رسا چغتائی۔۔۔ ایک عہد رخصت ہوا

731

خالد معین
رساصاحب نوجوان نسل سے ایک خاص دلی، ادبی اور تخلیقی تعلق رکھتے تھے۔ مشاعروں میں نوجوانوں کو بڑی توجہ سے سنتے۔ جو نوجوان اُن سے ملتا، وہ اُن کی درویشی، شرافت اور انکسار سے متاثر ہوتا۔ جو شخص اُن سے ملنے اُن کے گھر پہنچ جاتا، گویا ہمیشہ کے لیے آنے جانے کا رشتہ بنا لیتا، اور اس حسن ِ عمل، تعلق داری اور شفقت میں رسا صاحب مرکزی کردار ادا کرتے۔ مشاعروں اور دیگر ادبی تقریبات میں شرکت کے لیے بھی کوئی ناز، کوئی نخرا روا نہ رکھتے، جو بھی عزت اور محبت سے مدعو کرتا، جانے کے لیے راضی ہوجاتے۔ رسا صاحب کے جانے سے کراچی کے مشاعروں میں صدارتی بحران بڑھ جائے گا، کیوں کہ کراچی کے تمام منتخب مشاعروں کی صدارت رسا صاحب ہی کرتے تھے۔ رسا صاحب کی شاعری میں ڈکشن، اسلوب اور موضوع سے کچھ سوا جادوگری بھی ہے، یہ جادوگری اُن کی شخصیت میں بھی تھی۔ بہ ظاہر وہ بڑے کم سخن، لاپروا اور بے نیازی کی کیفیت میں رہتے، تاہم مجھے کبھی کبھی محسوس ہوتا کہ ہجوم کے درمیان اندر ہی اندر کسی سلسلۂ کلام سے جڑے رہتے تھے۔ اسی لیے اُن کی شاعری میں حرف و بیاں سے ماورا بھی ایک تحیر انگیز شے تھی، اور اُسے خالص شاعری کی لہر اور خالص شاعری کی تیز خوشبو ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ رسا صاحب نے میر، غالب، مومن، داغ، فراق، یگانہ اور اسی قبیل کے دیگر شعرا سے کسب ِ فیض کیا، اگرچہ اس ترتیب و تہذیب میں خود اُن کے دو اہم ہم عصر جون ایلیا اور انور شعور بھی ہیں، تاہم رسا صاحب نے ان دونوں اہم شعرا کی موجودی میں اپنی گہری انفرادیت کو کبھی ماند نہ پڑنے دیا۔ حیرت ہے کہ اُن کے بعض ہم عصر اُنہیں مہمل شاعر قرار دیتے رہے لیکن رسا صاحب کی شاعری میں اتنی سادہ بیانی ہے کہ مہمل ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ اپنی شاعری کو اضافتوں کے غیر ضروری بار سے بھی بچا کے رکھتے تھے۔ اس لیے اُن کا مصرع سلیس، رواں دواں اور اپنے مکمل معنی دیتا ہوا دوسرے مصرع کی معنویت کو بڑھاتا ہوا، شعر بنتا ہے اور شعر کے حسن کو دوچندکرتا ہے۔
رساصاحب نے تقریریں کم کیں، نثر بھی کم کم لکھی، عام طور پر وہ کم سخنی کو اوڑھے رہتے، تاہم کبھی کبھی وہ مکالمے پر آمادہ ہوتے تو بڑے کام کی باتیں کرتے۔ یہ باتیں فن اور فن کی گہرائی کے نئے امکانات کو سامنے لاتیں۔ ایک بار کسی مشاعرے میں ساتھ جاتے ہوئے، اُنہوں نے کئی بار احمد فراز کی مشہور غزل ’یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں‘ کے چند شعر دہرائے، تعریف کی اور ان پر بات بھی کی۔ ایک شعر:

سنا ہے دن میں اُسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات میں جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

