سوشل میڈیا اور حصول انصاف

358

ویسے تو آج منو بھائی پر سوشل میڈیا کا ٹرینڈ اول نمبر پر ہے لیکن گذشتہ ہفتہ بھر سے معصوم زینب کو انصاف دلانے کا شور نمایاں رہا جس میں مردان شہر کی ۴سالہ معصوم اسماء کے لیے JusticeforAsmaکی صدائیں بلند ہوئیں اور پھر کراچی کے نقیب اللہ محسود کے بہیمانہ قتل پر JusticeforNaqibکا سوشل میڈیا پر اٹھنے والا شور بازی لے گیا۔ویسے نہ ہی یہ کوئی کراچی کا پہلا ماورائے عدالت قتل تھا ، نہ ہی معصوم زینب اور پھر معصوم اسماء کے بدترین قتل کے واقعات کوئی پہلے واقعات تھے ، جن پر رد عمل آیا ۔جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ سوشل میڈیا نے جہاں ایک جانب بے راہ روی ، بے مقصدیت کا بدترین سیلاب برپا کیا ہے اور صرف ہماری ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی نوجوان نسل کو اس طرح تباہ کر رہی ہے کہ وہ اپنے مذہبی و تہذیبی پس منظر سے تعلق ختم کر کے لغویات ، اخلاق باختگی پر مبنی جنسی تسکین ، فراڈ ، لوٹ مار و دیگر جرائم کی جانب گامزن نظر آتاہے۔یسے ایسا بالکل نہیں ہے کہ یہ واقعات ابھی شروع ہوئے ہیں ، یہ عین ممکن ہے کہ ان میں آبادی بڑھنے کے تناسب سے ایسے واقعات میں کچھ اضافہ ہوا ہو ، مگر یہ سارے سلسلے اُس وقت سے جاری ہیں جب نہ ہی انٹرنیٹ تھا، نہ سوشل میڈیا، نہ ہی کیبل ، نہ ہی ڈش اینٹینا،بلکہ صرف پی ٹی وی ہی ہوتا تھا جس کی نشریات چند گھنٹوں پر مشتمل ہوتی تھی۔کراچی کے وہ مرد حضرات جو یہ تحریر پڑھ رہے ہونگے وہ یقیناً جانتے ہونگے کے اسی کی دھائی میں کراچی میں ویڈیو گیمز کی مخصوص دکانیں ، فٹ بال پٹی ، ڈبو کلب کی ’’وجہ شہرت ‘‘کیا ہوتی تھی ، حالات پر نظررکھنے والے والدین گھروں میں ویڈیو گیم دینے پر تیار ہوجاتے مگر ویڈیو گیم ، فت بال یا ڈبو کی دکان پر برداشت نہیں کرتے تھے ۔اسی طرح منی سینما گھروں کا کلچر نوے کی دہائی تک کراچی میں قائم تھا ، جو وی سی آر ، کیبل، ڈش کے کلچر بننے تک جنسی بے راہ روی کو عام کرنے کا ذریعہ بنا ہوا تھا اور اس کے اصل ٹارگٹ بچے اور نوجوان ہی تھے۔
آج نیو میڈیا کے اس دور میں اس نشے کی مانند لت کا شکار عوام کا منظر نامہ آپ کو اپنے ارد گرد محسوس کرنا ہوگا۔سولجر بازار میں ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ وہ روٹی لینے نیچے اترے تو دیکھا کہ چپاتی بنانے والے نے ہیڈ فون کانوں سے لگایا ہوا ہے اور سامنے ہی آٹے کے تسلے سے ٹیک لگا کر موبائل کھڑا کر کے اپنے اطراف سے بے خبر اسکرین اور اپنے توے کی دنیامیں مگن یو ٹیوب پر فلم دیکھنے میں مصروف ہے۔ہمارے دفتر کے چوکیدار اور چپڑاسی ،جس کو باہر ڈیوٹی دینی ہوتی ہے وہ دو روز قبل اوپر آئے اور وائی فائی کا پاس ورڈ مانگنے لگے ، ہم نے سوال کیا کیوں ؟ تو سیدھا جواب ملا کہ’’ فیس بک ، یو ٹیوب استعمال کرنی ہے ‘‘۔