سانحہ قصور: ذمے دار کون۔۔۔۔؟

282

عثمان الدین
پنجاب کے شہر قصور میں ہونے والے انسانیت سوز واقعے پر اس وقت پوری قوم غمگین اور افسردہ ہے، ظلم و زیادتی کے اس واقعے کو بیان کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ سات سال کی ایک معصوم بچی زینب، جس کے والدین عمرہ کی سعادت حاصل کرنے میں مصروف تھے، اپنی خالہ کے گھر پر قرآن شریف کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے گھر سے نکلتی ہے، لیکن انسانوں کے روپ میں درندے اس معصوم کو راستے سے اغوا کرکے لے جاتے ہیں اور پھر پانچ دن کے بعد اس کو زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کرکے کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیتے ہیں۔ یہ ایسا واقعہ ہے کہ انسان کا دل اس کو محض تصور کرتے ہوئے کانپ جاتا ہے۔ حقیقت میں اس سانحے سے دوچار ہونے والے زینب کے والدین اور گھر والوں کے دکھ اور تکلیف کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ بلاشبہ کسی بھی ملک اور قوم کے لیے اس قسم کے واقعات انتہائی شرمندگی کا باعث ہوتے ہیں، کیونکہ یہ واقعات معاشرے کے زوال اور انحطاط کی نشاندہی کررہے ہوتے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک اور معاشرے میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جو پیش آیا ہے؟ اورکیا ہم یہ یقین کرسکتے ہیں کہ آئندہ اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آئے گا؟ ان دونوں سوالات کا جواب یقینا نفی میں ہے، اور درحقیقت یہی ہمارا بڑا المیہ ہے۔ اسی قصور میں یہ ایک سال کے دوران پیش آنے والا اپنی نوعیت کا بارہواں واقعہ ہے۔ اس کے علاوہ باقی ملک میں بھی مختلف اوقات میں اس طرح کے دلخراش واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، کچھ ہی عرصہ قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایک انسانیت سوز واقعہ سامنے آیا تھا، لیکن دوسری طرف اب تک ان سانحات کے مجرموں کو پکڑ کر سزا نہیں دی سکی ہے۔ جرائم کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ دنیا کے ہر ملک اور معاشرے میں ہوتے ہیں، لیکن حکومت اور ریاست کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑ کر کیفرکردار تک پہنچاتی ہے۔ معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کا یہی ایک آسان نسخہ بھی ہے، لیکن ہمارے یہاں کی حکومتیں اس میں مکمل ناکام نظر آتی ہیں، کیونکہ یہاں اول تو مجرموں کو سرے سے پکڑا ہی نہیں جاتا، اور اگر پکڑ بھی لیا جائے تو ان کو کوئی سزا نہیں ہوپاتی، اور چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اب جس ملک اور معاشرے میں جرائم پیشہ افراد کو پکڑے جانے اور سزا کا خوف ہی نہ ہو وہاں سے جرائم کا خاتمہ کیسے ہوسکتا ہے؟ قصور میں پیش آنے والے ان تمام سانحات کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان میں ایک ہی شخص ملوث ہے۔ جب ایک مجرم کوگیارہ مرتبہ ایک جرم کرنے کے باوجود سزا تو دور کی بات ہے سرے سے پکڑا ہی نہیں جاسکا ہو تو ظاہر سی بات ہے وہ بڑی دلیری کے ساتھ بارہویں مرتبہ بھی وہی جرم کرے گا۔ بہرحال یہ ہمارے نظام کی بہت بڑی کمزوری ہے جو کہ جرائم کے خاتمے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں آئے روز اس قسم کے سانحات پیش آتے رہتے ہیں، ان پر کچھ دن تک شور شرابا ہونے کے بعد پھر خاموشی ہوجاتی ہے اور مجرم آزاد پھر رہے ہوتے ہیں۔ اگر ان سانحات کا سدباب کرنا ہے تو ہمیں مجرموں کو پکڑ کر انصاف کے اصولوں کے مطابق فوری سزا دینے کے نظام کو مضبوط کرنا ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ قصور ایک سال سے مسلسل اس قسم کے انسانیت سوز واقعات کی زد میں ہے، اس لیے مذکورہ سانحے پر وہاں کے عوام کا مشتعل ہونا اور احتجاج کرنا ایک فطری بات ہے، البتہ اس احتجاج کا پُرامن ہونا انتہائی ضروری ہے، اور اسی صورت میں وہ مؤثر بھی ہوگا۔ دوسری طرف پنجاب پولیس کی طرف سے جس طرح احتجاج کرنے والے عوام پر بالکل سامنے سے فائرنگ کرنے کے مناظر سامنے آئے ہیں جس میں دو انسانی جانیں بھی ضایع ہوگئی ہیں، وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس قسم کے المناک سانحے پر احتجاج کرنے والے شہریوں پر اس طرح فائرنگ کرنا سراسر ظلم ہے۔ جن پولیس اہلکاروں نے یہ جرم کیا ہے اُن کو بھی قانون کے مطابق سزا ملنا ضروری ہے۔ حکومت کے لیے اس موقع پر حکمت وتدبر سے کام لینا ضروری ہے، ایسا نہ ہو کہ احتجاج پورے ملک میں پھیل جائے اور پھر حکومت کے لیے اس کو قابو کرنا مشکل ہوجائے۔
آخر میں ایک اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے ہمارے ملک میں جس طرح کا سیاسی ماحول بن چکا ہے اس کے دیگر نقصانات کے ساتھ ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ ملک میں پیش آنے والے سانحات بھی اکثرسیاست ہی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آنے والا واقعہ بھی اسی طرح سیاست کی نذر ہوگیا تھا، اور اب ایک طبقہ قصور کے واقعے کو بھی سیاست کی نذر کرنے میں مصروف ہے، جس کے لیے سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال ہورہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس سے ان سانحات کی سنگینی متاثر ہوجاتی ہے، اس لیے یہ رویہ درست نہیں ہے۔ سیاست کے لیے بہت ساری چیزیں ہیں جن پر سیاست کی جاسکتی ہے۔ باقی اس طرح کے سانحات ملک کے کسی بھی حصے میں پیش آئیں ان کو سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ان کے خلاف سیاست سے بالاتر اور یک زبان ہوکر مؤثر آواز اٹھانا ضروری ہے۔

حصہ