پاناما کیس

325

قدسیہ ملک
1۔موضوع کا تعارف(Introduction):
اس تحقیق میں پانامہ کیس کے تناظر میں روزنامہ جنگ اور روزنامہ جسارت کے خبروں کے صفحے کا جائزہ لے کر تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس تحقیق کو جولائی (یکم تا31 جولائی2017ء) پر محیط رکھا گیا ہے۔ اس تحقیق میں اس ماہ کا انتخاب کرنے کی وجہ پانامہ کیس ہے۔ پاکستان میں ایک برس قبل وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن، حسین کے نام سامنے آئے تھے۔ اُس وقت سے یہ معاملہ ملکی سیاسی منظرنامے پر چھایا ہوا ہے۔ اس کیس کے غلط دفاع کے نتیجے میں وزیراعظم پاکستان نااہل قرار دئیے جاچکے ہیں۔ 1
1b۔ عنوان (Research Title):
’’عدالتی احکامات (پانامہ کیس) کے تناظر میں’’روزنامہ جنگ‘‘ اور ’’روزنامہ جسارت‘‘ کے خبری صفحات کا تقابلی جائزہ (Comparative Study) یکم جولائی تا 31جولائی2017ء
2۔پانامہ لیکس پر تحقیق کا مقصد: (Objectives)
سیاسی بدعنوانی ناجائز ذاتی فوائد کے لئے حکومت کے اہلکاروں کا طاقت کا غلط استعمال ہے۔ کرپشن کا لفظ خراب، ٹوٹے ہوئے، عیبی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، مشہور فلسفی ارسطو اور بعد میں سسرو نے اسے بدعنوانی کے معنوں میں استعمال کیا۔ یعنی رشوت لینا، اپنے اختیارات کا نا جائز فائدہ اٹھاکر کسی دوسرے کا وہ کام کرنا جس کا وہ اہل نہیں ہے۔ کرپشن یعنی بدعنوانی کا لفظ آج کل سیاست میں بہت زیادہ استعمال کیا جانے لگا ہے۔ بد عنوانی کے مختلف پیمانے ہیں۔ نچلی سطح سے لے کر حکومتی بلکہ بین الاقوامی سطح تک اس بد عنوانی کی جڑیں پھیل چکی ہیں بین الاقوامی معاملات میں بھی اس کے شواہد ملتے ہیں۔ چھوٹی موٹی بد عنوانیوں میں نوکری پیشہ افراد اپنے افسران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے موقع بے موقع تحائف پیش کرتے رہتے ہیں۔ یا پھر ذاتی تعلّقات سے کام لے کر اپنے چھوٹے چھوٹے کام نکلوا لیتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر بد عنوانی حکومتی عہدے داروں تک جاپہنچتی ہے۔ بڑے بڑے ٹھیکے منظور کروانا مختلف اہم اور ذمّہ داری والے کاموں کے لا ئسنس حاصل کرنا۔ ایسی اشیاء کے لا ئسنس حاصل کرنا جس کی مانگ زیادہ اور ترسیل میں کمی ہو، جس کی ذخیرہ اندوزی کرکے منہ مانگے پیسے وصول کرنا۔ بڑے بڑے عہدوں پر یا حکومتی شعبوں میں ملازمت حاصل کرنے یا مہیّا کرنے پر بھاری رشوت کا لین دین کرنا یہ سب بڑے پیمانے کی بد عنوانیوں میں شامل ہے۔ حکومتی محکموں میں پبلک کے ٹیکس کا پیسہ جو مختلف ترقّیاتی، فلاحی اور اصلاحی کاموں کے لئے مختص ہوتا ہے اس کے ذمّہ داران خرد برد کرکے اس فنڈ کا ایک بڑا حصّہ ہضم کرجاتے ہیں۔
پانامہ کیس کا فیصلہ آچکا ہے عوام کے ووٹ سے دوتہائی اکثریت حاصل کرنے والے جمہوری وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا جاچکا ہے اور آج ایک بار پھر ٹی وی اسکرین پر مٹھائیوں کے مناظر دکھائے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی مکمل سیاسی تاریخ کا تجزیہ کرنا ممکن نہیں b2 البتہ کرپشن کے بارے میں کچھ ٹھوس ثبوت اس کے سہولت کار، اس سے وابستہ افراد کی نشاندہی کی جاسکتی ہے، یہی تحقیق کا مقصد بھی ہے۔
