خوش اخلاقی

571

کرن اَسلم
زین کی ہر وقت اپنے چھوٹے بھائی سے لڑائی رہتی تھی۔ وجہ بھی خاص نہیں ہوتی تھی۔اُس کی بات اگر کسی کو ٹھیک سے سمجھ نہ آتی یا سنائی نہ دیتی اور کوئی دوبارہ اُس سے پوچھ لیتا۔ اِس پر زین بہت غصّے میں غلط جواب دیتا تھا۔ غصیلے مزاج کی وجہ سے اسکول میں بھی اُس کے دوست کم تھے۔ایک دِن اسکول میں بزمِ ادب کی کلاس تھی۔ کلاس میں سب نے کوئی ایسی کہانی یا وا قعہ سنانا تھا جس سے اچھّا سبق ملتا ہو۔ زین کے دوست شاہد کی باری آئی تو اُس نے حضرت محمد ؐ کی زندگی سے اُسوہ ٔ حَسَنہ کا ایک مختصر لیکن بہت اچھّا قِصَّہ سنایا۔آپ بھی سنیئے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے۔صحابہ کرام ؓ حسبِ معمول حضرت محمدﷺ کے پاس بیٹھے اچھّی اچھّی باتیں سُن رہے تھے۔ اتنے میں ایک اَجنبی شخص آیا۔اُس نے آپؐ سے پوچھا۔ ’’یا رسول اللہ ﷺ! خوش اَخلاقی کسے کہتے ہیں؟‘‘ آپؐ نے نرمی سے فرمایا۔’’دوسروں کے ساتھ اچھّے انداز میںمسکرا کر بات کرنا۔ غصّہ نہ کرنا ، درگزر کرنااور اچھّی بات کہنا۔‘ وہ آدمی یہ سُن کر خاموشی سے وہیں صحابہ کرام ؓ کے پاس بیٹھ گیا۔کچھ ہی دیر گزری تھی۔ وہ آدمی دوبارہ اُٹھ کر آیا۔ اُس نے آپؐ سے پھر وہی سوال کیا کہ خوش اخلاقی کسے کہتے ہیں؟ آپ ؐ نے وہی جواب دہرا دیا۔ وہ آدمی یہ سُن کردوبارہ وہیں بیٹھ گیا۔کچھ دیر بعد وہ پھر سے اُٹھا اور جا کر اپنا سوال دہرایا۔ تیسری بار بھی آپ ؐ نے اُسی تحَمُّل سے اپنا جواب دہرایا۔ اُ س آدمی نے تقریباً دس بار ، وقفے وقفے سے یہی سوال دہرایا اور آپ ؐ نے پہلی بار کی طرح نہایت بُردبَاری سے اپنا جواب ہر بار دہرایا۔صحابہ کرامؓ کو اُس آدمی کی یہ حرکت نا گوار گزر رہی تھی کہ وہ ایک ہی بات بار بار پوچھ کر آپؐکو پریشان کر رہا ہے۔جب اُ س آدمی نے دسویں بار اپنا سوال دہرایا اور آپ ؐ نے نہایت شفقت سے اپنا جواب دہرایا تو وہ آدمی بولا: ’’ اب میں بہت اچھّی طرح سمجھ گیا ہوں کہ در اصل خوش اَخلاقی کیا ہوتی ہے۔‘‘ آپؐ مسکرائے اور وہ آدمی اجازت لے کر رخصت ہو گیا۔
یہ قصّہ سُن کر زین شرمندہ ہو گیا۔اُسے احساس ہوا کہ اُس کا رَویّہ د وسروں کے ساتھ اکثر نا مناسب رہتا ہے۔
اِس کے بعد زین نے اپنے بھائی اور دوستوں سے اپنے رویے کی معافی مانگی اور آئندہ خوش اخلاقی اپنانے کا وعدہ کیا۔