بار بار دہرایا اور کہا ’’دیکھو کس غضب کا شعر کہا ہے فراز نے، میں جب ایسے شعر کسی اور کے یہاں دیکھتا ہوں تو مجھے بڑا رنج ہوتا ہے کہ یہ شعر میں نے کیوں نہیں کہا‘‘۔ یہ کہتے جاتے اور شعر دہراتے جاتے۔ ابھی تو بڑا رنج سا بکھرا ہوا ہے اندر باہر، ابھی تو بڑی گہری اُداسی ہے، چشم ِ نم نے سب کچھ دھندلا دیا ہے۔ منظر کچھ شفاف ہو تو رسا صاحب کی اور یادیں اور باتیں کسی ترتیب میں آسکیں۔ مجھے انتہائی افسوس ہے کہ میں رسا صاحب کی زندگی میں اُن پر کچھ نہ لکھ سکا، اگرچہ میرا لکھا ہی کیا، اُس کی اہمیت ہی کیا! مگر دل چاہتا تھا کہ رسا صاحب سے تین چار بار لمبی نشستیں کی جائیں اور اُن کی زندگی کے اہم واقعات ریکارڈ کیے جائیں، اُن سے کچھ ایسی باتیں پوچھی جائیں جو کسی اور نے نہ پوچھی ہوں، مثلاً اُس زلف کے بارے میں، جو بار بار اُن کی شاعری میں در آتی ہے، اُس گھر کے درو بام پر بات کی جائے، جہاں اُنہوں نے اپنا بچپن اور نوجوانی گزاری۔ اُس بستی کا احوال جانا جائے جہاں وہ اپنے خواب بو کے چلے آئے۔ اُس گلی کی یادوں کے بارے میں کچھ سوال کیے جائیں، جو عمر کے آخری دور تک اُن کے ساتھ ساتھ چلی، شاعری میں ہجرت کے مختلف رنگوں کی بابت پوچھا جائے… وہ ہجرت جو عام شعرا کی ہجرت اور اُس کی کرب ناکی کے بجائے ایک اُداسی اور ایک ملال کی صورت بار بار اُن کے اشعار میں جلوہ گر ہوتی رہی۔ اُس انتظار کے بارے میں جس نے اُنہیں سراپا بہار بنائے رکھا۔ اُس درویشی، اُس اندر باہر کی بے پناہ سرشاری کے بارے میں پوچھا جائے، جو اُنہیں قدرت سے تحفتاً ملی۔ لیکن زندگی پر طاری بے کار کی بھاگ دوڑ نے رسا صاحب سے اس مکالمے کی مہلت ہی نہ دی، اور یہ ملال زندگی کی آخری سانس تک رہے گا۔ چلیں اس ملال کو سر ِدست تو کچھ کم کریں اور رسا صاحب کے کچھ شان دار اور منتخب اشعار دہراتے ہیں، جو اُن کے شعری مجموعوں ’’ریختہ‘‘، ’’زنجیر ِ ہمسائیگی‘‘، ’’تصنیف‘‘، ’’تیرے آنے کا انتظار رہا‘‘، ’’چشمہ ٹھنڈے پانی کا‘‘ سے لیے گئے ہیں:

زلف کھلتی ہے تو اٹھتا ہے دھواں
آبشارِ چشمِ تر کے آس پاس
چھوڑ آیا ہوں متاعِ جاں کہیں
غالباً اُس رہ گزر کے آس پاس
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسمِ بہار رہا
ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں
میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو
میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں
وہ پہروں آئینہ کیوں دیکھتا ہے
مگر یہ بات میں کیوں سوچتا ہوں
رات ہے یا ہوا مکانوں میں
جل رہا ہے دیا مکانوں میں
جانے کیا ہو گیا مکینوں کو
جانے کیا ہو گیا مکانوں میں
آدمی کس کمال کا ہو گا
جس نے تصویر سے نکالا مجھے
اور پھر یوں کہ بچوں نے
چھینا جھپٹی میں توڑ ڈالا مجھے
یاد ہے آج بھی رساؔ وہ ہاتھ
اور روٹی کا وہ نوالا مجھے
جب بھی تیری یادوں کا سلسلہ سا چلتا ہے
اک چراغ بجھتا ہے، اک چراغ جلتا ہے
شرط غم گساری ہے ورنہ یوں تو سایہ بھی
دور دور رہتا ہے، ساتھ ساتھ چلتا ہے
زلف اُس کی ہے، جو اُسے چھو لے
بات اُس کی ہے جو بنا لے جائے
تیغ اُس کی ہے، شاخِ گُل اُس کی
جو اُسے کھینچتا ہوا لے جائے
یوں تو اُس کے پاس کیا نہیں، پھر بھی
ایک درویش کی دعا لے جائے
ہاتھ میں خنجر آ سکتا ہے
یا پھر ساغر آ سکتا ہے
خواب میں آنے والا اک دن
خواب سے باہر آ سکتا ہے
مٹی ہجرت کر سکتی ہے
دریا چل کر آ سکتا ہے
رات ہم نے جہاں بسر کی ہے
یہ کہانی اُسی شکر کی ہے
یہ ستارے کہاں سے آئے ہیں
یہ تو دہلیز میرے گھر کی ہے
میرے کچے مکان کے اندر
آج تقریب چشمِ تر کی ہے
ہجر کی شب گزر ہی جائے گی
یہ اُداسی تو عمر بھر کی ہے
انہی بنتے بگڑتے دائروں میں
وہ چہرہ کھو گیا ہے درمیاں سے
زمیں اپنی کہانی کہہ رہی ہے
الگ اندیشۂ سود و زیاں سے
صرف مانع تھی حیا بندِ قبا کھلنے تلک
پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا، ایسا کھلا
باہر ایک تماشا ہے
اندر کی حیرانی کا
پہلی آندھی موسم کی
پہلا سال جوانی کا
کام لیا میں حکمت سے
عذر کیا نادانی کا
گرمی اُس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
ترکِ عشق کو کیا کہیے
عشق اگر نادانی ہے
شاخ َ بدن سے لگتا ہے
مٹی راجستھانی ہے

حصہ