نئے شاعر بہزاد برہم

822

اسامہ امیر
کراچی سے تعلق رکھنے والے نوجوان نسل کے جواں فکر شاعر بہزاد برہمؔ نے شاعری کا آغاز تیرہ سال کی عمر میں کیا، ابتدائی دنوں میں ان کی حوصلہ افزائی کے لیے اسکول کی پرنسپل صاحبہ نے اہم کردار ادا کیا اور ادبی سفر جاری رکھنے کی تلقین کی، ان کے کالج کے دوست اور معروف شاعر ناصر حجازی نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ بہزاد برہمؔ کا شوقِ اوّل موسیقی ہے مگر شاعری جیسے آپ سے اپنا آپ لکھواتی ہے، ان کہنا ہے کہ ’’میرا فن کسی ادبی ماحول کا پروردہ نہیں‘‘۔ 2009ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ’’شب شکن‘‘کے نام سے منظرعام پر آیا اور خاصی پزیرائی حاصل کی، اور ان کے دو شعری مجموعے اشاعت کے مراحل میں ہیں۔ ان کی غزلیں، نظمیں مختلف اخبارات و رسائل کی زینت بنتی رہتی ہیں جن میں مشہور و معروف رسالہ ’’فنون‘‘ بھی شامل ہے۔ آئیے چلتے ہیں بہزاد برہمؔ کے کلام کی طرف۔ ان کے کلام سے پانچ غزلوں سے انتخاب آپ احباب کی نذر:

تارے کو مدہم سا کہہ کر دِل نہ توڑو تارے کا
تارا سُورج ہو سکتا ہے اور کسی سیّارے کا
٭
یہاں کسی کو بھی ماضی سے کچھ نہیں مطلب
دِسمبروں کے اَلم جنوری سے مت کہنا!
٭
اَزل اَبد کے کناروں پہ جو بھی ہے، ہو گا
اَبھی تو ہم پہ مسلّط ہے درمیان کا دُکھ
٭
حد درجہ احتیاط سے رکھنا مجھے کہ مَیں
جاناں! ترے بدن سے بھی نازک مزاج ہوں
٭
تیرے ہونے کی شرائط پوری کرنے کے لیے
داؤ پر لگتا رہا ہے روز و شب ہونا مرا
٭
سوچتا ہوں جب ترے پیکر کی قوسیں، پیچ و خم
کھردری لگتی ہیں مجھ کو چاند کی گولائیاں
٭
ریت میں دھوپ بو گیا سورج
چاروں جانب سراب اُگتے ہیں
٭
اُس کے سوا ہے کون جو کُھل کر چھپا رہے
وہ بولتا بھی خوب ہے، کہتا بھی کچھ نہیں
٭
مَیں بھاگ آیا، بڑا بیگانہ پن تھا اُس کے لہجے میں
مَیں کچھ دیر اور اُس سے بات کر لیتا تو مر جاتا
٭
جوانی بھی گزری مری، خاک اُڑاتے
مرے بچپنے کا کھلونا بھی مٹی
٭
نہیں شاعر ہوا بعد اَز محبت
مری پہلی محبت شاعری ہے
٭
کچھ کے پَر دیر سے کھلتے ہیں کہ شام آتے ہی
سب پرندوں کے ٹھکانے تو نہیں ہو جاتے
٭
تعلق ہوتا دو طرفہ تو کاروبار کہلاتا
محبت میں حقوق اُس کے، فرائض سارے میرے تھے
٭
سِکّے کو دیکھتے ہی دو آنکھیں چمک اُٹھیں
کوئی دے رہا ہے جیب سے سورج نکال کر
٭
کیا اس میں منجمد تھا کہیں خلیۂ حیات
تارا سا کوئی گھومتا آیا زمین پر
کاش اس چمن میں تم آئی نہ ہوتیں…
احمد ارشد
اک تتلی تھی اس چمن میں
کاش اس چمن میں وہ آئی نہ ہوتی
آنکھیں اس کی نیلی تھیں
باتیں اس کی شرمیلی تھیں
پریوں سی وہ خوبصورت تھی
نام کی وہ زینب تھی
نہ جانے کیوں اب روتی ہے
میرے ضمیر کو جھنجوڑ تی ہے
جا کر کہہ دو اس کو یارو
یہ بستی مجھ سے لوگوں کی ہے
غیرت ان کی نا معلوم سی ہے
فقط اتنا گلہ ہے تم سے
تمہاری پکار پر افسردہ ہیں تب سے
کاش اس چمن میں تم آئی نہ ہوتیں
حیرت ہے اس بن قاسم پر
نہ جانے کہاں سے غیرت اس نے لائی ہو گی
کاش اس چمن میں تم آئی نہ ہوتیں…

حصہ