قصور کو کراچی نہ بناؤ

271

تنویر اللہ خان
ہم جو کچھ بورہے ہیں اس کی فصل زینب جیسے واقعات کی صورت میں کاٹنی پڑتی ہے ، زینب کی توجان چھوٹ گئی اور زندہ رہتی تو نہ جانے کیا کیا دیکھتی کیا کیا سہتی، لیکن اُس کی موت انصاف، عدالت، قانون، حکمران، پولیس، میڈیا کی منافقت اور جھوٹ پر تصدیق کی مہر لگا گئی ہے۔ اس واقعے پر میڈیا، سول سوسائٹی، سیاسی جماعتیں سب احتجاج میں یک آواز ہیں ، ہر طرف سے مشورے دیئے جارہے ہیں۔
کسی کی رائے ہے کہ بچوں کو سیکس سے متعلق آگاہی دی جائے یعنی زندگی کے اس پہلو کے بارے میں قبل از وقت اُنھیں واقف کر دیا جائے، کوئی کہہ رہا ہے کہ میڈیا کی فحاشی ایسے واقعات کا سبب ہے، کوئی بتارہا بے راہ روی ان حادثات کا سبب ہیں، کسی کے خیال میں فحش فلمیں ایسے جرم کو مہمیز دیتی ہیں، حکمران کہہ رہے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کی نگرانی نہیں کرتے غرض سب ایک دوسرے کو الزام دینے میں لگے ہوئے ہیں نہ کوئی بھی اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کا اقراری ہے اور نہ مستقبل میں اپنے حصے کا کام کرنے پر تیار ہے، ویسے تو یہ ہمارا قومی مزاج ہے، جگہ جگہ لکھا ہوتا ہے، اپنے سامان کی حفاظت خود کریں، اپنی قیمتی چیزوں کی حفاظت خود کریں کمپنی، ادارہ ذمہ دار نہ ہوگا۔
میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلز کے آنسوں آہیں تو رُکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں، اسکرین پر بیٹھے جو لوگ زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم پر واویلہ کررہے ہیں اُنھوں نے کبھی اپنے چینل کے حالات کو دیکھنے کی اور اُن کی اصلاح کی کوشش کی ہے ؟ پاکستان کا کوئی ایک ٹی وی چینل ایسا نہیں ہے جہاں خواتین کی عزت محفوظ ہو ایک بڑے اور معروف چینل کے بڑے ذمے دار اپنی ایک نئی نئی اینکر خاتون کو باآواز بلند دھمکی دیتے سنے گئے کہ کل شام میں نے تمہیں ہوٹل بُلایا تھا تم کیوں نہیں آئیں، تم اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہو، تمہیں اسکرین سے ایسا غائب کردوں گا کہ لوگ تمہارا نام تک بھول جائیں گے اور اب یہی حضرات جو بڑی زینب کی عزت کے درپے رہتے ہیں وہ چھوٹی زینب کے لیے آٹھ آٹھ آنسوں بہا رہے ہیں، کیا ایسے لوگوں احتجاج شور شرابے سے زیادہ کوئی وقعت رکھتا ہے ؟۔
ساحر لودھی جو نہ معاشرتی اقدار کو سمجھتے ہیں نہ اخلاقیات سے اُن کا کوئی لینا دینا ہے نہ دنیاوی تعلیم سے اُنھوں نے کچھ سیکھا ہے اور نہ دینی تعلیم اُنھیں چھو کر گزری ہے وہ چند ٹکوں کے خاطر بچوں سے ڈانس کروا رہے ہیں بچے جن کو دیکھ کر محبت، شفقت پاکیزگی کا جذبہ ابھرتا تھا اب وہ بھی کرینہ اور قطرینہ کی طرح ناظرین کو ریجھانے کا ذریعہ بنائی جارہی ہیں، ساحر لودہی جو بھی کررہے ہیں اس کے نتجے میں ان کا اصل بے نقاب ہورہا ہے لیکن جو لوگ ساحرلودھی کو اسٹار سمجھتے ہیں ان کی عزت کرتے ہیں اُنھیں ضرور اپنی پسند اور ناپسند کے معیار پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
عمومی طور پر ہمارے معاشرے کا کیا حال ہے ہم عورت مرد کے اختلاط
) Mix ( کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں تقریبات میں عورت اور مرد کے الگ انتظام کو معیوب سمجھتے ہیں، اجنبیوں کو منہ بولے رشتوں کا ٹائیٹل دے کر گھروں کے اندر تک رسائی دیتے ہیں، کزنز کی باہمی آزادنہ میل ملاقات کے غلط ہونے کا تو خیال ہی ناپید ہوچکا ہے، ان معاشرتی معاملات میں ہمیں اسلام کی پابندیاں دقیانوسی اور ناقابل عمل نظر آتی ہیں، کام ہم وہ کرتے ہیں جس کا مطالبہ ہمارا نفس کرتا ہے اور نتجہ خراب نکل آئے تو الزام مولوی کودیتے ہیں اور مولوی کو غیر موثر قرار دینے کے پیچھے مقصد دین کو غیر موثر قرار دینا ہے، مرد خواتین کے بے جا اختلاط کا انجام گُناہ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
