زینب میری بچی

228

ثنا نوشین
آج جس موضوع پر لکھنا چاہ رہی ہوں، جس درد پر لکھ رہی ہوں، اگر قلم کلیجے کے خون میں ڈبو کر بھی مذمت کے الفاظ لکھوں تو کم ہے۔ میری بھی پانچ سال کی ایک بیٹی ہے۔ احساس لکھے نہیں جا سکتے، جی کرتا ہے دھاڑیں مار مار کر رو دوں، مگر آج چپ رہنے کا دن نہیں ہے کسی بھی ماں کے لیے۔ میں پہلے واقعہ بتادوں، ساتھ ساتھ کچھ باتوں کی نشاندہی بھی کرتی رہوں گی۔ قصور کی زینب نام کی ایک بچی، عمر سات سال، قرآن پاک پڑھنے گھر سے نکلی، مگر اپنے ہی محلے میں وہ دو گھر چھوڑ کر تیسرے گھر کی طرف جاتے ہوئے غائب ہوگئی۔ سی سی ٹی وی کیمرے چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ بچی کو ورغلا کر لے جایا جا رہا ہے، ایسے میں محلے کے کسی آدمی، کسی بچے، کسی بوڑھے، کسی عورت نے روک کر نہیں پوچھا: بیٹا یہ کس کے ساتھ جارہی ہو؟ کیوں کہ آج کے دور میں رواج ہے ’’اپنی بچی بچاؤ، غیر کی بچی کا وہ خود ذمہ دار‘‘۔ چار روز پولیس آتی، ضابطے کی کارروائی کرتی، اور چلی جاتی۔ میں نہیں کہتی پولیس ملوث تھی، مگر چار روز بعد لاش ملنے کے بعد کا رویہ کچھ اچھا نہیں۔ بچی کو زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر مار دیا گیا تھا، لاش جب کچرے دان سے ملی وہ چیخ چیخ کر ہم سے سوال کررہی تھی: ان ہوس کے اندھوں کی نظر اب ہم معصوم بچوں پر کیوں آکر ٹھیر گئی ہے؟ کیا ان بے حس لوگوں کو ہم پر ترس نہیں آتا؟
آج تو ابلیس بھی رو رہا ہوگا۔ آسمان پر فرشتے بھی اس غم پر تڑپ گئے ہوں گے۔ ایسے میں رانا ثناء اللہ کا بیان ’’ایسے واقعات برسوں سے ہورہے ہیں، اس واقعے کو مت اچھالیے، اس واقعے کے ذمہ دار وہ والدین ہیں جو بچی کو چھوڑ کر عمرے پر گئے، اور بچی خود ذمہ دار ہے۔‘‘ واہ رانا جی، کیا بات کہی آپ نے۔ اس کے علاوہ طلال چودھری کا بیان ’’قصور جیسے واقعات ہر صوبے میں کئی بار ہوتے ہیں، ان کو سیاسی رنگ دے کر مت اچھالیے‘‘۔ ساون کے اندھے کو ہرا ہرا سوجھتا ہے اور موصوف کو سیاست سیاست۔

ابھی تو یہ آگ
تماشا لگے ہے
گر دامن تمہارا
ذرا سا پرے ہے
مگر کیا بھروسا
اگر ایک شعلہ
تیرے آشیانے
کی کھڑکی سے آکر
تیری گڑیا کا
دامن جلا دے
ابھی تو یہ آگ
تماشا لگے ہے
مگر
کیا بھروسا
ڈرائیور تمھارا
یا ہو
کوئی محافظ
تمہارے ہی جیسا
جو اپنوں کی بیٹی کو
غیروں سی سمجھے
کبھی شعلے کو
مٹھی میں چھپا کر
تمہاری بھی
بیٹی کا دامن
جلا دے
ابھی تو یہ آگ
تماشا لگے ہے

میں سیاست نہیں کرتی، مگر اس بات سے منہ بھی نہیں موڑ سکتی کہ تین سال سے ہمارے بچے نیزے کی نوک پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 2015ء: قصور میں 300 بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی، جن کی وڈیو بنائی گئی اور پھر کئی ملین ڈالر میں بیچی گئی۔ ہم چپ رہے۔ 2016ء: بچے اغوا کرکے ان کے اعضاء نکال دیے جاتے تھے۔ ہم چپ رہے۔ اور اب صرف قصور سے 12بچے اغوا یا قتل کردیے گئے ہیں، اور اب بھی ہم چپ ہیں۔ ان سیاست دانوں کے بیانات کتنے مُردہ ضمیر ہیں اور ہم کون سا دودھ کے دھلے لوگ ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پوسٹ لائک کرتے ہیں، مزاحمتی کمنٹ لکھ دیتے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ پوسٹ شیئر کرلیتے ہیں۔ ہم اکثر ایسے واقعات کا ذکر گھر میں نہیں کرتے۔ اپنی بہو، بیٹی کو چپ کرا دیتے ہیں۔ اس ٹاپک پر ہم بولتے نہیں، اور وہ بھی یہی سلوک اپنے بچوں کے ساتھ کرتی ہیں۔ اگر بچے بتائیں: فلاں محلے کا لڑکا، فلاں ٹیچر، فلاں دوست غلط بات کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں آپ اُس سے بات مت کرو اور کسی سے ذکر مت کرو، اور بچے کو آنکھیں دکھاتے ہیں: آپ تو ایسا نہیں کرتے؟ بچہ بات بتاتے بتاتے کسی چور کی طرح چپ ہوجاتا ہے۔ ہم ڈرا ڈرا کر سوال کرکے بچے کو جھوٹ بولنے پر مجبور کرتے ہیں۔
میں مطالبہ کرتی ہوں آپ سے، کسی سیاست دان سے نہیں کہ سیاست دان تو خود منگتے ہیں، ان کو میں نے اکثر ووٹ مانگتے دیکھا ہے۔ میں آپ سے مخاطب ہوں۔ ایک عام پاکستانی سے، تمام ٹیچرز سے، تمام والدین سے کہ اپنے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔ ہر طرح کی اُن کی تربیت کریں۔ کیا غلط اور کیا درست ہے، یہ سب بتائیں۔ ایک ماں اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر تربیت اور تعلیم دے سکتی ہے، وہ اپنا فرض پورا کرے۔ اپنے بچوں کے دوست بنیں نہ کہ دشمن۔ انہیں سختی سے نہیں بلکہ پیار اور محبت کی زبان سے سمجھائیں۔ ان سے واپسی پر اچھی اچھی باتیں کریں۔ انہیں یہ احساس دلائیں کہ ان کے لیے آپ کا وقت اور آپ ہی سب کچھ ہیں۔ ایسا ماحول ہوگا تو بچہ باہر اور اندر کا سب کچھ کھل کر آپ سے شیئر کرسکے گا۔ یہ بات آپ کے لیے ایک مثبت پہلو ہوگی کہ آپ کے بچے کب کیا اور کہاں کررہے ہیں۔

حصہ