اسرائیلی صدر کا دورہ بھارت

297

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل
ارض فلسطین پر قابض اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ سارہ ایک بڑے وفد کے ساتھ ہندوستان کے 6 روزہ دورے پر ہیں۔ یہ 2003 میں ایریل شیرون کے بعد کسی اسرائیلی لیڈر کا بھارت کا پہلا دورہ ہے۔ گزشتہ ماہ جنرل اسمبلی میں بیت المقدس پراقوام متحدہ کے جن ارکان ممالک نے جو قرارداد منظور کی تھی اس میں بھارت بھی شامل تھا۔ 128 ممالک نے امریکی صدر ٹرمپ کے اس اقدام کی نفی میں یہ قرارداد منظور کی جس میں امری کی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا گیا تھا صرف 9 ارکان نے اس قرارداد کی حمایت کی تھی جن میں خود امریکا اور اسرائیل بھی شامل تھے۔
اسرائیلی حکومت نے اس وقت بھارت کے اس مخالف ووٹ پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا لیکن اب اس کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو بھلا کر ہندوستان کے ساتھ بڑے پیمانے پر تعلقات بڑھانا چاہتا ہے۔ اس سے پہلے ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ اسلحہ فراہمی کا ایک ٹھیکا بھی منسوخ کیا تھا البتہ گزشتہ سال جب بھارتی وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا تو اس موقع پر دونوں ممالک کی درمیان کئی دفاعی اور تجارتی معاہددوں پر دستخط ہوئے تھے جن سے باہم تجارت میں اضافہ ہوا ہے اور اب بھی اس دورے کا ایک بڑا مقصد کاروباری شراکت کو بڑھانا ہے۔ گزشتہ سال دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم 5 بلین ڈالر رہا۔ اس مقصد کے لیے اسرائیلی وزیراعظم کے وفد میں 130 کاروباری شخصیات شامل ہیں جو ہندوستان کی مختلف کمپنیوں کے ساتھ معاملات طے کرکے تجارتی معاہدے کرنا چاہتی ہیں۔
نیتن یاہو نے اپنے دورے کا ایک بڑا مقصد دہشت گردی کے خلاف دونوں ممالک کا محاذ قائم کرنا بتایا ہے۔ اسرائیل ایک چھوٹا مگر عسکری لحاظ سے مضبوط ملک ہے وہ کئی جنگتوں میں اپنے حریف عرب ممالک کو شکست سے دوچار کر چکا ہے اس کے تمام مردوزن شہری فوجی تربیت یافتہ ہیں۔ اس کے پاس دنیا کا بہترین اسلحہ موجود ہے‘ اس کو عالمی سپر پاور امریکا کے علاوہ دیگر یورپی اقوام کی حمایت بھی حاصل ہے اس کے باوجود وہ خطرات میں گھرا ہوا ملک ہے۔ وہ ان ممالک کے نرغے میں ہے جو اس کے وجود کوتسلیم نہیں کرتے۔ جن فلسطینیوں کو مار مار اس نے اپنے گھروں سے نکال باہر کیا ہے وہ بھی انتقامی جذبے سے سرشار اس کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ غزہ کے علاقے سے اب بھی اس پر مقامی خود ساختہ میزائلوں سے حملے ہوتے ہیں جس کا جواب وہ زیادہ سنگ دلی سے دیتا ہے۔ وہ ایک ایسا ملک ہے جو ہر وقت حالتِ جنگ میں رہتا ہے اور اپنے وجود کے بارے میںفکر مند۔ اس کے مقابلے میں ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے۔ سوا ارب آبادی کا ملک جو ایک بڑی قوت بھی رکھتا ہے لیکن اس کو غربت کے علاوہ داخلی طور پرکئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کا ایک پڑوسی ملک چین عالمی طاقت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کے ساتھ اس کے سرحدی تنازعات ہیں اور دونوں کے باہمی تعلقات کسی بھی وقت ناخوش گوار ہوسکتے ہیں۔
