اخبار ادب

916

ڈاکٹر نثار احمد نثار
شعری مجموعے ’’سخت دل‘‘ کی تعارفی تقریب
سابق گورنر آف سندھ معین الدین حیدر نے کہا ہے کہ نصیر حیدر کی شاعری اپنے رسم و رواج سے جڑی ہوئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نصیر حیدر مرحوم کے مجموعۂ کلام ’’سخت دل‘‘ کی تعارفی تقریب میں کیا جس کے مہمان خصوصی رسا چغتائی تھے۔ آئرن فرحت نے نظامت کی، محمود احمد خان نے استقبالیہ کلمات پیش کیے۔ نسیم نازش نے منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ رسا چغتائی نے کہا تھا کہ سید نصیر حیدر کے صاحبزادوں نے اپنے والد کا کلام شائع کرکے قابلِ تحسین کام کیا ہے، اس طرح ان کے والد کے اشعار ادب نواز لوگوں تک پہنچ جائیں گے۔ ڈاکٹر محمد رضا کاظمی نے کہا کہ نصیر حیدر کے یہاں تصوف کے مضامین بھی ملتے ہیں اور عشقِ مجازی کے بھی۔ ان کا اندازِ سخن دل چسپ و دل نواز ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ نصیر حیدر کی شاعری انسانی جذبات کی آئینہ دار ہے، انہوں نے اپنے داخلی تجربات کو شاعری میں ڈھالا ہے جب کہ معاشرتی رویوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ فراست رضوی نے کہا کہ نصیر حیدر کی شاعری سچے جذبات کی آواز ہے، انہوں نے اپنے کلام میں وحدت الوجود کا نظریہ بھی نظم کیا ہے، وہ ایک کھرے انسان تھے، انہوں نے معاشرے کو گہری نظروں سے دیکھا، انہوں نے مسائلِ زمانہ پر بہت لکھا ہے۔ ڈاکٹر سید رضی محمد نے کہا کہ نصیر حیدر ایک سینئر شاعر تھے، ان کے کلام میں غنائیت ہے، ان کا اندازِ بیاں دل میں اتر جاتا ہے، وہ کلاسیکی انداز میں اشعار کہتے تھے۔ معین الدین حیدر نے مزید کہا کہ ہر سخن ور چاہتا ہے کہ اس کی شاعری سماجی ٹھیکیداروں کے معاملات طشت ازبام کرے لیکن ہر اچھا شاعر اپنی بات اس خوبی سے کہتا ہے کہ وہ لوگوں کو گراں نہ گزرے۔ شاعری خوب صورت الفاظ میں مفہومِ زندگی بیان کرنے کا نام ہے، جو قلم کار زندگی کو نظم نہیں کرتے وہ ناکام رہتے ہیں کیونکہ زندگی و ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

رسا چغتائی انتقال کر گئے

اردو ادب کے منظرنامے میں مدتوں تک جگمگانے والے مرزا محتشم علی بیگ المعروف رسا چغتائی 5 جنوری 2018ء کو دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ مرحوم 1928ء میں ہندوستان کی ریاست جے پور میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 1950ء میں ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ وہ قلندر صفت اور منکسرالمزاج انسان تھے۔ اس وقت پورے کراچی میں سب سے سینئر شاعر تھے۔ انہوں نے چھوٹی بحروں میں کمال کی شاعری کی ہے۔ سہلِ ممتنع میں اشعار کہتے تھے۔ ان کے بہت سے اشعار حالتِ سفر میں ہیں۔ 2001ء میں حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ برائے حُسن کارکردگی سے نوازا تھا۔ ان کی تصانیف میں ریختہ، زنجیر، ہمسائیگی، تصنیف، چشمہ ٹھنڈے پانی کا، تیرے آنے کا انتظار رہا شامل ہیں۔ وہ پاکستان اور بیرونِ پاکستان متعدد عالمی مشاعروں میں شریک ہوتے رہے اور اپنے انتقال سے پہلے 31 دسمبر 2017ء کو پروفیسر جاذب قریشی کی تقریب پزیرائی کی مجلس صدارت میں شامل تھے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی دسویں عالمی اردو کانفرنس کے مشاعرے میں شریک ہوئے اور سامعین سے داد و تحسین وصول کی۔ 