یہ تو وہ تھے جنہیں پاس ورڈ معلوم نہیں تھا ، باقی دفتر کے ریسیپشن والے سے لے کر جمعدار تک اسمارٹ فون کے بے مقصد استعمال پر کئی بار گفتگو کی لیکن خوف خدا، روز قیامت جوابدہی کے احساس سے غافل ہو جانے والوں کے بارے میں جس طرح کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ’’ ان کے اعمال کو زینت بنا دیا ہے ، پس وہ بھٹکتے پھرتے ہیں ‘‘، ایسی ہی بھٹکنے والی کیفیت آپ کو یہاں محسوس ہوگی ۔ آپ مانیں یا نہ مانیں یہ روز افزوںپھیلتی آگ دراصل ہمارے معاشرے میں معصوم زینب اور اَسماء کے قاتلوں اور جنسی درندوں کی ’پیدائش و افزائش ‘کی ایک بڑی وجہ بن چکی ہے ۔پھر جیسا میں نے کہا کہ لوگ استعمال جانتے ہی نہیں کہ سماجی میڈیا کیااورکس کام کے لیے ہے تو یونہی ’’بھٹکتے بھٹکتے ‘‘ایک پیروی کلچر ، کاپی پیسٹ یا یوں کہیں کہ ٹرینڈ فالوورکلچر نے جنم لیا۔اسی طرح جس نے سماجی میڈیا کے بارے میں کچھ معنی مفہوم ،یا اصطلاحات سمجھ لیںیا کہیں سے یہ پتہ چل گیا کہ اس سے پیسہ بھی کمائے جا سکتے ہیں تو اس نے ایک الگ دوڑ میں حصہ لے لیا ۔بہر حال لوگوں نے اسے اہم پروپیگنڈہ ٹول کے طور پر جانتے ہوئے ، سماجی ، سیاسی و معاشرتی مسائل پر اپنی رائے دینے یا کسی اور صاحب رائے کی رائے سے متفق ہو کر اُسے فروغ دینے کو بھی کار خیر جان کر حصہ ملانا شروع کر دیا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب سوشل میڈیا کسی بھی ایشو کو وقتی طور پر مقبول کرنے کا ذریعہ بھی بن گیا ہے، یہی حال زینب کے کیس و دیگر کیسز میں ہم نے دیکھا ۔زینب کے کیس میں اٹھنے والے شور نے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ دیا ، اس لیے کہ پہلے یہ ، یا اس طرح کی خبریں اتنی سنسنی ، تفصیل کے ساتھ نہیں پھیلتی تھیں، پی ٹی وی کادور سے الیکٹرانک میڈیا کے دور تک۔اب سوشل میڈیا خود اتنا بڑا میڈیم بن گیا ہے کہ پہلے خبر یہاں نازل ہوتی ہے پھر آگے ٹی وی اسکرین پر پہنچتی ہے ۔زینب کے کیس میں آرمی چیف ،وزیر اعلیٰ پنجاب، آئی جی پنجاب، چیف جسٹس کی جانب سے رد عمل کے باوجود آج دو ہفتوں میں بھی قاتل کی رسائی یا اُس کی جانب تحقیقاتی پیش رفت صفر پر ہی کھڑی ہے۔گویا قاتل درندہ آج بھی آزاد گھوم رہا ہے ، یہ وہ درندہ ہے جو قصور شہر میں اس سے قبل ایسی ہی چھ مزید وارداتوں کا مجرم ہے ۔پولیس ، انٹیلیجنس و دیگر اداروں کی کار کردگی سوالیہ نشان ہے کہ وہ نہ ہی جرم ہونے سے روک سکتے ہیں اور نہ ہی جرم ہونے کے بعد قاتل پکڑ سکتے ہیں۔یہی سارا ماجرا مردان کی معصوم اسماء کے کیس میں ہے ، جسے بیان کرنے کے لیے مزید الفاظ ساتھ نہیں دے رہے ۔غریدہ فاروقی کی ٹوئیٹ کے مطابق’’ کے پی پولیس ، اسماء کے والدین پر زور ڈال رہی ہے کہ وہ کیس کو سیٹل کریں اور میڈیا پر بات نہ کریں‘‘۔