شرارتی بچوں کا انجام

عالیہ ذوالقرنین


’’پٹاخ‘‘ کی زور دار آواز کے ساتھ فرخ کا پھینکا ہوا پٹاخہ گلی سے گزرنے والے کتے کے پاؤں کے پاس پھٹا اور اس نے ’’واؤ واؤ‘‘ کی درد ناک آواز نکالی لنگڑاتا ہوا ایک طرف کو بھاگ گیا۔ فرخ اور اس کے شرارتی دوست منظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے قہقہے لگانے شروع کردیے۔
فرخ اور اس کے منچلے دوستوں کا یہ روز کا معمول تھا کہ اپنے والدین سے ضد کر کے رقم نکلواتے اور دکاندار کو دے کر اس سے کہہ کر خاص طور پر پٹاخے لیتے اور لوگوں کے قریب پھاڑ کر ڈرنے پر خوشی سے قہقہے لگاتے۔ سارا محلہ ان کی اس حرکت سے تنگ تھا مگر ان بدتمیز اور بد تہذیب لڑکوں کے گروپ کو منع کرنے کی ہمت کسی میں بھی نہ تھی۔
زمان صاحب اپنے گھر کا سودا سلف لینے نکلے تو دھماکے کی آواز اور پھر قہقہوں نے انہیں پلٹنے پر مجبور کردیا۔ دیکھا تو فرخ اور اس کا دوست اسکول سے واپس آتے چھوٹے بچے کے پاؤں میں پٹاخہ پھوڑ کر ہنس رہے تھے۔ بچہ اچانک نازل ہونے والی اس افتاد سے خوفزدہ ہو کر ایک طرف کھڑا رو رہا تھا۔ زمان صاحب پاس گئے بچے کو پچکار کر خاموش کروایا اور اسے گھر روانہ کردیا۔ اگلے لمحے وہ فرخ اور اس کے دوستوں کے سامنے کھڑے تھے۔ ’’پٹاخہ بچے کے قریب کیوں چلایا؟‘‘ انہوں نے باری باری دونوں کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’بزرگو! آپ کو ہمارے پٹاخہ چلانے پر اعتراض ہے یا بچے کے قریب چلانے پر؟‘‘ فرخ نے آگے بڑھ کر بد تمیزی سے الٹا سوال کردیا۔ سوال پر اس کے دوست نے قہقہہ لگایا۔
’’مجھے دونوں باتوں پر اعتراض ہے، پٹاخہ چلانے پر بھی اور بچے کے قریب چلانے پر بھی‘‘۔ زمان صاحب اس کی بدتمیزی برداشت کرتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔
’’دیکھو بیٹا! تم میرے بچوں کی طرح ہو اگر تم کوئی غلط کام کرو گے تو میں ضرور منع کروں گا۔ تم اپنا قیمتی وقت اور پیسہ ضائع کر کے لوگوں کو اذیت، اور تکلیف دے رہے ہو۔ ہمارے آقا علیہ السلام کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ’’وہ شخص مسلمان نہیں جس کی ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ ہوں‘‘۔ بیٹا جانتے ہو ہم مسلمان ہیں، اسلام کا مطلب ہوتا ہے امن و سلامتی۔ یعنی ہمارے اسلام لانے سے دوسروں کو ہم اسے سلامتی ملے اور وہ امن میں رہیں۔ اگر کوئی شخص دوسروں کو تکلیف دے گا تو وہ کیسے مسلمان رہے گا؟ اب تم سب مجھے خود بتاؤ کہ کیا یہ کام مسلمانوں والے ہیں؟
’’دیکھو بزرگو! آپ نے ہمیں گھنٹے بھر نصیحت کی ہم نے سن لی، چلو اب چلتے پھرتے نظر آؤ ہمیں اور بھی بہت کام ہیں‘‘۔ فرخ کے دوست نے بدتمیزی سے کہا اور فرخ کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگا۔ وہ ان کا مذاق اڑاتے قہقہے لگاتے جاچکے تھے اور زمان صاحب تاسف میں وہیں کھڑے ان کے لیے ہدایت کی دعا کرنے لگے۔ پھر گہری آہ بھری اور اپنے گھر کی طرف چل دیے۔
اگلے دن فرخ کے گھر ایک کہرام مچا ہوا تھا اس کے دوست کی شرارت سے پھینکا جانے والا پٹاخہ فرخ کے سر پر گر کر پھٹا جس سے فرخ کے سر میں گھائو ہوگیا تھا۔ فرخ بے ہوش اور بے سد پلنگ پر پڑا تھا۔ فوری طور پر ایمبولنس بلائی گئی اور اسے اسپتال منتقل کردیا گیا۔
زمان صاحب نے بھی بڑی دلگرفتگی سے یہ خبر سنی اور ان کے ذہن میں حدیث مبارکہ کے الفاظ گونجنے لگے۔ ’’اسلام لے آ تو سلامتی پا جائے گا‘‘۔ آقا علیہ السلام نے سلامتی کی نوید ضرور دی تھی مگر اس سلامتی کے لیے صرف مسلمان گھرانے میں پیدا ہونا کافی نہیں جب تک ہمارے اعمال اسلام کے بتائے اور بنائے گئے اصولوں کے مطابق نہیں ہوں گے سلامتی کی کوئی صورت نہیں اور فرخ کے لیے یہ بات وقت ثابت کر چکا تھا۔
اگلے روز زمان صاحب اسپتال گئے فرخ کی عیادت کرنے کے لیے تو اس کے تمام دوست بھی وہاں جمع تھے۔ فرخ کی طبیعت اب بہتر تھے۔ زمان صاحب کو دیکھتے ہی اس نے اٹھنے کی کوشش مگر ڈاکٹر نے لیٹے رہنے کی ہدایت کی۔ فرخ نے آہستگی سے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر جوڑے اور زمان صاحب سے اپنی بدتمیزی پر معافی مانگ لی۔ اس کے دوستوں نے بھی معافی مانگی اور پھر آئندہ کسی کو تنگ نہ کرنے کی یقین دہانی کرادی۔ یقینا اب وہ سب سمجھ چکے تھے کہ کسی کو تکلیف نہیں دینی چاہیے۔ ان کے ڈر میں ہی ان کی اصلاح تھی۔ زمان صاحب دعا دیتے ہوئے گھر کو لوٹ آئے۔

حصہ