پاکستانی وزراء اعظم اور کرپشن:
پاکستان میںستر برسوں میں 23 سویلین وزیراعظم آئے چھ وزراء اعظم نگران اور 17 باقاعدہ وزیراعظم بنیان وزراء اعظم میںسے کوئی اپنی مدت پوری نہیںکرسکا خان لیاقت علی خان چار سال وزیراعظم رہے راولپنڈی میں شہید کردیئے گئے، خواجہ ناظم الدین دو سال وزیراعظم رہے، ہٹا دیئے گئے اورباقی زندگی مشرقی پاکستان میںگم نامی میںگزاردی، محمد علی بوگرہ سال سال کے دورانیے میں دوسال وزیراعظم رہے، ہٹا دیئے گئے اور خاموشی سے ڈھاکہ میں فوت ہوگئے، چودھری محمد علی ایک سال وزیراعظم رہے ہٹا دیئے گئے اور باقی زندگی مسرت میں گزاردی، حسین شہید سہروردی ایک سال وزیراعظم رہے، ہٹا دیئے گئے، اسماعیل چندریگر دوماہ وزیراعظم رہے، ہٹا دیئے گئے، فیروزخان نون دس ماہ وزیراعظم رہے، ہٹا دیئے گئے نور الامین تیرہ دن کے لئے وزیراعظم رہے، ہٹا دیئے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو پہلے تین سال سات ماہ وزیراعظم رہے، پھر چار ماہ کے لئے وزیراعظم بنے، ہٹائے گئے اور پھانسی چڑھا دیئے گئے، محمد علی جونیجو اڑھائی سال وزیراعظم رہے، ہٹا دیئے گئے اور۔ بے نظیر بھٹو دو بار وزیراعظم بنیں دونوں بار اڑھائی اڑھائی سال بعد ہٹا دی گئیں، جلاوطن رہیں اور آخر میں شہید ہو گئیں، میاں نواز شریف دو بار وزیراعظم بنے، دونوں بار اڑھائی اڑھائی سال بعد ہٹا دیئے گئے، جلا وطن ہوئے واپس آئے تیسری بار وزیراعظم بنے اور ہٹائے جا رہے ہیں، میرظفر اللہ جمالی واحد بلوچ وزیراعظم تھے، پونے دو سال بعد ہٹا دیئے گئے، شوکت عزیز تین سال وزیراعظم رہے، یوسف رضا گیلانی چار سال وزیراعظم رہے، ہٹا دیئے گئے، عدالتوں میں کیس بھگت رہے ہیں اور راجہ پرویز اشرف آٹھ ماہ وزیراعظم رہے، یہ بھی اس وقت نیب کے مقدمات بھگت رہے ہیں ۔
3۔ فرق تحقیق(Research Gap)
پاکستانی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرتا، یا ہٹایا جاتا ہے اور یا ہٹائے جانے کے بعد عبرت اور مایوسی کی زندگی گزارتا ہے۔ ہمارا ہر وزیراعظم عدالتوں میں دھکے ضرور کھاتا ہیں اوریہ دھکے کھاتے کھاتے آخر میں گمنامی میں مر جاتا ہے اورملک کے17وزراء اعظم میں سے گیارہ انتقال کر چکے ہیں۔ 4 ایسی بہت سی تحقیقات بیرون ممالک میں کرپشن سامنے آنے پر ہوئیں ہیں لیکن ہمارے ملک پاکستان میں جو کہ اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اسلام کے نزدیک حرام کھانے والوں کی جتنی وعید آئی ہے، ہم سب واقف ہیں۔ اب تک اس موضوع پر کوئی واضح تحقیق سامنے نہیں آئی۔ یہی مقاصد سامنے رکھ کر یہ تحقیق کی گئی اور پانامہ لیکس کو موضوع بنایا گیا۔
4۔ مقصد تحقیق (Research Questions):
تحقیق کو سرانجام دیتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات پیش نظر رکھے جائیں گے۔
1۔ جنگ اور جسارت کے قاری کیسا مواد پڑھنا پسند کرتے ہیں؟
2۔ پانامہ کیس کے تناظر میں دونوں اخبارات کاکیاموقف ہے؟
3۔ جنگ اخبار حکومتی حمایت کو کس قدر اہمیت دیتاہے؟
4۔ دونوں اخبارات عدالتی احکامات کو کس نظر سے شائع کرتے ہیں۔ کس خبر کو اہمیت دیتے ہیں؟