5 جنوری 2018ء کی رات ان کی طبیعت خراب ہوئی، انہیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا، ابھی ان کے مختلف ٹیسٹ ہورہے تھے کہ وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 6 جنوری 2018ء کو کورنگی کے قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی، جب کہ 7 جنوری 2018ء کو تاج مسجد آئی ایریا کورنگی میں ان کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کی گئی۔ ان کے جنازے میں ان کے قریبی عزیزوں، محلے داروں اور رشتے داروں کے علاوہ جن لوگوں نے شرکت کی ان میں شکیل عادل زادہ، خواجہ رضی حیدر، رشید اثر، مختار حیات، اخلاق احمد، مبین مرزا، صابر وسیم، رونق حیات، ظفر محمد خان ظفر، جمیل احمد، قادر بخش سومرو، اختر سعیدی، اجمل سراج، ڈاکٹر اوجِ کمال، طارق جمیل، انورانصاری، اقبال خاور، منظور رضی، پروفیسر شاہد کمال، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی، سحر تاب رومانی، رشید خاں رشید، محمد علی گوہر، راقم الحروف، شعیب ناصر، کاشف حسین غائر، محمد اعظم عظیم، ظفر بھوپالی، جاوید لطیف، الطاف احمد، سلیم احمد، یوسف چشتی، قاسم جمال، سیمان نوید، علی زبیر، اسحاق خان اسحاق، رئیس خان ایڈووکیٹ، احمد انور، کامران طالش، اسامہ امیر، محسن سلیم، عارف رحمان، زاہد عباس، عبدالرحمن مومن اور علی علی رانا شامل تھے۔
راقم الحروف کے نزدیک رسا چغتائی ایک جہاں دیدہ شاعر تھے، وہ اپنے دور کے مسائل و معاملات کو سمجھتے تھے جس کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ کیا ہے۔ انہیں پاکستان کے قیام سے جو امیدیں وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں، ان کے خواب بکھر گئے جس کا وہ برملا اظہار کیا کرتے تھے۔ ان کی شاعری میں قوت و توانائی تھی جس کے باعث وہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔ انہوں نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ:
ہوئے رسا نہ ہوئے مرزا محتشم علی بیگ
وگرنہ ہوتے تجمل حسین خاں کی طرح
یہ شعر رسا چغتائی کے طرزِ حیات کی نمائندگی کرتا ہے، دوسری طرف وہ کہتے ہیں:
ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں
میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں
اس شعر میں رسا چغتائی کا انداز دیکھیے، تغزل سے بھرپور یہ شعر ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وہ میر تقی میر کے مقلد تھے مگر غالب کو بھی Follow کرتے تھے۔ انہیں نہ ستائش کی تمنا تھی نہ کسی صلے کی، انہوں نے کلرکی اور عدالت کی پیش کاری میں اپنی زندگی کے قیمتی سال صرف کردیے۔ انہوں نے حریت اخبار میں بھی کام کیا۔ وہ محنتی آدمی تھے۔ P.R کے آدمی نہیں تھے، انہیں خوشامد پسندی اور چاپلوسی سے نفرت تھی، وہ ایک پیدائشی شاعر تھے، وہ شاعری کی بلندیوں پر فائز تھے، غزل کے تمام مضامین ان کے یہاں پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے غزل کی ترویج و اشاعت میں اپنی زندگی لگا دی۔ وہ غزل کی آبرو تھے، ہر زمانے اور ہر دور میں شاعری کا انداز تبدیل ہوتا رہتا ہے لیکن رسا چغتائی کی شاعری سدا بہار ہے۔ انہوں نے کہا کہ:
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسمِ بہار رہا