حمزہ علی عباسی لکھتے ہیں کہ ’’۴ سالہ اسماء کے ساتھ زیادتی اور قتل ،کے پی پولیس اور پورے سسٹم کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے ۔‘‘حد یہ بھی ہوئی کہ اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور یہ بات کہی گئی کہ زینب کا تعلق پنجاب سے تھا اس لیے یہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بننے میں کامیاب رہا جبکہ اسماء کا تعلق کے پی سے ہونے کی وجہ سے یہ ٹرینڈ نہیں بن پا رہا ۔گویا یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ اس کے ٹرینڈ نہ بننے میں پی ٹی آئی کے شائقین حصہ نہیں ملا رہے ۔ گوکہ یہ ایک انتہائی نا مناسب بات تھی مگر لوگوں نے اس کا بھر پور جواب دیا کہ ’’ زینب اور اسماء پنجابی، پختون نہیں بلکہ قوم کی بیٹیاں تھیں۔‘‘گو کہ اسماء کے واقعہ سے چند روز قبل ہی
وزیر اعلیٰ کے پی کے اپنے حلقہ انتخاب سے دو ایسے ہی کیسز سامنے آئے مگر ’’سوشل میڈیا پر مقبولیت ‘‘نہ پا سکے۔
ویسے اس حوالے سے ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے بھی اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔پچھلے ہفتے میں نے ذکر کیا تھا کہ سول سوسائٹی کے نام پر پاکستانی شو بز انڈسٹری کے کچھ افراد نے ’’اغواء ، زیادتی، قتل اور قاتل کی گرفتاری و سزا ‘‘کے موضوع کو ایک جانب رکھ کر مستقل میں ’’زینب‘‘ کو بچانے کے لیے بچوں کے تعلیمی نصاب میں اس حوالے سے آگہی فراہم کرنے کی مہم changecurriculum کا آغاز کیا ہے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو نے اس ضمن میں شہزاد رائے کے ساتھ ایک پریس کانفرنس بھی کی ، مگر نہایت دکھ کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ نعرہ تا حال مقبول نہیں ہو سکا ۔ سوشل میڈیا پر قاتل کی گرفتاری کے لیے اب بھی سخت رد عمل پایا جاتا ہے ،تعلیم دینے کی ضرور ت پولیس کو ہے جو ابھی تک مجرم نہیں پکڑ پا رہی ، آگہی کی ضرورت اُن جنسی بھیڑیوں اور اُن کو ہے جو پیسے کی خاطر اپنے ہیجان خیز لباس ، میک اپ اور اداؤں سے پورے معاشرے کو آلودہ کر رہے ہیں۔ایک معروف حدیث کاحوالہ بھی سوشل میڈیا ، واٹس ایپ گروپس میں خاصا گردش کرتا رہا جس میں نبی کریم ﷺ نے دس سال کی عمر میں بچوں کے بستر الگ کرنے کا ذکر کیا ہے ،کہ جب یہ ساری تعلیمات ہمارے دین نے والدین کے تربیتی امور میں سکھا دی ہیں تو بچوں کو کیوں سماج بیزار اور ایک ہر وقت کے خوف کا شکار بنایا جائے ۔بہر حال اس موضوع پر بھی سو شل میڈیا پر بحث جاری رہی ۔
