میڈیکل کالجز اور عدالتِ عظمیٰ کا نوٹس

375

افشاں نوید
کہنے کو ایک خبر ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے نئے میڈیکل کالجز کھولنے، نیز موجودہ پرائیویٹ کالجز میں نئے داخلوں پر فی الفور پابندی لگادی ہے۔
اس خبر کے سماج پر کتنے اثرات ہوں گے، کتنے گھرانے متاثر ہوں گے، نیز یہ کہ ایسے اقدامات اچانک کس طرح اٹھائے جاتے ہیں؟ میڈیکل کالجز ایک دو برس میں تو نہیں بن گئے، اور جب ان کی رجسٹریشن کی گئی تو مطلوبہ تمام امور کا جائزہ کیوں نہ لیا گیا؟ تب اجازت کیوں دی گئی اور اب یکلخت یہ خیال کیوں کر آیا کہ یہ پیسہ بنانے کی منڈیاں ہیں، یہ انسانی صحت کے ساتھ مذاق ہے، یہ سب غیر قانونی ہے! طرفہ تماشا یہ ہے کہ امریکا و یورپ میں اپنی ضروریات کے مطابق میڈیکل کالجز ہیں، جبکہ ہمارے ہاں چوک چوراہوں پر میڈیکل کالجز بن گئے۔
ہمارے سماج کے اجزائے ترکیبی بھی بہت خاص بلکہ خاص الخاص ہیں۔ مثلاً کراچی میں اربوں روپے کی مالیت سے تعمیر شدہ کئی منزلہ عمارتیں اور شادی ہال گرائے جارہے ہیں۔ کہنے کو بڑی کارروائی ہے اور جگہ جگہ مٹی، اینٹوں کے اس ملبے سے گزرتے ہوئے بے اختیار دل کہتا ہے ’’قانون تجھے سلام‘‘۔ لیکن یہ کیسا قانون ہے جو درمیان کے کسی مرحلے میں حرکت میں نہیں آتا! یہ عمارتیں سالہا سال بنتی رہیں۔ چائنا کٹنگ کوئی ایک رات میں نہیں ہوگئی۔ شہر بھر کے پارکوں پر قبضے ہوئے، سب نے دیکھے، اور قبضہ کرنے والوں میں قانون کے رکھوالے بھی شامل تھے۔ اب یکدم خیال آیا کہ چائنا کٹنگ اور ناجائز قبضوں والی زمینیں واگزار کرائی جائیں گی۔ اقدامات ہوتے بھی ہیں تب بھی قانونی تقاضے پورے نہیں کیے جاتے، مثلاً جو غریب بے وجہ زد میں آگئے، جن کے ساتھ دھوکا ہوا اُن کی تلافی کون کرے گا؟ اب اگر میڈیکل کالجز لوٹ کھسوٹ کے اڈے ہیں تو جن کو لوٹ لیا گیا اُن کی تلافی کون کرے گا؟ اگر ان کی ڈگریاں معتبر نہیں تو وہ بچے جنہوں نے کئی سال زندگی کے یہاں برباد کیے، وہ والدین جنہوں نے نہ معلوم کیا کیا بیچ کر اور گروی رکھ کر ان بچوں کو تعلیم دلوائی، ان کے خواب چھیننے کا ہرجانہ کون ادا کرے گا؟ کیا وہ ڈاکٹر عاصم جو PMDC میں آئے تو 3 برس میں انہوں نے 97 میڈیکل کالجز کھلوا دیے! بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ یہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز جو پچاس لاکھ اور اس سے زائد رقم لے کر ڈاکٹر بنارہے ہیں یہ کس نے قائم کیے؟ کس کی ایما پر قائم ہوئے؟ کیوں قائم ہوئے؟ ہمارے معاشرے کے غریب والدین کے پاس اتنا سرمایہ کہاں سے آگیا کہ ایک بچے کی تعلیم پر وہ پچاس ساٹھ لاکھ روپے پانچ برس میں خرچ کردیں! لڑکے تو پھر کماکر والدین کا بوجھ اتار دیں گے، لڑکیاں تعلیم کے اختتام پر یا دورانِ تعلیم ہی پیا کے دیس سدھار جاتی ہیں، پھر والدین کو کیا فائدہ اتنی مہنگی تعلیم دلانے کا؟ دوسری جانب اس منافع بخش کاروبار کو فروغ دینے کا۔ واضح رہے کہ میڈیکل کالج بنانا اس وقت پاکستان میں سب سے منافع بخش کاروبار ہے۔