رسا چغتائی کی غزلوں میں ان کے عشق کے احوال، محبوب کے خدوخال جگہ جگہ نظم ہوئے ہیں، لیکن انہوں نے زندگی کی مادی و خارجی حقیقتوں کو نظرانداز نہیں کیا، وہ بڑے حوصلے سے تغیر پزیر زندگی گزارنے کے عادی تھے۔ وہ پورے قدوقامت کے ساتھ ادبی منظر میں زندہ رہے۔ ان کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ انہیں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے کوریج دی۔ بلاشبہ وہ ایک عظیم انسان اور عظیم شاعر تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔

موضوعاتِ قرآن پر انسائیکلو پیڈیا کی تعارفی تقریب

سعیدالظفر صدیقی ہمہ جہت شخصیت ہیں‘ وہ کیمیادان ہیں‘ مصنف ہیں‘ محقق ہیں‘ شاعر اور مذہبی اسکالر ہیں۔ ان کی 13 کتابیں اشاعت پزیر ہوچکی ہیں‘ تین کتابوں میں ان کے فن و شخصیت پر بات کی گئی ہے، کچھ شعری مجموعے ہیں اور کچھ نثری کتابیں ہیں۔ ان کا شمار سینئر شعرا میں ہوتا ہے، وہ متعدد ادبی تنظیموں کی ’’سہولت کار‘‘ ہیں کہ ان کے تعاون و معاونت سے شعری نشستیں آباد ہو رہی ہیں انہوں نے آج سے پانچ برس پہلے موضوعاتِ قرآن انسائیکلو پیڈیا مرتب کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا وہ اپنی شبانہ روز محنت و کوششوں کے باعث اس انسائیکلو پیڈیا کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے جس کی تعارفی تقریب 7 جنوری 2018ء کو منعقد ہوئی۔ صدارت محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کی۔ مہمانان خصوصی میں پرفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم‘ حاذق الخیری‘ مفتی محمد نعیم‘ انیق احمد اور ڈاکٹر فضل احمد شامل تھے۔ پروفیسر سلیم مغل نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ کلام مجید اور نعتِ رسولؐ کی سعادت حافظ نعمان طاہر نے حاصل کی۔ اس موقع پر انیق احمد نے کہا کہ قرآن ہمیشہ سے انسان کی رہنمائی کر رہا ہے اور قیامت تک یہ کتاب ہمارے لیے راہِ نجات ہے قرآن کو سمجھا جائے اور اس کے احکامات پر عمل کیا جائے۔ سعید الظفر صدیقی نے قرآنی موضوعات پر انسائیکلو پیڈیا ترتیب دے کر نہایت قابل تحسین کام کیا ہے۔ اس تقریب میں سہیل احمد نے ابتدائی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے تمام اراکین و عہدیداران کی جانب سے سعید الظفر صدیقی کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر نظم سنا کر کافی داد و تحسین بھی حاصل کی۔
ڈاکٹر فضل احمد نے کہا کہ آج کی نشست میں شرکت باعث ثواب ہے کیونکہ قرآن پڑھنا قرآن سننا عبادت ہے انہوں نے مزید کہا کہ عہدِ حاضر کے صاحب علم‘ بااخلاق و باکردار سچے اور کھرے انسان‘ ادب دوست‘ سخن شناس‘ شاعر و ادیب‘ کیمیا دان میرے دوست سعید الظفر صدیقی ایسے ہی خوش نصیب افراد میں سے ہیں جن کو ربِ کریم نے ایک نیک کام کے لیے چن لیا اور انہوں نے موضوعاتِ قرآن پر مشتمل انسائیکلو پیڈیا ترتیب دی یہ انسائیکلو پیڈیا ہر لائبریری‘ اسکول و مدرسہ کالج و یونیورسٹی‘ تحقیقی و علمی ادارے اور ہر گھر کی ضرورت ہے۔