عموماً ہماری مردانہ محفلوں میں کوئی محفل ایسی نہیں ہوتی جہاں عورت کا ذکر معنی خیز انداز میں نہ کیا جاتا ہو۔
خصوصا ًپاکستان میں سیکولرازم کا سائبان شراب اور زنا کی آزادی کو سایہ فراہم کرنا ہے سیکولر ازم کا جھنڈا تھامے لوگوں کے لیے شریعت میں شراب اور زنا کی گنجائش بنادی جائے(نعوذ باللہ)، تو سیکولرحضرات کی اسلام سے بیزاری محبت میں بدل جائے گی۔
زینب کے واقعے کے نتیجے میں اگر ہمارے دل میں برائی سے بیزاری کا احساس جاگ جائے اور اپنے اپنے دائرے میں ہم برائی کو پنپنے کا موقع نہ دیں تو قصور میں ہونے والے اس ظلم کو کچھ مداوا ہوسکتا ہے۔
قصور میں ایسا ظلم کیوں ہو رہا ہے ؟ ایک امکان اس کا ہے کہ مجرم نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہو لہذا اس حوالے سے بھی صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے اور اس کا سدباب کرنا چاہیے۔
قصور میں پے درپے اس نوعیت کے واقعات ہورہے ہیں لیکن پولیس، منتخب ایم این اے دم سادھے بیٹھے ہیں ان کے اس رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان واقعات کو مالی پشت پناہی حاصل ہے ، جرم کے ساتھ بڑے مالی اسٹیک جُڑ جائیں تو اس کے نتیجے میں مافیا جنم لے لیتا ہے حکمران عوامی نمائندے پولیس سب کچھ جانتے بوجھتے دولت کی ہوس میںجرم اور مجرم دونوںکی پشت پناہی کرتے ہیں کراچی گزشتہ تیس سال ان حالات میں مبتلا رہا ہے لہذا اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ دولت کمانے کے لیے قصور میں عوامی نمائندوں، پولیس، عدالت نے گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔ جب ادارے جرم اور مجرم کی پشت پناہی کے لیے گٹھ جوڑ کرلیں تو معاملہ ترغیب اور نصیحت کا نہیں رہتا بلکہ سزا کا واحد راستہ بچتا ہے جس طرح کراچی میں مجرم پکڑے جانے کے خوف سے آزاد تھے اسی طرح قصور میں کے مجرم بھی گرفت اور سزا کے ہر خوف سے آزاد نظر آتے ہیں، لہذا اگر قصور میں اس نوعیت کے واقعات کا خاتمہ مطلوب ہے تو وہاں بھی کراچی کی طرز پرآپریشن کی ضرورت ہے، مجرم ان کے پشت پناہوں خواہ وہ منتخب نمائندے ہی کیوں نہ ہو اُن پر سخت ہاتھ ڈالنا ہوگا۔
کچھ کام ہمیں معاشرتی سطح پر بھی کرنے چاہیں مثلاً، برائی سے بیزاری تربیت کا پہلا قدم ہے ہمیں خود اپنے اندر اور اپنے بچوں میں برائی سے بیزاری کا احساس زندہ رکھنا ہوگا اکثر اوقات ہم بڑے بڑے گناہوں سے بھی ،کیا کریں مجبوری ہے، اتنا تو چلتا ہے، سب یہی کررہے ہیں جیسے جملے کہہ کر بڑھ جاتے ہیں ہمیں اپنے اس انداز کو بدلنا چاہیے شیطان بہت متحرک اور اپنے مقصد پانے کی دھن میں لگا رہنے والا ہے ہم اُسے اُنگلی رکھنے کی جگہ دیتے ہیں تو وہ اپنے پورے وجود سے ہم پر سوار ہوجاتا ہے لہذا جہاں اور جس عمل سے برائی کا خدشہ ہو اُس جگہ اور اُس کام سے بہت دور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ترغیب، تبلیغ برائی کے خلاف بہت موثر ہتھیار ہے ہمیں اپنے بڑے اور بچوں کو مسلسل اچھائی کی ترغیب دیتے رہنا چاہیے، اچھی نصیحت کا کوئی نتیجہ نکلے یا نہ نکلے اچھائی کی ترغیب کا کام جاری رکھنا چاہیے۔
ہمیں مل کر گناہ کے امکانات کے خاتمے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے، گناہ کے راستوں کو بند کرنا گُناہ سے محفوظ رہنے کا سب سے موثر ذریعہ ہے ۔
ترغیب، پیش بندی کے بعد جن سے شر کا خدشہ ہو اُنھیں اللہ سے ناراضگی کا ڈراوا، آخرت کی پکڑ کی تنبیہ دیتے رہنا چاہیے، برائی کے خاتمے کا آخری ہھتیار سزا ہے جو لوگ نصحیت، تربیت، تنبیہ کے بعد بھی باز نہ آئیں اور گناہ کرگزریں تو ایسے لوگوں کو اعلانیہ سزا برائی پر قابو پانے کے لیے لازمی ہے، ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بااثر، دولت مند، مجرموں کو قانون کی گرفت کے بجائے قانونی موشگافیوں سے مدد فراہم کی جاتی ہے۔

حصہ