، یہی فضا تھی، ایسے ہی مناظر تھے، مگر وہ… اب نہیں جنہیں میں اپنا کہتی تھی، جو میری آمد کے منظر تھے۔ شہر نہیں بدلا تھا، وقت بدلا تھا، منظر دھندلایا تھا۔ اس نے پھر سے چشمہ صاف کیا اور آنکھیں رگڑیں ’’یا اللہ خیر! ابھی تک کوئی لینے نہیں آیا اور یہ معیز کہاں رہ گئے؟‘‘ اس نے پریشانی سے نظریں دوڑائیں۔
اتنے میں کسی نے ٹرالی پکڑ لی۔ وہ گھبرا کر پلٹی، کوئی اور نہیں معیز ہی تھے۔ ’’چلو‘‘ انہوں نے جھکے سر کے ساتھ انتہائی آہستگی سے کہا۔
’’کیا مطلب؟ کوئی لینے نہیں آیا؟‘‘
’’نہیں کوئی نہیں آیا، فلائٹ سویرے کی تھی شاید اس لیے۔‘‘ معیز کی آواز میں زمانے بھر کی تھکن تھی۔
کوئی ایسی انہونی بھی نہیں ہورہی تھی کہ وہ سمجھ نہ پاتی۔ سو وہ بھی تھکے قدموں کے ساتھ اپنے شوہر کے پیچھے چل پڑی۔
کون کہتا ہے کہ کچھ نہ بدلا تھا! سب کچھ تو بدلا تھا۔ معیز کی چال بھی تو بدلی تھی۔ پہلے تو ٹرالی لیے تیز تیز آگے بڑھے چلے جاتے تھے، کراچی اتر کر گھر پہنچنے کی سب سے زیادہ جلدی انہی کو ہوتی تھی، اور اب تھکے مرے قدموں کے ساتھ گھسیٹ رہے تھے ٹرالی کو بھی اور اپنے وجود کو بھی۔ یہ بھی غنیمت ہوا کہ معیز کے ایک دیرینہ دوست نے اپنے گھر کے چوکیدار کو ہدایت کی ہوئی تھی کہ جب تک ٹھکانے کا بندوبست نہ ہوجائے وہ دونوں اسی کے گھر میں رہیں گے۔ دوست فیملی سمیت برطانیہ شفٹ ہوچکا تھا اور گھر عرصے سے خالی تھا۔ معیز کے بارہا بتانے کے باوجود کسی نے ایک لفظ نہ کہا تھا تو پھر وہ کیسے سامان سمیت گھر والوں کے سر پر پہنچ جاتا!
’’نیپا کی طرف سے لینا‘‘۔ معیز نے ٹیکسی ڈرائیور کو ہدایت کی۔ پھر جب اس نے ڈرائیور کو دائیں بائیں مڑنے کی ہدایت کی تو عارفہ ایک دم چونکی۔ شناسا سی گلیاں… کیا معیز غلطی سے ادھر آگئے؟ ’’معیز یہاں کیوں جا رہے ہیں؟‘‘ اس نے دھیرے سے پوچھا۔
’’نہیں بس ایسے ہی… کراچی پہنچ کر ابا جی کے گھر نہ جائوں یہ مجھ سے ہو نہیں سکتا۔‘‘ معیز نے خود کلامی کی۔ اور پھر اس کی آنکھوں سے دو قطرے بھی نکلے جنہیں اس نے کھڑکی کی جانب منہ کرکے رگڑ لیا۔
ٹیکسی اس گھر کے آگے رکوائے بنا ہی دونوں دلوں پر منوں بوجھ لیے خاموشی سے گزر گئے۔ یہ گھر ابا جی کا تھا، اب تک انہی کے نام تھا، اور اس کی بنیاد میں معیز کا پیار تھا، اس کی بے غرضی تھی۔ لیکن اب ان دونوں میں سے کسی کا نہ رہا تھا۔
ابا جی زندگی سے ہار گئے تھے، ان کی پونجی تو وارثوں میں بٹنی ہی تھی مگر معیز ابھی زندگی سے دست بردار نہ ہوا تھا۔ ہاں اپنے حق سے دست بردار ہوگیا تھا۔ وہ محبت کا مارا ہار گیا تھا۔ ساری زندگی دیتا ہی رہا تھا ناں… مانگنا اس نے کب سیکھا تھا! خالی ہاتھ لوٹا تھا… پَر خالی ہاتھ شاید نہ تھا۔ بہت کچھ تھا اس کے دامن میں۔ اسی دامن میں اس نے وہ دونوں آنسو جذب کرلیے جنہیں عارفہ کنکھیوں سے دیکھ چکی تھی۔ اس کا دل کٹ گیا۔ اس سے پہلے کبھی بھی اُس نے معیز کی آنکھوں میں آنسو جو نہ دیکھے تھے، اور ان آنسوئوں کی قیمت عارفہ سے بہتر کون جانتا تھا۔
نہیں کوئی نہ جانتا تھا، وہ جانتا تھا جو دلوں کا بھید جانتا ہے اور جو بدلہ دینے میں سب سے بڑھ کر ہے۔

حصہ