مفتی نعیم نے کہاکہ انہوں نے انسائیکلو پیڈیا کا مطالعہ کیا ہے میرے نزدیک یہ ایک اہم دستاویز ہے اللہ تعالیٰ اس کارِ خیر کا اجر سعید الظفر صدیقی کو دے گا۔ حاذق الخیری نے کہا کہ اس انسائیکلو پیڈیا نے قرآن کے بہت سے دستوری پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہا کہ آج کی تقریب ایک یادگار تقریب ہے اس وقت ہمارے درمیان محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان تشریف فرما ہیں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم آج ان کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قرآن فہمی کے شعبے میں یہ انسائیکلو پیڈیا ایک اہم پیش رفت ہے۔ سعید الظفر صدیقی ایک صاحب علم اور دانش ورانہ مزاج کے حامل شخص ہیں۔ شعر و ادب اور تہذیبی شناخت کو عزیز رکھتے ہیں اس لیے بھی یہ ہر دل عزیز ہیں یہ غور و فکر کی دنیا کے آدمی ہیں چند برس پہلے ان کی ایک کتاب بہ زبان انگریزی Be Yond Here Now نظر سے گزری جس میں انہوں نے کائناتِ وقت کی قرآنی توجیہات‘ سائنسی نقطہ نظر اور ساتھ میں تصوف کی باتیں پیش کی ہیں ان کی انتھک محنت کے باعث یہ انسائیکلو پیڈیا منظر عام پر آیا ہے یہ ان کی علمی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس پروگرام میں حمیدہ کشش‘ یاسر سعید‘ محمد عظیم‘ احسن علی‘ خرم سہیل کو لوح سپاس پیش کی گئیں کہ ان لوگوں نے قرآنی موضوعات پر مشتمل انسائیکلو پیڈیا میں سعید الظفر صدیقی کی معاونت کی۔سعید الظفر صدیقی نے کہا کہ وہ اپنے پروردگار کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ اس نے مجھے یہ توفیق دی کہ میں نے یہ انسائیکلو پیڈیا ترتیب دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ تمام علوم زندگی کا حصہ ہیں اس لیے قرآن مجید میں ہر مضمون مثلاً معاشیات‘ عمرانیات‘ نفسیات‘ علم الابدان‘ علم کائنات و سماویات‘ علم نباتات و حیوانات‘ موسمیات و ارضیات وغیرہ سے متعلق بلیغ اشارے ملتے ہیں جو مختصر ہونے کے باوجود اتنے جامع ہیں کہ بڑی سے بڑی سائنسی کی کتابوں پر حاوی ہیں۔ کائنات کے جو راز انسانوں نے صدیوں کی دن رات محنت اور کاوش کے سبب دریافت کیے ہیں قرآن میں ان کی طرف واضح اشارے پہلے سے موجود ہیں یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ قرآن مجید میں اخلاقی تعلیمات‘ شرعی احکامات‘ نصیحت و دعوت‘ بشارت و وعید‘ سبق آموز واقعات‘ قصائد نیز اس کائنات سے متعلق کہ یہ کیسے بنی اور کیوں تخلیق کی گئی‘ اس لامحدود و سلسلہ تخلیق میں انسان کا مقام و کردار کیا ہے‘ اپنے خالق کے ساتھ بندے کا کیا تعلق ہے انسان کو اس دنیا میں زندگی کیسے گزارنی چاہیے‘ حکومت و نیابت میں انسان کا کردار کیسا ہونا چاہیے۔ طہارت و پاکیزگی کیا ہے۔ 7,000 صفحات پر مشتمل یہ انسائیکلو پیڈیا 7 مساوی جلدوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ موضوعات کی فہرست اردو حروف تہجی کے اعتبار سے اور انگریزی فہرست انگریزی حروف تہجی کے اعتبار سے دی گئی ہے۔ ہر صفحہ کی پیشانی پر اردو اور انگریزی میں موضوعات اور ذیلی موضوعات درج کیے گئے ہیں بہت سے الفاظ موضوع کے حوالے سے ایسے ہیںجن کا انگریزی زبان میں صحیح متبادل لفظ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو انگریزی فہرست میں تبدیل کیے بغیر ویسا ہی رکھا گیا ہے مثلاً رمی‘ جہاد وغیرہ۔ بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو لغت سے ہٹ کر قرآن مجید میں اپنے مخصوص معنی اور مفہوم رکھتے ہیں ایسے الفاظ کو اس انسائیکلو پیڈیا میں انگریزی اور اردو دونوں فہرست میں کسی ترجمے کے بغیر رکھا گیا ہے مثلاً زقوم‘ برزخ‘ اعراف وغیرہ۔ سات جلدوں پر مشتمل موضوعاتِ قرآن انسائیکلو پیڈیا جو کہ 1,800 سے زائد موضوعات سے متعلق آیاتِ قرآنی کا جامع انتخاب ہے اس انسائیکلو پیڈیا میں اردو ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری اور انگریزی ترجمہ ڈاکٹر مارما ڈیوک پیکتھال نے کیا ہے۔سعید الظفر صدیقی نے یہ بھی کہا کہ انسانی طاقت اور بساط میں جو کچھ ہے اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ اس انسائیکلو پیڈیامیں موضوعات قرآن میں کسی غلطی کا امکان نہ رہے لیکن بایں ہمہ کاوش‘ کسی بھی قسم کی بشری غلطی کا امکان باقی رہتا ہے خدانخواستہ ایسی کوئی غلطی آپ کی نظر میں آئے تو براہ کرم انہیں مطلع فرمائیں تاکہ اس غلطی کی تصحیح کی جاسکے۔
صاحب صدر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ سعید الظفر صدیقی نے موضوعاتِ قران پر جو دقیق و تفصیلی اہم کتاب لکھی ہے وہ اس موضوع پر پہلی کتاب تو نہیں ہے البتہ سب سے اعلیٰ کتاب ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے قرآنی ترجمے کے آخر میں ایک اشاریہ مرتب کر دیا تھا مگر عنوانات خالص فہمی انداز میں لکھے گئے تھے۔ زاہد ملک صاحب کی نہایت عمدہ پیش رفت مضامین قرآن شائع ہوئی تھی۔ نقوش کا قرآن نمبر تو بے حد قابلِ تعریف ہے چند برس پہلے ایک جامع اشاریہ مضامین قرآن کئی جلدوں میں ڈاکٹر اظہر محمود اشرف کی تحقیق و تدوین کے نتیجے میں سامنے آیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب قرآن فہمی کا ہی سلسلہ جاریہ ہے۔ سعید الظفر صدیقی نے ایک بڑا کام کیا ہے یہ بہت اہم اور معلوماتی کتاب ہے جو کہ کسی بھی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کی مستحق ہے۔ صاحب صدر کی تقریر کے بعد تمام مہمانوں کے لیے ریفریشمنٹ کا اہتمام کیا گیا۔ راقم الحروف اس انسائیکلو پیڈیا کے بارے میں یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ اس کتاب کے بارے میں عطاء الحق قاسمی نے روزنامہ جنگ میں لکھا ہے کہ قرآن کے طالب علموں کے لیے اس انسائیکلو پیڈیا کی شکل میں ایک آسانی میسر آگئی ہے۔ سات ہزار صفحات کی اس کتاب میں زندگی کے ہر شعبے سے متعلق قرآنی آیات کو یکجا کرکے ایک کارنامہ انجام دیا ہے اب بہت آسانی کے ساتھ ہر موضوع کے متعلق قرآنی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
حسن نثار نے روزنامہ جنگ میں لکھا ہے کہ طالب علم بچوں خصوصاً انگلش میڈیم کے طلباء و طالبات کے لیے قرآن فہمی کے موضوع پر اس سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں ہوسکتا۔ یہ کتاب دینی اور روحانی زندگی آسان بناتی ہے۔ سعداللہ شاہ نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ یہ انسائیکلو پیڈیا ایک گراں قدر کتاب ہے جس میں قرآنی آیات کے حوالے سے انسانی زندگی کے معاملات پر معلومات فراہم کی گئی ہے اس کے علاوہ اس انسائیکلو پیڈیا کی تفصیلات اور تبصرے مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ رہے ہیں امریکا اور برطانیہ میں بھی اسلام فہم اس کتاب کی پزیرائی کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس کارِ خیر کی جزا سعیدالظفر صدیقی کو عطا فرمائے اور انہیں مزید ہمت دے کہ وہ قرآن فہمی کی ترویج و اشاعت میں مزید کام کریں کیوں کہ یہ ایسا موضوع ہے کہ جو کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتا۔

حصہ