سرکار کے سائے میں

288

سید اقبال چشتی
جرائم کے خاتمے اور امن و امان قائم کرنے کے لیے سرکاری ادارے اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہیں تاکہ معاشرے میں سکون رہے اور کوئی حکومت کے خلاف انگلی نہ اُٹھا سکے۔ لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سرکاری ادارے عوام کو سہولیات دینے کے بجائے اُلٹا تنگ کرتے ہیں اور تمام جرائم سرکار کے سائے اور سرپرستی میں انجام دیئے جاتے ہیں، اور جرائم پیشہ عناصر سرکاری سرپرستی ہی کی وجہ سے پھلتے پھولتے ہیں، اس طرح دونوں خوشحال مگر عوام بدحال ہوجاتے ہیں۔
ویسے تو پورے پاکستان میں ہی جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، اور اس اضافے کی وجہ بھی سرکاری سرپرستی ہی ہے، لیکن شہر کراچی میں خاص طور پر جرائم کی سرکاری سرپرستی کے حوالے سے کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے اپنے ایک بیان میں جرائم کی سرکاری سرپرستی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی شہر میں جرائم کے پیچھے جرائم پیشہ افراد کی سرکاری سرپرستی ہے، اور جرائم پیشہ افراد کو نہ صرف بعض سیاسی پارٹیوں نے پناہ دی بلکہ ان کی سرکاری طور پر پرورش بھی کی گئی۔ اگر گزشتہ ادوار کو دیکھا جائے تو جو پہلے صورتِ حال تھی اب بھی وہی ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ گزشتہ سال پارکوں اور سرکاری عمارتوں سے متحدہ کے یونٹ اور سیکٹر آفسز کا قبضہ ختم کرایا گیا تھا، لیکن سرکاری سرپرستی میں بننے اور پلنے والی ڈرائی کلین پارٹی کو اس بات کی اجازت دی جارہی ہے کہ وہ جہاں چاہے، جس جگہ پر چاہے قبضہ کرلے، کوئی نہیں پوچھے گا… اور ایک بار پھر ’’نیا جال لائے پرانے شکاری‘‘ کے عنوان سے سرکار کے سائے تلے کھیل شروع کردیا گیا ہے، کیونکہ جس سرکاری زمین پر متحدہ قبضہ نہیں کرسکی تھی اب وہاں ڈرائی کلین ہوکر آنے والے یا تو خود کاروبار کررہے ہیں، یا پھر کسی کو جگہ کرائے پر دے رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک طرف حکومت اور بلدیہ کی طرف سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا جارہا ہے، تو دوسری طرف سرکار ہی کے سائے میں تجاوزات قائم کرائی جارہی ہیں۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ رجسٹری نے کہا کہ پولیس اور کے ایم سی کی ملی بھگت سے تجاوزات قائم ہوئی ہیں، عوام کے لیے بنائے گئے پارک بھی کرائے پر دے دیئے گئے۔ جب اعلیٰ عدلیہ سب کچھ جانتی ہے تو کیا حکومتی اداروں کو نہیں معلوم ہوتا ہوگا کہ اس قبضے کی جگہ پرکون بیٹھا ہے اور کس کی آشیرباد سے دیدہ دلیری سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے؟ کون نہیں جانتا کہ یہ پیسہ کس کی جیب میں جاتا ہے اور اس پیسے سے جرائم کی دنیا کس طرح آباد ہے! عدالت نے کے ایم سی کے افسر سے پوچھا کہ یہ پیسہ سرکار کے پاس جاتا ہے یا جیبوں میں ڈال لیتے ہیں؟ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو سرکار نے سرکاری املاک کے تحفظ کے لیے نوکری پر رکھا ہے وہی لوگ سرکار کو نقصان پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ سڑک ہو یا کوئی بھی سرکاری اسکول اور جگہ، اس پر مافیا کا قبضہ ہے۔ سرکاری اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں کی دیواروں کے ساتھ تجاوزات نظر آئیں گی جس سے نہ صرف ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے بلکہ پیدل چلنے والوں کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اکثر سڑکوں پر ریڑھی والے لائن سے کھڑے ہوتے ہیں، جبکہ سڑک پر کاروبار کرنا یا غلط پارکنگ کرنا قانون کے مطابق جرم ہے، اور ہم یہ جانتے ہیں کہ ٹریفک پولیس کے اہلکار غلط پارکنگ پر گاڑی اُٹھا کر لے جاتے ہیں کہ اس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہورہی تھی، لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ پولیس نے کسی ریڑھی والے کو ہٹایا ہو، کیونکہ اس سے ان کی آمدنی جڑی ہوتی ہے۔ اسی لیے شاید جسٹس سجاد علی شاہ نے تجاوزات کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ تھانے ریڑھی والوں کے پیسوں سے چلتے ہیں، اور یہ بات سولہ آنے درست ہے، کیونکہ ہمارے ایک دوست نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک دکان خرید کر کاروبار شروع کیا، لیکن ایک دو دن بعد اُن کی دکان کے سامنے ایک ریڑھی والا آکر کھڑا ہوگیا جس سے اُن کی دکان پر لوگوں کو آنے میں دشواری پیدا ہوئی۔ اس پر انہوں نے ریڑھی والے کو منع کردیا کہ یہاں اپنی ریڑھی نہ لگائو، مگر اگلے دن دو لڑکے ریڑھی والے کو کھڑا کرگئے اور ہمارے دوست کو کہا کہ آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ سڑک پر کھڑا ہے۔ معلوم کرنے پر پڑوسی دکانداروں نے بتایا کہ یہ پہلے متحدہ، اور اب ڈرائی کلین پارٹی کے لیے کام کرتے ہیں۔ جب ہمارے دوست نے پولیس اسٹیشن جانے کی بات کی تو دکانداروں نے کہا کہ ایک دو دن ٹھیر جائیں، آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ اس کے پیچھے کون کون ہے۔ اور یہ راز اُس وقت کھلا جب کے ایم سی، پولیس اور پارٹی کا ایک ایک نمائندہ اپنا حصہ وصول کرکے چلا گیا۔ یقینا یہ جسٹس صاحب کے کیے گئے سوال کا جواب ہے کہ یہ پیسہ کہاں جاتا ہے۔ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ حکومت پھر انہی لوگوں سے تجاوزات ختم کروانے کے لیے کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے جو ان تجاوزات اور غیر قانونی دھندوں میں ملوث ہوتے ہیں، اور وہ ادارے جن کی نگرانی میں تجاوزات قائم کی جاتی ہیں وہی پھر ریٹ بڑھانے کے لیے تجاوزات کے خلاف اقدامات کرتے ہیں۔
جب تک اداروں کی اصلاح نہیں ہوگی اور جرائم میں ملوث سرکاری اہلکاروں کو سزا نہیں ہوگی جرائم پیشہ افراد اسی طرح پارٹیاں بدل کر سرکار کے سائے میں کام کرتے رہیں گے۔ نیا سال شروع ہوئے ابھی کتنے دن ہوئے ہیں؟ ایک اخباری اطلاع کے مطابق صرف پندرہ دنوں میں ایک ہزار سے زائد افراد سے گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چھین لی گئیں، اور موبائل فون چھیننے کی چھ سو سے زائد وارداتیں ہوئیں۔ یہ تو وہ اعداد و شمار ہیں جو مختلف تھانوں میں رپورٹ ہیں، جو رپورٹ نہیں ہوسکے وہ جرائم الگ ہیں۔ یعنی یہ تو ابتدا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا! جب ادارے ہی مجرموں کو تحفظ فراہم کریں گے تو معاشرے میںجرائم کی شرح کیسے کم ہوگی؟ حکومتوں کی جرائم کے خاتمے کی کوششیں اور اقدامات اسی وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیںکہ ان جرائم پیشہ عناصر کی پشت پر کوئی دشمن نہیں بلکہ اپنے ہی ادارے موجود ہوتے ہیں۔ مضر صحت گٹکا فروخت کرنے والوں کے خلاف حکومتِ سندھ نے کارروائی کا حکم دیا اور اس پر عدلیہ نے بھی نوٹس لیا، لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا، کیونکہ جب گٹکا پولیس اسٹیشن کی دیوار کے سائے میں فروخت ہوگا تو مہم کیسے کامیاب ہوگی؟
پرانا واقعہ ہے کہ نجیب ایوبی کالم نویس اور صحافی کے بڑے سالے صاحب جو اُس وقت جسارت میں کام کرتے تھے اور اب نجی چینل سے وابستہ ہیں، کی موٹر بائیک شاہ فیصل تھانے کی حدود سے چوری ہوگئی۔ فوری رپورٹ کرائی گئی، اخبار کے دفتر سے بھی فون ہوگئے تو ایس ایچ او صاحب نے اس شرط پر بائیک کو ڈھونڈنے کا وعدہ کیا کہ اگر اُس جگہ جہاں اپنے آدمی بھیج رہا ہوں آپ کی بائیک مل گئی تو اخبار میں کچھ نہیں لکھو گے۔ ’’اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں‘‘… وعدہ کرلیا۔ پھر سپاہی کو آواز دے کر بلایا گیا اور ایس ایچ او نے کہا کہ ’’شیدے ان صحافی بھائی کو لے کر اُس جگہ جائو‘‘۔ کوئی کوڈ ورڈ استعمال کیا گیا۔ جس جگہ لے جایا گیا وہاں چوری شدہ نئی اور پرانی موٹر سائیکلیں دو سے تین افراد کھولنے میں مصروف تھے۔ پولیس کی گاڑی دیکھنے کے بعد بھی اُن پر کوئی گھبراہٹ طاری نہیں ہوئی۔ یہ کام کس کی نگرانی میں ہورہا تھا یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال دو بائیکوں کے بعد صحافی بھائی کی بائیک کے کھلنے کی باری تھی۔ بالآخر بائیک مل گئی۔ یہ واقعہ پندرہ سولہ سال پرانا ہے، لیکن اعلیٰ عدلیہ کی اس بات کو سچ ثابت کرتا ہے کہ تھانے کی بولی لگتی ہے۔
حافظ نعیم الرحمن نے معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم اور جرائم پیشہ افرادکی سرکاری سرپرستی کے حوالے سے عوام کو اپنے ایک بیان کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ یہ ظلم کا نظام اُس وقت تک چلتا رہے گا جب تک عوام خود اس کرپٹ نظام کو مسترد نہیں کردیتے۔ ادارے اپنی جگہ کام کرتے رہتے ہیں لیکن ان اداروں کو چلانا بھی حکومت کا کام ہے، اور جب تک حکومتی منصب پر کرپشن سے پاک اور عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنے والے نہیں آئیں گے عوام کو تنگ کرنے والا یہ کاروبار سرکاری سرپرستی چلتا رہے گا۔

حصہ