5۔ دونوں اخبارات معروضیت و غیر جانب داری کے ساتھ اپنے قاری تک پہنچانے میں حق بجانب ہیں۔
5۔ تحقیق کاطریقہ کار: (Methodology)
پاکستان کے ایک اہم اخبار”روزنامہ جنگ” اور دوسرا نظریاتی اخبار “روزنامہ جسارت” کے خبری صفحے پر تجزیے سے قبل چند نکات کی وضاحت ضروری ہے۔ تحقیق کے لئے جس طریقہ کار کا انتخاب کیا گیا ہے اسے”تجزیہ مشتملات” (Content analysis) کہتے ہیں۔ تحقیق کے اس طریقہ کار میں محفوظ شدہ مواد اداریوں، کالموں، ویڈیوز، خبروں کو لیا جاتا ہے اور پھر موجود اور ثابت شدہ حقائق کی روشنی میں مواد کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ تحقیق کا یہ طریقہ کار ناصرف دلچسپ ہوتا ہے بلکہ ٹھوس حقائق پر مبنی بھی ہوتاہے۔ اس کے علاوہ یہ معروضی (Objective) اور منظم (Systematic) طریقہ کار بھی ہے۔
6۔ تجزیے کی اکائی (Unit Of analysis):
تجزیے کی اکائی ایک لفظ، ایک جملہ، ایک پیراگراف بھی ہوسکتاہے۔6 اس تحقیق میں چونکہ پانامہ لیکس پاکستان میں شوازشریف کے بچوں حسن، حسین اور مریم سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹس اور عدالتی احکامات ہیں۔ اسی لئے اس تحقیق میں بطور تجزیے کی اکائی (Unit Of analysis) کے لفظ جے آئی ٹی، مریم، حسن و حسین کے نام اور عدلیہ عظمیٰ ہیں۔ یعنی جن خبروں میں نوازشریف کے بچوں کے نام پانامہ و جے آئی ٹی رپورٹس کے تناظر میں دئیے جائیں گے وہ خبر تحقیق کا حصہ شمار ہوگی۔
7۔مفروضہ (Hypothesis):
مفروضہ یہ ہے کہ”روزنامہ جنگ” خبری صفحے پر محتاط انداز کے ساتھ خبروں میں اپنی آراء بھی پیش کرتا ہے جبکہ “روزنامہ جسارت” میں حکومتی موقف کی بجائے بے باکی سے معروضیت کے ساتھ خبریں پہنچائی جاتی ہیں۔ اس اخبار (جسارت) کی بیشتر خبروں میں حکومتی پالیسیوں پر شدید نکتہ چینی کی جاتی ہے۔
8۔ اخبارات کا تعارف: (Introduction)
پاکستان کے دو اہم اخبارات کے خبری صفحات کا تجزیہ کرنے سے پہلے ان اخبارات کا پس منظر اور تعارف ایک اہم امر ہے۔ اس تعارف کے ذریعے ہمیں ان دونوں اخبارات کی پالیسیوں کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔
٭۔ روزنامہ جنگ:۔
روزنامہ جنگ1939ء میں دہلی سے میر خلیل الرحمٰن اور ان کے دادا عشرت کے مشترکہ انتظام میں شام کے اخبار کے طور پے شائع ہوا۔ اس وقت اس کے مدیربخاری غلام بنی تھے۔ اس کا پہلا شمارہ دو مضامین پر مشتمل تھا۔ اس میں دوسری جنگ عظیم سے متعلق خبریں تھیں۔ بقول الیاس رشیدی” میر صاحب نے جنگ کے زمانے میں لفظ جنگ کی مقبولیت و شہرت کا فائدہ اٹھا کر ایک اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اسی بناء پر اس کانام “جنگ” رکھا 7 آغاز میں “جنگ” کانگریس کا حامی تھا۔ 7b
اس اخبار میں ایک تاثر عام ہے کہ اس میں اشتہارات کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ تاہم اس میں سنجیدہ مطالعہ کا مواد بھی پایا جاتا ہے۔ اخبار کے نامہ نگار بیرون ممالک سے نامہ نگار بھیجتے رہے جو ادب صحافت میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ تاہم ان کی رپورٹوں میں سنسنی خیزی اور تفریح کا عنصر غالب تھا۔ 8
٭۔ روزنامہ جسارت:
