برصغیر میں اسلام کے احیا اورآزادی کی تحریکیں

816

اجتماع میں اراکین کی اکثریت نے ایک قرارداد کے ذریعے مولانا سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا استعفیٰ واپس لیں۔ قرارداد کے پیش ہوجانے پر رائے شماری ہوئی اور قرارداد بھاری اکثریت سے منظور ہوگئی۔ اس قرارداد کے متن کی آخری سطر اس طرح تھی: ’’اور اراکینِ جماعت یقین دلاتے ہیں کہ ہم ان کی (مولانا مودودی کی جانب اشارہ ہے) مشکلات کو دور کرنے اور ان سے پورا پورا تعاون کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔‘‘
قرارداد کے بعد جو اراکین اظہارِ خیال کرنا چاہتے تھے اُن کو دستوری و جمہوری شان کے مطابق تقریر کا موقع دیا گیا۔ جن اراکین نے اس بحث میں حصہ لیا اُن میں مولانا امین احسن اصلاحی، نعیم صدیقی، حکیم عبدالرحیم اشرف، ملک سعید ایڈووکیٹ، عبدالجبار غازی، افتخار احمد بلخی، ڈاکٹر مسعود عثمانی، ڈاکٹر اسرار احمد، ارشاد احمد حقانی، مشرقی پاکستان کے مولانا عبدالرحیم اور پروفیسر غلام اعظم کے علاوہ بھی کچھ اراکین شامل تھے۔
قرارداد منظور ہوجانے کے بعد مولانا مودودی نے اراکینِ جماعت کی رائے کا احترام کرتے ہوئے امارت کی ذمہ داری سنبھالنے پر آمادگی ظاہر کی۔ جس کے بعد 26 رکنی مجلسِ نمائندگان کا انتخاب ہوا، اور دستورِ جماعت اسلامی میں کچھ ترامیم تجویز کی گئیں جنہیں اراکینِ جماعت کے سامنے منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔ اور پھر مولانا مودودی نے ’’تحریکِ اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل‘‘ کے عنوان سے اراکین کے سامنے ایک مدلل تقریر فرمائی۔ اس تقریر کے بعد چار قراردادیں بھی پیش ہوئیں۔ ان قراردادوں میں جماعت اسلامی کی موجودہ پالیسی اور کام کے طریقۂ کار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مولانا کی رائے سے اختلاف رکھنے والے اراکین نے کچھ تجاویز بھی پیش کیں۔ ایک قرارداد میں یہ تجویز کیا گیا کہ الیکشن میں پانچ سال تک حصہ نہ لیا جائے بلکہ صرف اصلاحِ معاشرہ کا کام کیا جائے، جبکہ ایک قرارداد میں تجویز کیا گیا تھا کہ اگر انتخاب میں حصہ لینا ضروری ہے تو پھر اچھی طرح سوچ بچار کے بعد چار یا پانچ نشستوں پر ہی انتخاب لڑا جائے۔ لیکن اراکینِ جماعت کی اکثریت نے ان تمام قراردادوں کو مسترد کرتے ہوئے صرف مولانا مودودی کی پیش کردہ تجویز پر اتفاق کیا، اور جب رائے شماری ہوئی تو اس کے حق میں 920 ووٹ آئے جبکہ مخالفت میں صرف 15 اراکین نے ووٹ دئیے۔ اس طرح اکثریت نے دعوتِ الی اللہ کے کام کے لیے اصلاحی و سیاسی میدان دونوں کے حق میں فیصلہ دیا، اور یوں جماعت اسلامی اراکین کی اکثریتی رائے سے آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دینے میں کامیاب رہی۔
مولانا امین احسن اصلاحی، ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر مسعود عثمانی اور ارشاد احمد حقانی سمیت دیگر اختلاف کرنے والے اراکین نے اپنے کام کے لیے اصلاحی میدان کا انتخاب کیا۔ اس اجتماعِ اراکین کے بعد مندرجہ بالا اختلاف کرنے والے اراکین نے جماعت اسلامی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے اپنی تصنیف ’’تحریکِ جماعتِ اسلامی… ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ میں روداد اجتماعِ ماچھی گوٹھ کے حوالے سے اپنی یادداشت میں لکھا ہے کہ اس اجتماع سے پہلے دو سال قبل کراچی میں نومبر 1955ء میں جو اجتماع ہوا تھا، اس میں ایک اجلاس مرکزی شوریٰ کا ہوا، جس کے سامنے بہت سے اعتراضات، متبادل تجاویز و مشورے پیش کیے گئے جو جماعت کی پالیسی اور نظام سے متعلق جماعت کے اراکین کی جانب سے موصول ہوئے تھے، جن پر اراکین جماعت اجتماع میں بحث کرنا چاہتے تھے۔ مرکزی شوریٰ نے اس اندیشے کی بنیاد پر کہ اگر اس پر بحث کا آغاز ہوگیا تو اجتماع میں ہنگامہ برپا ہوجائے گا، یہ فیصلہ کیا کہ ان اعتراضات اور تجاویز پر غور کرنے کے لیے ایک مجلس کا انتخاب عمل میں لایا جائے جو جماعت کے لیے ایک نیا دستور مدون کرے اور اعتراضات و تجاویز کے لیے ایک جائزہ کمیٹی تشکیل دی جائے جس کے سپرد یہ خدمت ہو کہ وہ تمام اراکینِ جماعت سے فرداً فرداً رابطہ کرکے ان کی بے چینی کے اسباب معلوم کرے اور جو تجاویز ان کے ذہنوں میں ہوں، مرتب کرکے ایک جامع رپورٹ مرکزی شوریٰ کو پیش کرے۔ یہ مجلس ابتداء￿ آٹھ اراکین پر مشتمل تھی، لیکن چند ماہ بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اس کو مختصر کردیا گیا اور حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب کی سرکردگی میں ان کے علاوہ مرکزی مجلس شوریٰ کے تین اور بزرگ اراکین یعنی مولانا عبدالجبار غازی صاحب، مولانا عبدالغفار حسن صاحب اور جناب شیخ سلطان احمد صاحب پر مشتمل اس جائزہ کمیٹی نے آٹھ ماہ پورے پاکستان کا دورہ کرکے اپنے فرائض کو ادا کیا اور نومبر 1956ء میں اپنی رپورٹ مرکزی شوریٰ کو پیش کی۔‘‘ ڈاکٹر اسرار احمد نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ ’’خیال رہے کہ یہ وہی تین افراد ہیں جن پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور امین احسن اصلاحی کی غیر موجودگی میں وقتاً فوقتاً جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کی ذمہ داری ڈالی گئی۔‘‘
آگے چل کر ڈاکٹر اسرار احمد اس واقعے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اس معاملے میں سارا الزام میں جماعت کے متعلقین کو ہی نہیں دیتا، واقعہ یہ ہے کہ ان کی ایک غالب اکثریت کے سامنے نہ صرف یہ کہ اختلاف کی صحیح نوعیت اپنی اصل صورت میں کبھی نہیں آئی، بلکہ اہلِ اختلاف نے اظہارِ اختلاف کا جو طریقۂ کار اختیار کیا اُس کی بھی جو صورت اُن کے سامنے آئی وہ بظاہر بہت بھونڈی اور ناقابلِ فہم تھی۔ نتیجتاً جماعتی عصبیت کی وہ کچی دیوار جو فطری طور پر پہلے بھی دلوں میں موجود تھی، تعصب کی ایک پختہ فصیل میں تبدیل ہوگئی۔‘‘
اجتماعِ ارکان ماچھی گوٹھ میں امیر جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد اور پھر اس کی98 فیصد اراکین کی بھاری تعداد میں منظوری کے بعد جو صورت حال پیش آئی اُس میں جماعت اسلامی کی پالیسی سے اختلاف رکھنے والے اراکین کے سامنے دو ہی راستے موجود تھے۔ ایک یہ کہ وہ اپنی رائے سے رجوع کرتے ہوئے اپنے اختلاف کو اراکینِ جماعت کے اجتماعی فیصلے کے آگے قربان کردیتے، یا پھر اخلاقی طور پر جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوکر اسی مقصد کے حصول کے لیے اپنے فہم و فراست کی بنیاد پر اصلاحِ معاشرہ کے لیے کام کرتے۔ چنانچہ اختلاف رکھنے والے اراکین نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا‘‘۔
