حضرت لوط علیہ السلام ان کی قوم

1655

۔35 واں حصہ
دوسرا حصہ
( تفصیل کے لیے دیکھیے سورۃ الاعراف حاشیہ نمبر 65، 67۔ سورۃ الشعراء حاشیہ نمبر 111، 113۔ سورۃ القمر حاشیہ نمبر 22۔ سورۃ ہود حاشیہ نمبر 81، 83، 88۔ سورۃ الحجر حاشیہ نمبر36،39)
حضرت ابراہیم علیہ السلام 100 برس کے ہوچکے ہیں اور ان کی اہلیہ حضرت سارہ کی عمر 90 سال ہے، جوان بیٹا (حضرت اسمٰعیلؑ) بیت اللہ کی خدمت اور جزیرۃ العرب میں دعوتِ دین کی خدمت پر مامور ہے۔ رات ابھی شروع ہی ہوئی ہے،گھر پہ کچھ مہمان آتے ہیں، نوجوان خوبصورت لڑکے۔ سلامتی کی دعائوں کے تبادلے کے بعد آپؑ انہیں بٹھاتے ہیں اور مسافر نوازی کے لیے تھوڑی ہی دیر میں ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آتے ہیں… لیکن مہمان کھانے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ ہو نہ ہو یہ فرشتے ہیں! یہ سوچ کر آپؑ تشویش میں پڑ جاتے ہیں… خدا خیر! فرشتے تو اللہ کا کوئی حکم لے کر آتے ہیں، جو کسی مجرم قوم کی ہلاکت بھی ہوسکتا ہے۔آس پاس کی قوموں کا حال بھی آپؑ کو معلوم ہے۔ یہ تشویش گھر میں بھی پہنچ جاتی ہے اور حضرت سارہ دروازے پر آکر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ فرشتے یہ کیفیت محسوس کرکے کہتے ہیں: آپ پریشان نہ ہوں، ہم آپ کے لیے اولاد کی خوش خبری لائے ہیں (اسحقؑ اور یعقوبؑ) اور قوم لوط کی طرف جا رہے ہیں… اولاد کی خبر سن کر حضرت ابراہیمؑ خوش ہوجاتے ہیں، لیکن فوراً ہی فرشتوں سے کہتے ہیں کہ آپ جو کہہ رہے ہیں کہ ہم قوم لوطؑ کی طرف جا رہے ہیں… تو وہاں تو لوطؑ موجود ہیں اور وہ ان کی اصلاح کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ فرشتے کہتے ہیں: ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہاں کون ہے! ان کے بارے میں آپ کے رب کا فیصلہ ہوچکا، بس اب عمل میں آنا باقی ہے جس کے لیے ہم آئے ہیں۔ یہ سن کر حضرت ابراہیمؑ اپنے رب سے دعا اور فریاد شروع کردیتے ہیں (توریت کے مطابق ): ’’تب ابراہام نے نزدیک جاکر کہا: کیا تُو نیک کو بد کے ساتھ ہلاک کرے گا؟ شاید اُس شہر میں پچاس راست باز ہوں، کیا تو اسے ہلاک کرے گا… اور ان پچاس راست بازوں کی خاطر جو اس میں ہوں اس مقام کو نہ چھوڑے گا؟ ایسا کرنا تجھ سے بعید ہے کہ نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالے… اور نیک بد کے برابر ہوجائیں یہ تجھ سے بعید ہے۔ کیا تمام دنیا کا انصاف کرنے والا انصاف نہ کرے گا؟ اور خداوند نے فرمایا کہ اگر مجھے سدوم میں شہر کے اندر پچاس راست باز ملیں تو میں ان کی خاطر اس مقام کو چھوڑ دوں گا۔ تب ’’ابراہام نے جواب دیا اور کہا کہ… دیکھیے میں نے خداوند سے بات کرنے کی جرأت کی اگرچہ میں خاک اور راکھ ہوں‘‘ شاید پچاس راست بازوں میں پانچ کم ہوں، کیا اُن پانچ کی کمی کے سبب سے تُو تمام شہر کو نیست کرے گا؟ اس نے کہا اگر مجھے وہاں پینتالیس ملیں تو میں اسے نیست نہیں کروں گا۔ پھر اس نے اس سے کہا: شاید وہاں چالیس ملیں، تو اس نے کہا میں ان چالیس کی خاطر بھی ایسا نہیں کروں گا۔ پھر اس نے کہا خداوند اگر ناراض نہ ہوں تو میں کچھ اور عرض کروں، شاید وہاں تیس ملیں۔ اس نے کہا اگر مجھے وہاں تیس ملیں تو بھی میں ایسا نہیں کروں گا، پھر اس نے کہا دیکھیے میں نے خداوند سے بات کرنے کی جرأت کی، شاید وہاں بیس ملیں، اس نے کہا میں بیس کی خاطر بھی اسے نیست نہیں کروں گا، تب اس نے کہا اگر خداوند ناراض نہ ہوں تو میں ایک بار اور عرض کروں شاید وہاں دس ملیں، اس نے کہا میں دس کی خاطر بھی اسے نیست نہیں کروں گا، جب خداوند ابراہام سے باتیں کرچکا تو چلا گیا اور ابراہام اپنے مکان کو لوٹا۔‘‘ (دعوتِ دین اور اس کا طریق کار، صفحہ 100، مولانا امین احسن اصلاحی)
