اور اُن کا باپ نیک آدمی تھا۔۔۔

1649

عابد علی جوکھیو
محبت خالقِ کائنات کی جانب سے ایک بہت بڑی نعمت ہے، انسان اسی جذبے کے تحت ایک دوسرے کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ ویسے تو خالقِ کائنات نے ہر انسان میں محبت کا جذبہ رکھا ہے، لیکن اس کا سب سے بڑا اظہار اولاد اور والدین کی محبت کی صورت میں ہوتا ہے۔ تاریخِ انسانی میں شاید ہی کوئی والدین ہوں جو اپنی اولاد سے محبت نہ کرتے ہوں۔ والدین کی تمام دوڑ دھوپ اور کوششیں اولاد کے لیے ہی ہوتی ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد نیک اور صالح بنے، خوشحال زندگی گزارے، دنیا کی ہر آسائش اس کے پاس ہو… الغرض وہ خوش و خرم اور آرام دہ زندگی گزارے۔ والدین اسی خواہش کی تکمیل کے لیے اپنی پوری زندگی کوشش کرتے ہیں۔ بچپن سے لے کر جوانی اور اس سے آگے کے ہر موقع پر والدین اپنے بچوں کے لیے سہارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ سب اسی محبت کا اظہار ہے جو اللہ نے والدین کے دل میں رکھی ہے۔ چونکہ والدین کی محبت فطری امر ہے، اس لیے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اور نہ ہی اسے غلط کہا جاسکتا ہے۔ اللہ نے جائز اور مباح کاموں میں کوئی نہ کوئی حد مقرر کی ہوتی ہے، والدین کی اولاد سے محبت نہ صرف مباح بلکہ پسندیدہ اور باعثِ اجر ہے، لیکن اللہ نے اس محبت کی بھی حد مقرر کی ہے، اور فرمایا کہ کہیں تمہیں اولاد کی محبت ہلاکت میں نہ ڈال دے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ:)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔ جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اُس وقت وہ کہے کہ’’اے میرے رب، کیوں ناں تُو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اَور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا۔‘‘ (المنافقون 9۔10)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’مال اور اولاد کا ذکر تو خاص طور پر اس لیے کیا گیا ہے کہ انسان زیادہ تر انہی کے مفاد کی خاطر ایمان کے تقاضوں سے منہ موڑ کر منافقت، یا ضعفِ ایمان، یا فسق و نافرمانی میں مبتلا ہوتا ہے، ورنہ درحقیقت مراد دنیا کی ہر وہ چیز ہے جو انسان کو اپنے اندر اتنا مشغول کرلے کہ وہ خدا کی یاد سے غافل ہوجائے۔ یہ یادِ خدا سے غفلت ہی ساری خرابیوں کی اصل جڑ ہے۔ اگر انسان کو یہ یاد رہے کہ وہ آزاد نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے، اور وہ خدا اس کے تمام اعمال سے باخبر ہے، اور اس کے سامنے جاکر ایک دن اسے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے، تو وہ کبھی کسی گمراہی و بدعملی میں مبتلا نہ ہو، اور بشری کمزوری سے اس کا قدم اگر کسی وقت پھسل بھی جائے تو ہوش آتے ہی وہ فوراً سنبھل جائے۔‘‘ (تفہیم القرآن)
اولاد کی محبت کو اسی لیے فتنہ کہا گیا ہے کہ وہ جہاں آپ کے لیے جنت کے ذریعہ بن سکتی ہے، وہیں جہنم کا سامان تیار کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جہاں مال ودولت انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے قربِ الٰہی کا ذریعہ بن سکتے ہیں، وہیں شیطان کے راستے میں خرچ کرنے سے اللہ کی ناراضی کا سبب بننے کی طاقت بھی رکھتے ہیں، اسی طرح اولاد جہاں آپ کے لیے اس دنیا اور بعد کی زندگی کے لیے باعثِ سکون ومسرت بن سکتی ہے، وہیں دونوں جہانوں میں پریشانی کا سامان مہیا کرنے والی بھی ہوسکتی ہے۔ اس معاملے میں دیکھنا صرف یہ ہے کہ ہم اولاد سے محبت کس حد تک کررہے ہیں۔ اگر یہ محبت خالق کی مقرر کردہ حدود اور دائرے میں ہے تو شکر ادا کرنا چاہیے، اور اگر ایسا نہیں تو اولاد کے بجائے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ کوئی بھی باشعور انسان دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت برباد نہیں کرسکتا۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے والدین کے طرزِعمل کو دیکھا جائے تو معاملہ بڑا سنگین نظر آتا ہے۔ اس وقت والدین کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی اولاد ہے۔ ان کی صرف یہی کوشش ہوتی ہے کہ بس کسی نہ کسی طرح ان کی اولاد آسودہ رہے۔ اور اس کے لیے باپ زیادہ سے زیادہ کمانے کی کوشش کرتا ہے، اپنے آپ کو ہلکان کردیتا ہے، حتیٰ کہ اس کے پاس اپنی آخرت کے لیے کوئی توشہ جمع کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے آپ کو بھول جاتا ہے، حالانکہ اسے واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ تمہاری اولاد تمہارے لیے فتنہ و آزمائش ہے۔ اسے اولاد اس لیے نہیں ملی کہ وہ صرف اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتا رہے، اس کی خواہشات پوری کرتا پھرے، اور اس کے لیے اپنی پوری توانائی صرف کردے۔ آج کا انسان بظاہر دین دار ہوتا ہے۔ نماز، روزے کا اہتمام کرتا ہے۔ لیکن اپنا سارا وقت دنیا کمانے میں صرف کرتا ہے کہ جب مرے تو اس کی اولاد آسودہ ہو۔ ایسے افراد نے حقیقت میں اپنی تمام تر زندگی اولاد کے لیے وقف کردی ہوتی ہے، وہ اولاد پرستی کے فتنے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اگر اولاد کے لیے کی جانے والی سعی میں دنیا کے ساتھ دین کا عنصر شامل ہو تو بعید نہیں کہ یہ عبادت بن جائے، لیکن یہ عبادت دین کی مجموعی محنت کے مقابلے میں کچھ نہ ہوگی کہ اصل کام اقامتِ دین ہے ، اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت اس کا ایک معمولی سا حصہ ہے۔
اولاد کے مستقبل کے حوالے سے سیدنا موسیٰ اور خضر علیہما السلام کے واقعے سے ایک اہم سبق ملتا ہے، جہاں اس واقعے میں کئی اسباق موجود ہیں، وہیں ایک بستی میں گرتی ہوئی دیوار کی مرمت کے واقعے میں والدین کے لیے ایک اہم سبق پنہاں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ) ’’پھر وہ (سیدنا موسیٰ اور خضر علیہما السلام) آگے چلے، یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا۔ مگر انہوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کردیا۔ وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گِرا چاہتی تھی۔ خضرؑ نے اس دیوار کو پھر قائم کردیا۔ موسیٰؑ نے کہا ’’اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اُجرت لے سکتے تھے‘‘ ( الکہف 76)۔ اس کے جواب میں خضر علیہ السلام نے کہا: ’’اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ اِس دیوار کے نیچے اِن بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ اس لیے تمہارے ربّ نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں… الخ (الکہف 82)
اس واقعے پر غور کریں، ایک شخص کا انتقال ہوجاتا ہے، اس کے پاس مال بھی ہوتا ہے، اور اس کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی اولاد پریشان نہ ہو، ان کے لیے کچھ مال چھوڑ جائے تاکہ وہ اس کے ذریعے بہتر زندگی گزار سکیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس شخص کی حالت کوئی مختلف نہیں تھی، اس کی بھی وہی خواہشات تھیں، جو آج کل کے والدین کی ہوتی ہیں۔ اس کے پاس مال بھی تھا، جو اس نے اپنے بچوں کے لیے چھپایا ہوا تھا… تو بالآخر وہ کون سی خصوصیت ہے جس کی بنا پر اس شخص کی خواہش کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندے کی ڈیوٹی لگادی…؟ جی، صرف ایک بات خاص تھی، جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے کہ ’’وکان ابوھما صالحا‘‘ (ان کے والد نیک انسان تھے)۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اولاد کے بہتر اور محفوظ مستقبل کے لیے بیمہ یا بینک بیلنس سے زیادہ ضروری انسان کا اپنا نیک اور صالح ہونا ہے۔ اگر بحیثیت والد ہم اپنے اعمال کو بہتر بنائیں، اللہ کے نیک بندوں کے اوصاف اپنانے کی کوشش کریں، نیک کام کریں، اللہ کے احکامات کی پیروی کریں، لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں، لوگوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا معاملہ کریں، ان کے حقوق ادا کریں، بندوں کی خدمت کریں، کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنیں، کسی کا حق غصب نہ کریں، اورنماز، روزہ کے ساتھ اقامتِ دین کے لیے جدوجہد کریں تو بعید نہیں کہ اللہ ہماری اولاد کو بھی نیک، صالح اور خوشحال بنائے۔ بہت دور کی بات نہیں، ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو اس کی مثالیں نظر آئیں گی، جن لوگوں نے اپنی تمام صلاحیتیں دین کی خدمت کے لیے وقف کردیں، لوگوں کی خدمت کی، انسانوں کے لیے آسانیاں فراہم کیں، ان کی اولاد کو اللہ نے دوسروں سے زیادہ ہی نوازا ہے۔ یہ صرف اسی لیے ہے کہ ایسے بچوں کی ذمے داری اللہ تعالیٰ خود لے لیتے ہیں، اور جس کی ذمے داری اللہ لے لے وہ کبھی بھی ناکام نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ اور آسودہ بنانے کے لیے اُس راستے کا انتخاب کریں، جو شریعت کی نگاہ میں مقبول بھی ہے اور یقینی بھی…

حصہ