یہ سال بھی اداس رہا، روٹھ کر گیا

692

ایمن شمسی
ہمیشہ کی طرح اِس سال بھی ہر طرف سے نیو ائیر کا استقبال بہت جوش و جذبے اور دھوم دھڑکے کے ساتھ کیا گیا۔ تحفے تحائف کے لین دین، التجائیں، درخواستیں، معافیاں تلافیاں اور مبارکباد کے میسج… خوشی و غم کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ یہ سال ہم سے رخصت ہوا۔ نئے سال میں بہت سے عہد و پیماں باندھتے ہیں اور پھر ہم ہی ہمیشہ کی طرح سال کے بیچ میں وہ سب بھول جاتے ہیں کہ آیا ہم نے بھی ایسی کوئی بات کہی تھی۔ سالِ نو کا استقبال کچھ گھروں میں بہت اہتمام سے کیا جاتا ہے اور بعض گھرانوں کے خواتین و حضرات کی تو راتوں کی نیندیں ہی اڑ جاتی ہیں۔ گھر کی کلر تھیم، ڈیکوریشن، فرنیچر سیٹنگ، پردے، قالین اور بیڈ شیٹس کا انتخاب، جوتوں، کپڑوں، نت نئی دیدہ زیب جیولری اور میک اپ کلکشن بار بار مارکیٹ کے چکر لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔ پرانا فیشن آئوٹ، نیا فیشن اِن… کیسے کپڑے لیے جائیں! کون سے اسٹال پر 70فیصد ڈسکائونٹ ہوگا… ست رنگی، الکرم، یا کم از کم اپنے لیے کرتیاں تو لے ہی لی جائیں۔ سلیپر، سینڈل اور شوز کی بھی نیو ائیر سیل کہاں لگی ہوگی…! کچھ خواتین کی نظریں مستقلاً ایک مہینے سے میاں صاحب کی جیب پر لگی ہوتی ہیں تاکہ جنوری کا مہینہ آئے، میاں کی جیب ہو اور پھر ہم جانیں اور ہمارا کام… پورے سال کے لیے زادِراہ اسی سیل سے تو جمع کرنا ہے۔
یہ تو نہایت معمولی اور ادنیٰ سی جھلک تھی۔ ایک غیر مذہبی تہوار میں ہمارے اسراف کی جھلک… اور وہ بھی ایک اسلامی ملک میں۔ ہم نے ان سب جھمیلوں اور اسراف کی آڑ میں انفاق فی سبیل اللہ کا سبق فراموش کردیا۔ صدقہ کیا ہوتا ہے، یہ تو جیسے ہمیں معلوم ہی نہیں… مسکین و غریب کون ہوتے ہیں، ان میں تمیز کرنا ہم بھول گئے… ہمسایہ تو ہمسایہ، ہم اپنے گھر میں رہنے والے ان نفوس کو بھول بیٹھتے ہیں جن کا ہم پر اور ہمارا اُن پر کوئی حق ہوتا ہے۔
اور پھر نیو ائیر نائٹ کے نام پر ماڈرن ازم میں ڈھلتے ڈھلتے ہم خود کو اخلاقی برائیوں میں دھکیلتے جاتے ہیں، جس کا ہمیں ذرہ برابر بھی اندازہ نہیں… اور ہمارے ذہن میں یہ بات بھولے سے بھی نہیں آتی کہ یہ ماڈرن ازم نہیں، یہ تو دورِ جاہلیت کی دقیانوسیت ہے۔
کاش ہم یہ سوچیں کہ سالِ نو ہم سے کیا تقاضے کرتا ہے، ہمارے کن عزائم کی اس کو ضرورت ہوتی ہے، اور اخیر سال تک ہمارا کیا فعل ہونا چاہیے۔ کچھ تو سوچیں کہ گزرنے والا سال ہر لمحہ ہمیں ہمارے انجام سے قریب کررہا ہے۔ ہم نے کل کے لیے کیا تیاری کی ہے…؟
یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں

موسم

صبیحہ نوشاد
بادل ہیں جتنے بھی میری آنکھوں میں
بنے ہیں دکھ دریا کے پانی سے!
تو چلو آج اے بادلو! زمیں پہ اتنا برسو!
کہ تمھارے بہائو سے
دھل جائیں نفرتیں
بہہ جائیں عداوتیں
نکھر جائیں سیرتیں
اور پھر اس کی مہک سے
معطر ہوجائے دنیا
تو اے بادلو ذرا ٹوٹ کر برسو۔۔۔
اور سیراب کردو میری دھرتی کو محبت سے
کاش میرے آنسو سمندر بن جائیں
اور فضا بدل ڈالیں اس ارضِ وطن کی
بدل ڈالیں نفرتوں کو محبتوں سے
آنسوئوں کو مسکراہٹوں سے
تو اے بادلو!!
اتنا برسو کہ سیراب کردو میری دھرتی کو

حصہ