اسرائیل کی طرح ہندوستان نے بھی سابقہ آزاد ریاست‘ ایک کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے خوب صورت خطے جموں و کشمیر پر قبضہ جمایا ہوا ہے جہاں آزادی کی ایک طویل جنگ لڑی جارہی ہے جس کو اس کے پڑوسی ملک پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ 8 لاکھ ہندوستانی فوج کشمیر کی سول آبادی سے برسرِ پیکار ہے جہاں ہزاروں نوجوانوں نے مسلح جدوجہد شروع کر رکھی ہے جس کو ہندوستان دہشت گردی کا نام دیتا ہے۔ اس طرح جہاں اسرائیل کو حماس‘ الفتح اور حزب اللہ جیسی تحریکوں سے واسطہ ہے اس لیے دونوں قائدین ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جاسوسی نظام اور عوامی مزاحمت کچلنے کے طریقے اور آلات کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔
نیتن یاہو کے دورے کا ایک اہم پروگرام ممبئی کے تاج ہوٹل کا دورہ اور تقریب میں شرکت ہے جہاں 2008 میں دہشت گردی کا ایک بڑا واقعہ ہوا تھا جس میں مقامی افراد کے علاوہ امریکی اور یہودی سمیت کئی غیر ملکی بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ہندوستان میں یہودی کمیونٹی کے نمائندوں سے بھی ان کی ملاقات کرائی گئی۔ ایک ایسے گیارہ سالہ لڑکے موشے سے بھی انہوں نے ملاقات کی جس کے ماں باپ اس حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملے کے الزام میں ایک ملزم اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ تاج ہوٹل پر حملے کی منصوبہ بندی کا الزام پاکستان کی تنظیم لشکر طیبہ پر لگایا جاتا ہے جس کی بنیاد پر اورہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں اس پر پابندی بھی لگائی جا چکی ہے۔
ممبئی میں تاج ہوٹل کے دورے کے علاوہ دنیا کی ایک بڑی فلم انڈسٹری ’’بالی ووڈ‘‘ کی ممتاز شخصیات سے بھی مہمان وفد نے ملاقات کی جن میں سدا بہار فلمی شخصیت امیتابھ بچن اور ابھیشک بچپن بھی شامل تھے۔ اسرائیل ہندوستان میں جن شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے اس میں فلمی صنعت بھی شامل ہے جو دنیا میں ایک منافع بخش کاروبار سمجھا جاتا ہے۔ اسی فلمی صنعت سے جہاں بے شمار افراد وابستہ ہیں وہاں ہندوستانی مذہبی انتہا پسند تنظیمیں بھی خوب مال سمیٹتی ہیں۔
مہمان جوڑے کو خاص طور پر دنیا کے 7 بڑے عجائبات میں شامل تاج محل کی بھی سیر کرائی گئی جسے آگرہ میں ہندوستان کے مسلمان بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی ملکہ کی محبت میں تعمیر کروائی تھی اور اب یہ شاندار عمارت دنیا بھر کی سیاحت کا ایک بڑا مرکز ہے۔ نیتن یاہو اور اس کی بیوہ سارہ نے اس موقع پر اپنی خاص تصاویر بھی بنوائیں جو دنیا بھر کے اخبارات کی زینت بنیں۔ اس موقع پر تمام سیاحوں کو تاج محل سے نکال دیا گیا تھا۔
اسرائیلی وفد نے بھارتی وزیراعظم کے آبائی صوبے گجرات کا بھی دورہ کیا جس کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ماڈل صوبے کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ نیتن یاہو نے اپنے وفد کے کاروباری شرکا کے ہمراہ کئی تجارتی مراکز اور صنعتی اداروں کادورہ کیا اور سرمایہ کاری کے لیے کئی منصوبوں پر تبادلہ خیال ہوا۔ اسرائیل کی خواہش ہے کہ ہندوستان کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے پر اتفاق ہو جائے لیکن بھارتی قیادت نے اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی منڈیوں میں اسرائیلی مصنوعات کی کھپت پر بھی کئی مسائل کا اندیشہ ہے۔ بھارتی انتہا پسند گروہ غیر ملکی سامان کی فروخت کے خلاف عوامی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے چینی اور پاکستانی ساختہ اشیاء کو خاص طورپر ہدف بنانے کے ساتھ دیگر غیر ملکی مصنوعات کو بھی ملکی معیشت اور دیسی صنعتوں کے لیے خطرہ قرار دیا ہے لیکن اسرائیلی وفد کے ارکان بھارتی مارکیٹوں میں اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہیں ہند سرکار کی آشیرباد درکار ہے۔