روزنامہ جسارت 1969ء کو ملتان سے جاری ہوا۔ ملک کا معتبر اور نظریاتی اخبار ہے۔ اس کے پہلے ایڈیٹر ممتاز ادیب و دانشور اردو ڈایجسٹ لاہور کے مدیر الطاف حسین قریشی تھے۔ ان کی پشت پر جماعت اسلامی کی تنظمی قوت و سرمایہ تھا۔ جسارت اخبار کے اجراء کا واحد مقصد اسلامی اقدار، نظریہ پاکستان کی تبلیغ اور سوشلزم کا مقابلہ تھا۔
عام طور پر جسارت کبھی بھی کثیر الاشاعت نہیں رہا۔ مگر بعض ادوار میں جہاں جسارت نے حکومت سے ٹکرلی وہیں اس کی اشاعت میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ 1972ء کی اردو تحریک کے دنوں میں اخبار کی اشاعت ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ جسارت کے نظریات سے شدید مخالفت رکھنے والے بھی اس بات کا تسلیم کرتے ہیں کہ اس کی پالیسی صرف اداریوں میں نظر آتی ہے جبکہ خبروں کے معاملے میں اخبار نے آزاد روزنامے کا کردار ادا کیاہے۔ جسارت ہر دور میں حکومت وقت کی”عنایتوں” کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ بھٹو کے دور سے لے کر نواز شریف کے دور تک یہ اخبار سرکار کے زیرعتاب رہا۔ تاہم ہرقسم کی پابندی کے باوجود یہ اخبار مسلسل چل رہاہے۔
9۔ روزنامہ جنگ و روزنامہ جسارت کے یکم جولائی تا 31جولائی2017ء کی خبریں:
روزنامہ جنگ2017ء روزنامہ جسارت2017ء
٭یکم جولائی2017ء
چئیرمین ایس سی پی اور افسران کی جے آئی ٹی میں پیشی
٭ 2جولائی2017ء
پانامہ کیس: جے آئی ٹی کے پاس 8 دن رہ گئے، طارق شفیق آج پیش ہوں گے۔
٭ 3 جولائی2017ء
پاکستان میرا دائرہ اختیار نہیں، دوحہ آکرخط تصدیق کرالیں، قطری شہزادے کی جے آئی ٹی کو تیسری دعوت
٭4 جولائی2017ء
جے آئی ٹی نے اسٹیٹ بنک سے شریف خاندان کی کمپنیوں کا ریکارڈ مانگ لیا۔
٭ 5جولائی2017ء
جے آئی ٹی 6 جولائی کو شہزادہ کا بیان ریکارڈ کرئے گی
٭ 6 جولائی 2017ء
سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی معاملات کی دیکھ بھال آئی ایس آئی کو کرنے کا حکم دیدیا۔
٭7جولائی2017ء
پانامہ کیس: جے آئی ٹی نے حتمی رپورٹ مرتب کرنا شروع کردی
٭ 8 جولائی2017ء
میرے پاس آئین پاکستان عدالتی اختیارات پر بات نہیں ہوگئی، قطری شہزادے کا جے آئی ٹی کو جواب
٭ 9جولائی2017ء
قطری بیان کے بغیرجے آئی ٹی رپورٹ منظورنہیں، وزیراعظم
٭ 10 جولائی 2017ء
انتظار ختم جے آئی ٹی رپورٹ آج پیش
جے آئی ٹی نیوزیراعظم کو نہیں ان کے بیٹوں کو قصور وار پایا
٭ 11 جولائی 2017ء
شریف فیملی کے اثاثے آمدن سے زیادہ۔
جے آئی ٹی پرحتمی فیصلہ عدالت عظمیٰ کرے گی
٭ 12 جولائی 2017ء
جنگ کا حکومت حمایتی تجزیہ
٭ 13 جولائی 2017ء
نواز شریف کی کوئی آف شورکمپنی نہیں جے آئی ٹی نے عدالت کوگمراہ کیا (تجزیہ)
٭ 14 جولائی 2017ء
بیٹے اور اس کی کمپنی نے نواز شریف کو ایک ارب کے تحائف دیئے، جے آئی ٹی
٭ 15 جولائی 2017ء
جے آئی ٹی میں گواہوں کے لگائے گئے سنگین الزامات کا ذکر نہیں کیا گیا
٭ 16 جولائی 2017ء
جے آئی ٹی رپورٹ موسٹ لائیک لی اور اٹ سینز پر مشتمل ہے، ن لیگ (تجزیہ)
٭ 17 جولائی 2017ء
سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کے انجام کا آغاز آج سیفر یقین کی اپنی اپنی امیدیں
(جاری ہے)

حصہ