اسرار احمد صاحب کے مطابق’’مولانا امین احسن اصلاحی سمیت کم و بیش پچاس ساٹھ ارکانِِ جماعت، جماعت سے علیحدہ ہوئے۔ اور پھر الزامات اور ان کے جوابات کا جو تلخ سلسلہ شروع ہوا اُس نے جماعت کی اندرونی اور اس کے قریب کی فضا کو اس درجہ مکدر کردیا تھا کہ اس میں اس بات کا سرے سے کوئی امکان باقی نہیں رہ گیا تھا کہ کسی بھی بات پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جاسکے۔‘‘
کتاب ’’المودودی‘‘ جس کے مصنف جناب نعیم صدیقی مرحوم ہیں، اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ اجلاس ارکان کے والہانہ جذبے کا ایک روشن ثبوت ہے، کیونکہ حاضری کا تناسب دوسری جماعتوں کے مقابلے میں ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ مالی مشکلات کے باوجود (مشرقی پاکستان کے ارکان کے لیے اجلاس میں شرکت کی راہ میں غیر معمولی مشکلات بھی پیش نظر رہیں) کثیر تعداد میں ارکانِ جماعت حاضر ہوئے، جن میں خواتین بھی تھیں۔ کچھ لوگ بیمار اور ضعیف تھے، اور ایک دو رفقاء تو بالکل نابینا تھے‘‘۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس اجلاس میں جماعت کی پالیسی، ایک چار نکاتی لائحہ عمل دعوتِ الی اللہ، توسیع و تنظیم، اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ ادارہ حکومت کی شکل میں صرف پندرہ آراء کے اختلاف کے ساتھ طے پائی۔
اراکین نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ بھی دے دیا کہ پالیسی کے ان چار اجزاء میں سے کسی کو بھی ساقط، معطل یا مؤخر نہیں کیا جاسکے گا۔
خصوصاً انتخابات کے بارے میں پوری طرح صراحت کردی کہ جماعت اسلامی ان سے بے تعلق بہرحال نہیں رہ سکتی، اسے بالواسطہ یا بلاواسطہ یا دونوں طرح حصہ ضرور لینا ہوگا۔ البتہ ہر انتخاب کے موقع پر اس امر کا تعین کہ تینوں میں سے کس صورت کو اختیار کیا جائے، جماعت کی مجلسِ شوریٰ کی ذمہ داری ہوگی۔‘‘
مولانا نعیم صدیقی مرحوم لکھتے ہیں کہ ’’اس فیصلے سے جماعت اسلامی تذبذب سے نکل کر یکسوئی و یکجہتی کے مقام پر آگئی۔ اس قرارداد نے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے طے کردیا کہ جماعت اسلامی محدود معنوں میں ’’مذہبیت‘‘ کی علَم بردار نہیں بلکہ وہ تحریکی پیمانے پر نظریۂ اسلامی کو لے کر اٹھی ہے اور نظام حیات کو اس کے تمام شعبوں سمیت عملاً بدلنا چاہتی ہے۔ مزید یہ کہ گزشتہ چند ماہ سے جماعت کے اندر اختلافات و انتشار پائے جانے اور گروہ بن جانے کے چرچے مخالف حلقوں میں ہورہے تھے، اس اجلاس کے فیصلوں نے ان کو ناکارہ بنادیا ہے۔ جماعت کے دستوری ڈھانچے میں تغیر لانے والی قراردادیں بہت مختصر بحث کے بعد جس درجے کے اتفاقِ رائے سے نہایت خوشگوار فضا میں ارکان نے طے کی ہیں یہ اس بات کی گواہی ہے کہ اس جماعت کا اجتماعی ذہن پیش نظر مسائل و معاملات پر کیسی یکجہتی سے سوچتا ہے اور نئی ضروریات کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کتنا وسیع اجتہادی ظرف رکھتا ہے۔ ہماری جماعتی فضا نہ تو جمود کا شکار ہوئی ہے نہ انتشارِ فکر کا!‘‘
حوالہ جات: تحریکِ جماعتِ اسلامی ایک تحقیقی مطالعہ۔ از ڈاکٹر اسرار احمد
المودودی: نعیم صدیقی
تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل : سید ابوالاعلیٰ مودودی
تاریخ جماعت اسلامی حصہ دوم : آباد شاہ پوری
(جاری ہے)

حصہ