قرآن مجید میں اسے اللہ تعالیٰ نے پیار سے جھگڑا کہا ہے اور پسند کیا ہے۔ اس لفظ سے یہ حسین منظر انکھوں کے سامنے آجاتا ہے کہ بندہ اصرار کررہا ہے کہ کسی طرح قوم لوط پر سے عذاب ٹال دیا جائے۔ خدا جواب میں کہہ رہا ہے کہ یہ قوم اب خیر سے بالکل خالی ہوچکی ہے اور اس کے جرائم اس حد سے گزر چکے ہیں کہ اس کے ساتھ کوئی رعایت کی جا سکے، مگر بندہ ہے کہ پھر یہی کہے جاتا ہے کہ ’’پروردگار اگر کچھ تھوڑی سی بھی بھلائی اس میں باقی ہو تو اسے اور ذرا مہلت دے دے، شاید کہ وہ بھلائی پھل لے آئے‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جانتے تھے کہ قوم لوطؑ کا احوال کیا ہے! خود ان کا ملازم بھی وہاں سے سر پھٹوا کر آچکا تھا۔ حضرت لوطؑ کو یہ آئے دن دھمکی دیتے رہتے تھے کہ ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ لیکن پھر بھی وہ اس فیصلے پر خوش نہیں ہوتے۔ یہ نہیں کہتے کہ میں تو اسی فیصلے کا منتظر تھا، اس قوم کے ساتھ یہی ہونا چاہیے۔ یہاں ہمیں داعی کا مثالی صبر اور حوصلہ ملتا ہے۔ دوسری نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ بادشاہِ ارض و سما اپنے بندے کے لیے ایک ناپسندیدہ خبر بھیجتا ہے… تو پہلے ایک خوش خبری دیتا ہے… اس کے بعد وہ خبر سنائی جاتی ہے جو بندے کے لیے ناخوشی کی وجہ ہو۔ ہمارے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ ہم اپنے ماتحتوں کی دلجوئی کرتے ہوئے انہیں اپنے فیصلوں سے آگاہ کریں۔
دوسری طرف جب یہ فرشتے نہایت خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوطؑ کے گھر پہنچے تو بستی والوں نے ان کے گھر کا گھیرائو کرلیا اور بڑی ہٹ دھرمی سے ان لڑکوں کی حوالگی کا مطالبہ کردیا۔ ان خوبصورت لڑکوں کو دیکھ کر ان پر نشہ سا چھایا ہوا تھا اور وہ آپے سے باہر ہورہے تھے۔ قریب تھا کہ گھر کا دروازہ توڑ ڈالیں!!! فرشتوں نے حضرت لوطؑ کو گھر کے اندر کیا اور دروازہ بند کردیا اور باہر موجود کیا بچے کیا بڑے، سب کو اندھا کردیا اور وہ دروازہ ڈھونڈتے، ڈھونڈتے تھک گئے۔ یہ وقت حضرت لوطؑ کے لیے بڑا سخت تھا۔ ان کی پریشانی کو فرشتوں نے سمجھتے ہوئے انہیں بتادیا کہ یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، ہم فرشتے ہیں، ان کے لیے اللہ کا عذاب لائے ہیں، ان کا معاملہ ہم پر چھوڑ دیں، بس آپ یہ کریں کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ راتوں رات نکل جائیں، اب صبح ہونے میں زیادہ دیر بھی نہیں ہے، سوائے اپنی بیوی کے، اس کا انجام بھی ان کے ساتھ ہی ہوگا۔ اور ہاں آپ میں سے کوئی ان پر افسوس کرنے کے لیے یا عذاب کی صورتِ حال دیکھنے کے لیے پیچھے پلٹ کر بھی نہ دیکھے۔ نہ یہ قوم افسوس کے لائق ہے، نہ خدا کا عذاب ہی ایسی چیز ہے کہ اس کا تماشا دیکھا جائے۔ قوم لوط کے لوگ حضرت لوطؑ کے سامنے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے اس لیے وہ ان کی کوئی سفارش بھی نہ کرسکے اور نہ ہی مہلت مانگ سکے۔ حضرت لوطؑ جب رات کے پچھلے پہر اپنے بال بچوں کو لے کر نکل گئے تو صبح پو پھٹتے ہی یکایک ایک زور کا دھماکا ہوا، اور ایک ہولناک زلزلے نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کرکے رکھ دیا، ایک زبردست آتش فشانی اِنفجار سے ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسائے گئے اور ایک طوفانی ہوا سے بھی ان پر پتھراؤ کیا گیا۔ اس تباہی کی اطلاع پاکر حضرت ابراہیم علیہ السلام جب حبرون سے اس وادی کا حال دیکھنے آئے تو زمین سے دھواں اس طرح اٹھ رہا تھا جیسے بھٹی کا دھواں ہوتا ہے۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے انسان کو اس کی پیدائش کے وقت نیکی اور بدی الہام کردی تھی، اس لیے ہر انسان جانتا ہے کہ اچھائی کیا ہے اور برائی کیا ہے۔ اس حقیقت کے ساتھ اگر غور کریں تو اس شخص کا معاملہ تو ہلکا ہے جو صرف نفس کی کمزوری کی وجہ سے برائی کرتا ہے اور اچھائی کو پسندیدہ اور برائی کو غلط سمجھتا ہے۔ ایسا شخص کبھی اچھا بھی ہوسکتا ہے، اور اچھا نہ ہو تب بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک بگڑا ہوا انسان ہے۔ مگر جب کسی شخص کی ساری دل چسپی صرف برائی اور بدی میں ہو اور وہ سمجھے کہ اچھائی اس کے لیے ہے ہی نہیں، تو اب وہ انسان کے مرتبے سے گر گیا۔ حضرت لوطؑ سے انہوں نے کہا تھا: تجھے تو معلوم ہی ہے کہ تیری بیٹیوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں (سورہ ہود آیت نمبر 97)۔ یہ جملہ واضح کررہا ہے کہ وہ گندگی میں کس قدر ڈوب گئے تھے۔ حضرت لوطؑ اور ان کے گھر والوں کا ان کی بستی میں ہونا ان کے لیے باعثِ رحمت تھا۔ ان ہی کی وجہ سے وہ بچے ہوئے تھے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ:’’اے لوط، اگر تُو اِن باتوں سے باز نہ آیا تو جو لوگ ہماری بستیوں سے نکالے گئے ہیں اُن میں تُو بھی شامل ہوکر رہے گا‘‘ ( سورۃ الشعراء آیت نمبر 167)۔ اور ان کا آخری فیصلہ یہ تھا کہ ’’نکال دو لوط کے گھر والوں کو اپنی بستی سے، یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں‘‘ (سورہ النمل آیت نمبر56)۔ ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے حضرت ابراہیمؑ کی دعا اور خدا کی جانب سے جواب پیش نظر رہے… اور پھر حضرت لوطؑ کے بارے میں ان کا فیصلہ دیکھیں۔ انہیں اپنے درمیان نیکی کی طرف بلانے والوں اور بدی پر ٹوکنے والوں کا وجود تک گوارا نہ تھا۔ اس گھرانے کے وہاں سے نکل جانے پر وہاں کیا بچتا جس کے لیے اس قوم کو باقی رکھا جاتا؟ سڑے ہوئے پھلوں کے کارٹن میں جب تک چند اچھے پھل موجود ہوں اُس وقت تک تو کارٹن کو رکھا جاسکتا ہے، مگر جب وہ پھل بھی اس میں سے نکل جائیں تو پھر اس کارٹن کو کسی کوڑے دان میں ڈالنے کے سوا اور کیا کیا جائے؟ اندازہ کیجیے کہ اس قوم کی بداخلاقی کس حد کو پہنچ چکی تھی۔ بستی کے ایک شخص کے ہاں چند خوبصورت مہمانوں کا آجانا اِس بات کے لیے کافی تھا کہ اُس کے گھر کو غنڈے گھیر لیں!!! اور مطالبہ کریں کہ اپنے مہمانوں کو بدکاری کے لیے ہمارے حوالے کردے۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ غنڈوں کی اس لوٹ مار اور ظلم سے فائدہ تو صرف چند لوگ ہی اٹھاتے ہیں لیکن باقی کا جرم یہ ہے کہ انہیں روکتے نہیں… کوئی آواز ان کے خلاف نہیں اٹھتی، بلکہ سب خوشی خوشی تماشا دیکھنے آجاتے ہیں اور اس منظر پر ان کے دل میں بھی کسی شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا… یہی وہ آخری حد ہے جب کسی قوم کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ حضرت لوطؑ جیسے مقدس انسان اور معلّمِ اخلاق کے گھر پر بھی جب بدمعاشوں کا حملہ اس بے باکی کے ساتھ ہوسکتا تھا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عام انسانوں کے ساتھ ان بستیوں میں کیا کچھ ہورہا ہوگا۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین
وآخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین۔

حصہ