ایک قدم پیچھے آئیے۔ سماج کو کیسے بدلا گیا اس کا جائزہ لیجیے۔ ابھی آپ کا بچہ اسکول میں ہوتا ہے۔ چودہ، پندرہ برس کی عمر میں اُس کے سامنے سوال آتا ہے کہ اسے کیا بننا ہے۔ جب وہ نویں کلاس کا بورڈ کا فارم فِل کررہا ہوتا ہے، کتنی چوائس ہوتی ہیں اس کے پاس؟ صرف دو چوائس کہ کمپیوٹر سائنس لینا ہے یا بیالوجی۔ اور سائنس کا لازمی مطلب یہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر بننا ہے یا انجینئر۔ میٹرک سائنس سے پاس کرنے والے بچے کو یہ پتا ہے کہ وہ مستقبل کا ڈاکٹر ہے یا انجینئر۔ کیا سائنس پڑھنے والے ریاضی کے شعبے میں نہیں جاسکتے؟ میرین بیالوجی پڑھ کر قوم کی خدمت نہیں کرسکتے؟ جغرافیہ یا نباتیات پڑھ کر مستقبل میں کوئی پیشہ نہیں اپنا سکتے؟ کیا کیمسٹری اور فزکس جیسے مضامین میں آگے تحقیق کرکے ملک و قوم کے لیے کچھ نہیں کرسکتے؟
ہمارے ہاں سائنس پڑھنے کا تصور ہی ڈاکٹر یا انجینئر بنانا ہے۔ گیارہویں جماعت کے کسی بچے کو کوئی استاد کلاس روم میں نہیں بتاتا کہ ملک کو کن کن شعبوں میں تحقیق کاروں کی ضرورت ہے۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے، ایک طرف بلوچستان کے پہاڑ اور کانیں ہیں تو دوسری طرف سمندر اور دریائی زمین۔ ہم تحقیق کے شعبوں میں جاکر اپنے ملک کے وسائل سے کس طرح مزید فائدہ اٹھائیں۔ ہماری صنعت و حرفت ترقی کرے۔ زراعت کے شعبے میں جدید ترین تحقیقات کی جائیں، اس کے لیے ادارے قائم کیے جائیں، اور استاد بچے کو اہمیت بتائے تو بچوں کا رجوع کیوں کر نہیں ہوگا؟
استاد ایسا نہیں کریں گے، اس لیے کہ E-CAT اور M-CAT کی تیاری کے جو ادارے سالانہ کروڑوں کا بزنس کرتے ہیں وہ ادارے یہی اساتذہ چلاتے ہیں۔ اگر وہ بچوں کو بتائیں کہ ریاضی کا علم بھی معاشرے کے لیے کتنا ضروری ہے، شماریات کی کیا اہمیت ہے، پاکستان کے سمندر تباہ ہورہے ہیں، میرین بیالوجی کا علم کتنا ضروری ہے تو ان کے اپنے ادارے ٹھپ ہوجائیں۔ سب جانتے ہیں کہ بڑے گورنمنٹ کالجوں کے وہ اساتذہ جو سال بھر کالج تشریف نہیں لاتے اُن کے ناموں کے کوچنگ سینٹر خوب چلتے ہیں۔ کالجوں میں بچوں کو ایک لفظ نہ پڑھانے والے سماج میں خوف معروف ہیں کہ فلاں سر سے ریاضی پڑھنے والے اتنے فیصد نمبر لیتے ہیں، اور سر فلاں فزکس کے معتبر استاد ہیں جو اپنے کوچنگ سینٹروں میں سالانہ فیس یکمشت وصول کرتے ہیں اور ایک ایک مضمون کی ماہانہ فیس دس ہزار روپے یا زائد بھی وصول کرتے ہیں۔ کالج ویران ہیں اور کوچنگ سینٹر آباد۔ میڈیکل کالجوں ہی پر نہیں، کبھی چھاپے گورنمنٹ کالجوں پر بھی مارے جائیں کہ اساتذہ کتنے دن آتے ہیں، طلبہ و طالبات کتنے دن رخ کرتے ہیں اپنے تعلیمی اداروں کا۔ کیا یہ کرپشن نہیں ہے؟ دوسری طرف جو پرائیویٹ کالجز ہیں وہ چوں کہ مہنگی فیس لیتے ہیں اس لیے محنت بھی کرتے ہیں اپنے طلبہ و طالبات پر۔ وہاں اساتذہ و طلبہ سب حاضر ہوتے ہیں۔ آف شور کمپنیوں کا معاملہ عدالت میں گیا تو ملک کا وزیراعظم رخصت ہوگیا، کہ معاملہ مالی کرپشن کا تھا۔ ان تعلیمی اداروں کے معاملات عدالتوں میں جائیں کہ انہوں نے صرف مالی کرپشن نہیں کی ہے بلکہ نسلوں کے ساتھ غداری کی ہے، ان کا مستقبل تاریک کیا ہے۔
اب اس طرف آیئے کہ والدین کیوں ان میڈیکل کالجوں میں بچوں کو داخلہ دلاتے ہیں جب کہ وہ جانتے ہیں کہ نہ ان کی سند معتبر ہے، نہ ان کی جیب اس کی متحمل ہے۔ تو جان رکھیے کہ بے چارے والدین تو یہ فیصلہ کم ہی کرتے ہیں، یہ فیصلہ خود بچے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ وہ کم پر راضی ہی نہیں ہوتا۔ سرکاری میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں جو بچے نااہل ہوجاتے ہیں داخلے کے لیے، ان کے پاس پرائیویٹ اور سیلف فنانس کا آپشن کھلا ہوا ہوتا ہے۔
آپ خود کو اس جگہ پر رکھیں کہ چار دوستوں نے میڈیکل کے لیے NTSکا امتحان دیا۔ چاروں ناکام ہوگئے۔ دو بچوں کے والد بیرونِ ملک مقیم ہیں جو سیلف فنانس پر بچوں کو پڑھا سکتے ہیں یا پرائیویٹ کالجوں میں داخلہ دلا سکتے ہیں، وہ بچے فوراً ان راستوں پر چلے جاتے ہیں، یعنی گورنمنٹ میڈیکل یا انجینئرنگ یونیورسٹی کی سیلف فنانس کی نشست یا پرائیویٹ کالج کا داخلہ۔ اب دو بچے جو ان ہی کے ساتھ ناکام ہوئے وہ کہاں کھڑے ہیں؟ خواب چاروں کے ایک جیسے تھے اور اہلیت بھی۔ صرف اس لیے کہ دو کے والدین اُن کے لیے تعلیم خرید سکتے تھے تو ان کے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘، ’’انجینئر‘‘ لگ جائے گا۔ باقی دو زندگی، موت کا مسئلہ بنا لیں گے اور پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہماری ایک عزیزہ اپنا رہائشی مکان بیچنے پر تیار ہوگئیں کہ ہم پانچ برس کرائے پر رہ لیں گے، بیٹا کہہ رہا ہے ڈاکٹر بن کر سب لوٹا دوں گا۔ ایک دوسری عزیزہ نے اپنا سارا زیور بیچ کر جس کی مالیت دس لاکھ روپے بنی، اپنے بچے کو سیلف فنانس میں داخلہ دلا دیا۔ ایک اور عزیزہ نے شوہر کی ریٹائرمنٹ پر ملی ساری جمع پونجی لگا کر بچے کو پرائیویٹ میڈیکل کالج میں داخلہ دلوا دیا۔
گورنمنٹ کے اداروں میں داخلے اوپن میرٹ پر ہوتے ہیں۔ عموماً دس میں سے سات لڑکیاں اور تین لڑکے ہوتے ہیں۔ میرے تین بچے پچھلے دس برس سے میڈیکل یونیورسٹیوں میں ہیں۔ دس برس کا تناسب تو یہی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ میڈیکل کی تعلیم سے فراغت کے بعد کتنی لڑکیاں عملاً اس شعبے کو اختیار کرتی ہیں، اور کتنی محض اس لیے والدین کے پچاس، ساٹھ لاکھ روپے دائو پر لگا دیتی ہیں کہ نام کے ساتھ ’’ ڈاکٹر‘‘ کتنا بھلا لگتا ہے!!!