اس وقت دنیا میں امریکا‘ اسرائیل اور بھارت مل کر ایک نئے بلاک کی صورت میں ابھر رہے ہیں۔ یہ تینوں ایٹمی ممالک ہیں اور بظاہر ان کے درمیان قدرِ مشترک نظر نہیں آتیں لیکن اس کے باوجو دیہ باہم اشتراک و تعاون کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ امریکا اور اسرائیل پہلے سے یک جان دو قالب کی حیثیت رکھتے تھے لیکن بھارت اس میں اضافہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق قدامت پسند ری پبلکن پارٹی سے ہے اور وہ خود کیتھولک عیسائی ہیں جب کہ نیتن یاہو کا تعلق قدامت پسند لیکوڈ پارٹی سے ہے اور وہ یہودی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور صہیونیت کی تحریک سے وابستہ ہیں جبکہ نریندر سنگھ مودی ہندو انتہا پسند تنظیم بھارتیہ جنتاپارٹی سے ہیں جو ہندو توا کے علمبردار ہیں اس لیے یہ دنوں مختلف مذاہب اور نظریات کی حامل شخصیات ہیں لیکن باہمی مفادات نے ان کو ایک صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ ہندوستان جو خود کو سیکولر ریاست قرار دیتا ہے اور ایک زمانے میں غیر جانبدار تحریک اور روسی کمیونسٹ بلاک سے منسلک تھا اب آہستہ آہستہ امریکی اتحادی بن چکا ہے جس کا اظہار سابق امریکی صدر اوباما کے دور سے ہو رہا تھا لیکن اب ٹرمپ نے کھل کر اس کو بیان کر دیا ہے لیکن بھارت ان دونوں ممالک کے مقابلے میں کئی گنا بڑا ہونے کے باوجود غریب ملک ہے اور ترقی پزیر ہے اس لیے اس کو بیرونی سرمایہ کاری درکار ہے جس کے لیے امریکی اور اسرائیلی صنعت کار تیار ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ہندوستان کی ایک ارب سے زائد آبادی کو ایک بڑی تجارتی منڈی کی صورت میں بھی دیکھتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کے آرزو مند ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے دورے سے کچھ پہلے بھارتی سہنا کے چیف آف اسٹاف جنرل بیپن روات نے اپنے پے در پے بیانات میں ہمسایہ ممالک کو دھمکی آمیز پیغامات دیے تھے۔ انہوں نے بیک وقت دو محاذ پر لڑنے کے لیے بھارتی فوج کی حکمت عملی اور صلاحیت کے حصول کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ Two points War کا نظریہ کافی عرصے سے بھارتی عسکری حلقوں میں زیر بحث رہا ہے۔ بھارت چین اور پاکستان سے بیک وقت جنگ لڑنے کی تیاری کر رہاتھا لیکن اب جنرل روات کا کہنا ہے کہ ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ چین اگر لداخ اور ارونا چل پردیش کے محاذ پر لڑے گا اور پاکستان کشمیر اور سیالکوٹ کے محاذ کھولے گا تو بھارت ان سب محاذ پر ان کو شکست دے گا۔ اس کے رافیل طیارے‘ براہموس میزائل اور ایٹمی صلاحیت ان دونوں ممالک کو ناکوں چنے چبوا سکتا ہے لیکن بھارتی جنرل کے یہ دعوے کئی لحاظ سے محلِ نظر ہیں۔ بھارتی فوج کا تربیتی معیار اور اسلحہ کی صورت حال اس معیار کی نہیں جس کی بنیاد پر وہ کامیاب جنگی حکمت عملی بنا سکے۔ کیا امریکا اور اسرائیل اس کی اس کمی کو پورا کرسکتے ہیں۔ اسرائیل پہلے بھی کشمیری مجاہدین کے خلاف حکمت عملی میں بھارت کو تیکنیکی مشورے دے چکا ہے۔ وہ ڈرون ٹیکنالوجی بھی بھارت کو دینا چاہتا ہے لیکن اس کی قیمت بھی وصول کرنا چاہے گا۔ اسی طرح امریکا بھی F-16 جہاز بھارت کو مفت میں نہیں دینا چاہتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے کچھ تقاضے ہیں کیا بھارت اپنے مفلوک الحال عوام سے یہ قیمت وصول کرے گا؟

حصہ