سوشل میڈیا کے ’’بہادر‘‘۔

462

جویریہ سید
لوگ کہتے ہیں کہ فیس بُک پر موجود شخصیات ’’فیک‘‘ ہوتی ہیں۔
ہمارا خیال ذرا مختلف ہے۔ خال خال ہی کچھ لوگ ایسے ہیں جو بہت محتاط ہیں۔ ان کے خیالات و افکار سے زیادہ آپ اُن کے بارے میں جان نہیں سکتے جب تک بالمشافہ ربط ضبط نہ ہو۔ اس لیے جو اپنی ذاتی تفصیلات سے آگاہ نہیں کرنا چاہتا اس پر فیک ہونے کا الزام چہ معنی دارد۔ ان میں قلمی ناموں کی قبیل کے ’’فیس بُک آئیڈیز‘‘ والے بھی ہیں اور سنجیدہ اصحابِ علم بھی۔
مگر اکثریت ایسے افراد کی ہے جو یہاں اپنی ہی شخصیت کے ساتھ موجود ہیں۔ کچھ تو جیسے حقیقت میں ہیں ویسے ہی یہاں بھی ہیں، اور کچھ مختلف ہیں، ان کو فیک نہ جانیے، وہ دراصل اپنی ہی شخصیت کے اُس پہلو کا اظہار کرتے ہیں جسے اپنی ذاتی زندگی میں ظاہر کرنے سے وہ گھبراتے ہیں۔ انسان اپنے سوا کچھ اور کیسے بن سکتا ہے جب کہ یہ ساری عمر بھی خود اپنا آپ بننے کے لیے ناکافی ہے!
لہٰذا جو فیس بُک سے باہر کی زندگی میں گالی دے نہیں پاتا مگر ایسا کرنے کی لاشعوری خواہش رکھتا ہے، وہ یہاں آکر ایسا کرگزرتا ہے۔ جو دھوکا دے کر اچھا بننے کا پوز کرتا ہے وہ درحقیقت دھوکے باز ہے چاہے ذاتی زندگی میں اسے آپ نے ’’بڑا شریف‘‘ قسم کا انسان دیکھا ہو۔ کوئی کم گو دھڑا دھڑ اسٹیٹس پوسٹ کرتا ہو، گفتگو کی شدید خواہش رکھتا ہوگا۔ کوئی مذہبی نظر آنے والے صاحب یہاں وہاں پیغام بھیجتے اور اشارے کنایے کرتے نظر آتے ہیں تو یہ ان کی کسی ناآسودہ خواہش کی تسکین کا اظہار بن جاتا ہے، اور کوئی بڑے پڑھے لکھے محترم یا محترمہ جو کسی سیاسی، نظریاتی یا مذہبی فکر پر تضحیک اور توہین آمیز گفتگو یا حملے کرتے پھرتے ہیں اور مخاطبین کے مشتعل ہوکر بپھر اٹھنے پر مزے لیتے ہوئے اپنے ہم خیالوں سے بڑے حقارت آمیز انداز میں فرماتی یا فرماتے ہیں کہ ’’دیکھا کتنی بدتمیزی کرتے ہیں یہ گھٹیا لوگ!‘‘ خود ان کی شخصیت کے ’’کسی‘‘ پہلو کا تجزیہ کرنے کے لیے کسی سائیکوانالسٹ کی ضرورت نہیں ہوتی، بس ایک لمبا خاموش مشاہدہ ہی بہت ہوتا ہے۔ فیس بُک پر ذرا خاموشی، گہری اور سمجھ دار نگاہ رکھنے والوں کے سامنے ان لوگوں کے پھنسنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جو کثرتِ کلام کے عادی ہیں۔ مگر پھنسنے سے ڈرے وہ، جس کو اس کی پروا ہو۔
یہ تو اساطیر کے کسی قصہ خوانی بازار کی طرح کا ایک بازار ہے جس کی کئی پُرپیچ گلیاں ہیں۔ بھانت بھانت کی بولیاں، قسم قسم کے لوگ، دیس دیس کی سوغاتیں، کئی طرح کی بوئیں اور کئی طرح کے رنگ۔ ہر ایک کو نمایاں ہونا ہے۔ ہر گفتگو میں حصہ لیناہے۔ تائید و ستائش درکار ہے اور اپنی ’’پوشیدہ صلاحیتوں کے قیمتی دفینے‘‘ سے دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔
ایسے میں آپ کو جو چیز مطلوب ہو، شریف آدمی کی طرح ان گلیوں سے گزر کر اپنی مطلوبہ منزل پر پہنچ جایئے۔ یہ جو راستوں میں ہر جگہ رک جایا کرتے ہیں، یہ صرف وقت ہی برباد نہیں کرتے بلکہ ان کی کسی عیب دار جگہ پر موجودگی خود ان کی اپنی شخصیت کو بھی یا تو داغ دار کرتی ہے یا پھر خود ان کی اپنی ہی شخصیت کے کسی پوشیدہ پہلو کی نشاندہی کردیتی ہے۔
ذاتی رائے یہ ہے کہ جو بھی ناشائستہ گفتگو یا بے ہودہ کلام کرے یا بظاہر خود ٹھنڈا رہتے ہوئے معنی خیز گفتگو کے ذریعے دوسروں کو مشتعل کرتا رہے مذہبی ہو یا مذہب بیزار، اس میں اگر کچھ قابلیت ہے تو بھی متاثر کن نہیں۔ آئی کیو(I.Q) تو قدرت عطا کرتی ہے مگر اخلاقیات ساری کی ساری اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ جس طرح شکل بنانے کا اختیار انسان کے پاس نہیں، مگر صفائی ستھرائی اور سلیقہ مندی تو اس کے بس میں ہے، اس لیے انسان کو سلیقے اور صفائی سے جانچتے ہیں، اسی طرح ہمیں قابلیت سے زیادہ اندازِ گفتگو اور فکر سے زیادہ ’’اندازِ فکر‘‘ متاثر کرتا ہے۔
کچھ لوگ انسانیت اور کچھ مذہب کے لیے اس قدر پُرجوش ہیں کہ سمجھتے ہیں ان دونوں کی ساری خدمت ان کی زہر افشانی سے ہی ممکن ہے ورنہ تو یہ بے چارے بے بسی سے ہماری راہ تکتے مر جائیں گے۔ عورت پر ظلم کا قصہ مذہب اور مقدس شخصیات کو گالی دیے بغیر لکھا تو ’’بہادر‘‘ کیسے کہلائیں گے؟ اور اپنی عزیز ترین ہستی کا دفاع غلیظ گالی کے بغیر کیا تو مرد کیسے بنیں گے؟ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے یہ ساری فضا ایسی مسموم ہوگئی ہے کہ بھلی بات کہنا بزدلی، کم ہمتی اور نالائقی کے زمرے میں آنے لگا ہے۔
حیرت ہوتی ہے جب اچھے خاصے لوگ اس قسم کے خواتین و حضرات کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ ’’بہادر ہے‘‘، ’’باغی ہے‘‘ قسم کے تبصرے کرتے ہیں۔ گویا کہ اگر آپ خاتون ہوکر ’’بولڈ‘‘ موضوعات پر بے رحمی سے گفتگو نہیں کرسکتیں، یا مذہبی ہوکر مذہب بے زاروں کو گالیاں نہیں دے سکتیں تو آپ میں کوئی کمی ہے۔ اس لیے شدت پسندی اور عدم برداشت کی فضا میں ایسے تماشائیوں کا بھی حصہ ہے۔
زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ احترامِ باہمی پر مبنی معاشرہ تخلیق کرنے پر بہت ہی کم سنجیدہ فکر افراد کے سوا کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ اکثریت منفی پہلوئوں کو نمایاں کرتی ہوئی تلخ نوائی پر مُصر ہے۔ مخالف کو صفحۂ ہستی سے مٹائے یا اس کی تذلیل و تحقیر کیے بغیر ’’اپنا مثالی‘‘ معاشرہ قائم کرنے پر متفق ہی نہیں۔
ناگوار واقعات ایک دم سے اچانک نہیں ہوتے، بڑے عرصے سے فضا بن رہی ہوتی ہے۔ ہم جیسے لوگ ڈرتے رہتے ہیں کہ کسی دن کسی نہ کسی کا لاوا پھٹ جائے گا، مگر افسوس کوئی ان کو روک نہیں سکتا، کیوں کہ کسی نہ کسی کی کچھ نہ کچھ تسکین ان افراد اور ان کی گفتگو سے ہورہی ہوتی ہے۔
اس طرح تو ابھی بہت سی جنگیں ہوں گی اور صرف جنگیں ہی ہوتی رہیں گی۔

حصہ