تقریبات میں اب جن خواتین کی بہوئوں یا بیٹیوں سے تعارف ہو شاید ہی کوئی ہو جو ’’ڈاکٹر‘‘ نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ کتنے پریکٹس کرتے ہیں اور کتنے واقعی سنجیدہ ہیں اس عظیم پیشے کے ساتھ۔ بات اتنی سادہ نہیں ہے کہ اختیار والدین کے پاس ہے، وہ کیوں ہتھیار ڈالتے ہیں بچوں کے سامنے۔ بات یہ ہے کہ ان کے استاد اور ہم مجلسوں نے انہیں راستہ ہی یہ سمجھایا ہے۔ والدین اس عمر کے جذباتی بچوں کے سامنے اتنے بے بس ہوجاتے ہیں کہ گھر تک بیچنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں، اور نوجوان لڑکیوں تک کو تنہا چائنا بھیجنے کا رسک لے لیتے ہیں۔ان پرائیویٹ میڈیکل اداروں نے ہمارے معاشرے کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا ہے کہ ہماری نسل اس کی جو قیمت ادا کررہی ہے، شاید اس کو قلم بیان نہیں کرسکتا۔ والدین کہاں جائیں، کون راہ سمجھائے! ایک بھیڑ چال ہے۔ تعلیم منڈیوں میں بک رہی ہے۔ ڈگریوں کے تاج سروں پر سج رہے ہیں۔ اب والدین کو فخر نہیں ہوتا کہ میرا بچہ ذہین ہے، بلکہ والدین پریشان ہوجاتے ہیں کہ اگر NTS کے داخلے میں ناکام ہوگیا تو پیسوں کا بندوبست کہاں سے ہوگا؟ اس ایک داخلے کے لیے مہینوں تیاری کرائی جاتی ہے، کثیر سرمایہ لگایا جاتا ہے، پورا خاندان عجیب نفسیاتی کشمکش سے گزرتا ہے کہ بچہ ناکام ہوگیا تو کیا ہوگا! کیوں کہ دوسری طرف منڈیوں کے دام بہت ہیں… تیسرا کوئی راستہ ہی نہیں۔جب ہم زمانۂ طالب علمی میں تھے اُس وقت بھی بچوں کا خواب ڈائو میڈیکل اور سندھ میڈیکل کالج تھے، اور آج کے بچوں کا بھی۔ میڈیکل کی تعلیم اتنی ضروری ہے سماج کے لیے تو پھر حکومت نے ان تیس برسوں میں مزید کالج کیوں نہ بنائے؟ پرائیویٹ سیکٹر میدان میں آیا اور خوب قدم جما لیے۔ جو اوورسیز پاکستانی ہیں اُن کے لیے ایک بچے پر 70,60 لاکھ روپے خرچ کرنا کوئی مسئلہ نہیں، لیکن پاکستان کا جو متوسط طبقہ ہے ، جس کے لیے ضروریاتِ زندگی مہیا کرنا اور علاج معالجہ کی سہولتیں اپنے خاندان کو فراہم کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے، وہ ایک ایک بچے پر کیسے اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کا خواب دیکھ سکتے ہیں؟ نتیجتاً پاکستانی سماج کا ہر چوتھا گھرانا نفسیاتی مریض بن چکا ہے۔
ان نفسیاتی امراض سے چھٹکارا پانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے۔ ہم اپنے بچوں کی کائونسلنگ تعلیمی اداروں میں کیوں نہیں کرتے کہ ان کو قانون پڑھنا چاہیے۔ معاشرے کو انصاف دلانے کے لیے قانون دان کا پیشہ اپنانا چاہیے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے خاندان کے وہ بچے جو یورپ اور امریکا میں رہتے ہیں وہ اپنے اختیاری مضامین میں ہسٹری اور ادب پڑھتے ہیں، ریاضی اور بین الاقوامی تعلقات پڑھتے ہیں۔ ہم نے سوشل سائنسز کو مٹی تلے دبا دیا۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور انارکی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے سماجی علوم کی اہمیت صفر کردی ہے۔ معاشرے کو ماہرینِ معاشیات کی بھی ضرورت ہے، ماہرینِ نفسیات و سماجیات کی بھی، ماہرینِ تعلیم اور اچھے اساتذہ کی بھی۔ لیکن اس وقت معاشرے میں سماجی علوم پڑھنا باعثِ شرم سمجھا جاتا ہے۔ سماجی علوم وہ بچے پڑھتے ہیں جن کو اور کہیں داخلہ نہیں ملتا۔ اس معاشرے میں ادب اور لٹریچر اختیاری طور پر پڑھنے کا اب کوئی چلن نہیں رہا۔
سماجی علوم کی اہمیت اپنی آئندہ نسلوں کو بتانا ہم سب کی ذمے داری ہے۔ ذہانت کا پیمانہ صرف ڈاکٹر بننا نہ ہو۔ اور ڈاکٹر یا انجینئر نہ بننا کوئی بدنصیبی نہیں ہے۔ معلوم نہیں قدرت کس سے کیا کام لینا چاہتی ہے؟
عدالتِ عظمیٰ کا نوٹس لینا ایک قدم ہے، دوسرا قدم یہ ہے کہ ہم والدین اپنے بچوں کی صحیح خطوط پر ذہن سازی کریں۔ ہم سب استاد کے مقام پر فائز ہیں کسی نہ کسی حوالے سے۔ اپنے بچوں کو اس اندھی دوڑ سے بچاکر ان کو حقائق کا شعور دیں۔

حصہ