کتابوں سے دوستی

336

ارم فاطمہ
مراد حسن ملک کے ممتاز مصنف تھے۔ انہوں نے بچوں کے لیے بہت بہترین کہانیاں لبات ہے عاباکھی تھیں جنہیں سبھی بچے بہت شوق سے پڑھتے تھے۔ انہوں نے اپنے گھر میں ایک لائبریری بھی بنا رکھی تھی۔ انہیں کتابوں سے بہت محبت تھی۔ ان کے دو بچے تھے۔ عادل اورنمرہ۔۔
نمرہ کو کتابیں بہت پسند تھیں اور وہ بہت شوق سے پڑھتی تھی۔ عادل کو کتابوں سے زیادہ کمپیوٹر اور گیمز میں دلچسپی تھی۔ اکثر ایسا ہوتا وہ اسے کہتی آؤ میں تمہیں ایک اچھی سی کتاب پڑھ کرسناتی ہوں۔جس سے نہ صرف تم اچھی باتیں سیکھو گے بلکہ تمہارے علم میں بھی اضافہ ہوگا۔ کچھ وقت کے لیے تم کمپیوٹر سکرین سے بھی ہٹو گے۔
عادل نے برا سا منہ بنایا اور کہنے لگا ” تم جانتی ہو مجھے کتابوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کو دیکھتے ہی میرے سر می درد ہوتی ہے۔میں اپنی کورس کی کتابیں ہی بہت مشکل سے پڑھتا ہوں۔میرے پاس ان کتابوں کے لیے وقت نہیں۔ نمرہ کہنے لگی “بہت افسوس کی بات ہے عادل ایسے نہیں کہتے۔
اگلے ہفتے سے ان کے اسکول میں تقریری مقابلے شروع ہورے تھے۔نمرہ بہت محنت سے تیاری کررہی تھی۔ اسے ان مقابلوں میں حصہ لینا بہت پسند تھا۔ اس نے بہت سے مفابلے جیتے تھے۔سارا سکول اس کی اور اس کے والد کی بہت ستائش کیا کرتے تھے۔ اسے پوری امید تھی اس بار بھی وہ سکول کے لیے ٹرافی ضرور جیتے گی۔
مقابلے والے دن سبھی سکول بھرپور تیاری سے آئے تھے۔ بہت سخت مقابلہ تھا۔موضوع تھا ” علم سے ہے عزت”
جب نمرہ کی باری آئی تواس نے تاریخ ادب سے ایسے مشہور لوگوں کے حوالے دیے جن کی کتابوں اور باتوں سے کتنے ہی انسانوں کی زندگی بدل گئی تھی۔ اس نیاپنی بات کومثالوں سے ثابت کیا کہ دنیا کے کامیاب انسان صرف علم اور کتابوں سے محبت کی وجہ سے دنیا میں ہمیشہ یاد رکھیں جائیں گے۔
مولانا روم کی شاعری ہو یا شیخ سعدی کی حکایات، ارشمیدس کے سائنسی اصول ہوں یا زندگی سے قریب کرتے شکسپئر کے ڈرامے، ان سبھی کتابوں سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔کتابیں ہمیں علم دیتی ہیں،ادب سکھاتی ہیں، ہماری تربیت کرتی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ انبیاء کی دولت ہے۔قرآن میں علم والوں کو سب سے بلند درجے پر رکھا گیا ہے۔
سارا حال نمرہ کی بہترین تقریر پر تالیوں سے گونج رہا تھا۔ سکول کے بچے پرجوش تھے۔ انہیں یقین تھا پہلا انعام ان کے سکول کو ہی ملے گا۔جب منصفین نے پہلے انعام کے لیے نمرہ کا نام پکارا توسبھی بچے بہت جوش سے مسکراتے ہوئے تالیاں بجا رہے تھے۔ان کے بیچ میں بیثھا عادل دل میں بہت فخر محسوس کر رہا تھا۔ اسے اندازہ ہورہا تھا کہ نمرہ نے یہ مقابلہ اپنی قابلیت اور کتابوں سے محبت کی وجہ سے جیتا ہے۔
نمرہ نے مسکراتے ہوئے ٹرافی اس کی آنکھوں کے سامنے لہرائی اور کہنے لگی ” کیا خیال ہے چھوٹے بھائی !
” اب تو تم مانتے ہوکتابوں کو پڑھنے سے کتنا فائدہ ہوتا ہے اور بہت سی باتیں پتا چلتی ہیں جنہیں سب میں بانٹا جاسکتا ہے۔
میرے خیال سے اب تمہیں کتابوں سے دوستی کرلینی چاہیے۔کتابیں بہترین دوست ہوتیں ہیں۔”
عادل نے مسکراتے ہوئے سر ہاں میں جھکا دیا۔

بات یہ ہے۔۔۔۔

عبدالرحمن مومن

خودی بلند تھی اس خوں گرفتہ چینی کی
کہا غریب نے جلاد سے دم تعزیر
ٹھہر ٹھہر کہ بہت دل کشا ہے یہ منظر
ذرا میں دیکھ تو لوں تابناکی شمشیر

کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ کسی چینی باشندے پرقتل کا جُرم ثابت ہوا اور جب وہ اس کی سزا پانے لگا تو اس نے جلاد سے کہا:’’ ذرا ٹھہر جائو، میرے موبائل کا کیمرا بہت بلندپایہ ہے۔ اس شمشیر کے ساتھ جس سے مجھے قتل کیا جائے گا،میں ایک ’’سیلفی‘‘ لینا چاہتا ہوں‘‘۔اگر آج کی بات ہوتی تو شاید ایسا ہی ہوتا۔ آج کے نوجوان نے خودی کا مطلب ’’سیلفی‘‘ سمجھ لیا ہے۔
علامہ اقبال اس مصرعے میں یہ بتارہے ہیںکہ ایک چینی باشندے کو قتل کی سزا ملنے والی تھی۔ جب سزا کا وقت ہوا تو اس نے جلاد سے کہا:’’ ذرا ٹھہر جا! مجھے یہ نظارہ بہت پیارا لگ رہا ہے۔ ذرا تیری تلوار کی چمک دَمک دیکھ لوں‘‘۔ اقبال کہتے ہیں کہ اس ہمت اور بے خوفی سے اس چینی باشندے کی خودی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اللہ ہمیں بھی اقبال کے تصورِ خودی سے آشنا کر دے (آمین)

حصہ