اسی طرح گذشتہ ہفتہ ہی کراچی میں ایک ماورائے عدالت قتل نے سوشل میڈیا پر شدت سے آواز بلند کروائی۔نسیم اللہ المعروف نقیب اللہ محسود نامی اس خوبصورت نوجوان کی تصاویر سوشل میڈیا پر بے پناہ مقبول ہوئیں اور ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ میں JusticeforNaqibشامل ہوا۔کراچی کے اس ضمن میں ایک بدنام پولیس افسر راؤ انوار کے مطابق مقتول پولیس مقابلے میں مارا گیا اور وہ تحریک طالبان کا کمانڈر تھا جو کئی دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث تھا۔دوسری جانب طارق حبیب اس حوالے سے اپنی وال پر مقتول کی اپنے کسی دوست سے ہونے والی ایس ایم ایس گفتگو کا اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ’’یہ بچہ بڑا ہوکے کیا بنے گا؟جعلی مقابلے میں مارے جانے والے نقیب محسود نے اپنے فیس بک اکائونٹ پر اپنے بیٹے کی تصویر شیئر کی ہے اور لکھا ہے۔میرا بیٹا آرمی آفیسر بنے گا۔
جب اس بچے کو جوان ہونے پرمعلوم ہوگا کہ اس کے باپ کو سندھ کے “مایہ ناز” پولیس افسر نے جعلی مقابلے میں ماردیا تھاتویہ بچہ جوانی میں کیا بنے گا؟‘‘نقیب محسود جس کا اصل نام نسیم اللہ محسود ہے. 2008 سے کراچی میں محنت مزدوری کر رہا تھا ، زیادہ تر اپنے ماموں کے ساتھ اسٹیل میں لوڈنگ کا کام کرتا تھا۔نقیب محسود کے چاچازاد بھائی رحمان محسود المعروف وزیرستانی جس کی بہن کی شادی نقیب سے ہوئی ہے نے “دی نیوز” کو بتایا کہ نقیب محسود کسی بھی دہشتگرد کارروائی میں ملوث نہیں تھا۔ آپریشن راہ نجات کے بعد نقیب اپنے آبائی علاقے جنوبی وزیرستان کے تحصیل مکین گاؤں رزمک سے خاندان سمیت کراچی مستقل منتقل ہوا تھا۔نقیب کے تین بچے ہیں، جن میں نو سالہ نائلہ , سات سالہ علینہ اور دو سال کا بیٹا عاطف شامل ہیں۔ نقیب سہراب گوٹھ کے قریب فلیٹ میں مقیم تھا ، انہیں ۲جنوری کی شب کو سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے چیپل گارڈن گل شیر آغا ہوٹل سے اغوا کیا تھا، پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا تھااور دو ہفتے بعد جعلی پولیس مقابلے میں اسے مارا گیا۔.17 جنوری کو چھیپا والوں نے ان کے خاندان کو ان کی لاش لے جانے کی اطلاع دی،نقیب کو ڈیرہ اسماعیل خان میں تدفین کے لئے لے جا یاجائے گا تاہم لاش تاحال ورثا کے حوالے نہیں کی گئی ہے ۔‘‘یہ اور اس جیسی بے شمار پوسٹوں کا نہ رکنے والا سلسلہ سوشل میڈیا پر نقیب کو انصاف دلانے کے لیے آج بھی جاری ہے ۔ہو سکتا ہے آپ کہیں گے کہ اس سارے شور کا کیا فائدہ ہوا توابتک کی اطلاعات کے مطابق جعلی انکائونٹر اسپیشلسٹ رائو انوارکے ہاتھوں جعلی مقابلے میں مارے جانے والے نقیب اللہ محسودکے قتل کی تحقیقات کے لیے آئی جی سندھ نے ایک چار رکنی اعلیٰ سطحی پولیس افسران پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے ۔پاکستان تحریک انصاف نے نقیب اللہ محسود کے جعلی مقابلے میںمارے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرکے تحقیقات کا مطالبہ کردیا اور ساتھ ہی تحریک انصاف نے سندھ اسمبلی میں بھی قرارداد جمع کرادی۔بلاول بھٹو نے بھی نقیب محسودکے ماورائے عدالت قتل کا نوٹس لیا ہے ۔

حصہ