ہم کیا کریں؟

297

کرن وسیم
آج پوری دنیا کے مسلمان اس بات کو بخوبی سمجھ چکے ہیں کہ موجودہ حالات امتِ مسلمہ کے لیے انتہائی شدید ابتلا اور آزمائش کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ امتِ مسلمہ کو ایک طویل المدتی سازش کے ذریعے اقوام اور ممالک کی سرحدوں میں ذہنی، معاشرتی اور تمدنی سطح پر تقسیم کردیا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مسلمان تو مختلف فرقوں، جماعتوں اور لسانی گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جارہے ہیں، لیکن عالمِ کفر اپنے تمام اختلافات اور ناراضیاں بھلا کر عالمِ اسلام کے خلاف سازشوں اور جنگی اقدامات کرنے کے لیے متحد ہوگیا ہے۔
دنیا کی ابتدا سے ہی معرکۂ خیروشر جاری ہے، حالات و واقعات اور کردار بدلتے رہتے ہیں۔ ہر شخص اس معرکے میں اپنی استطاعت اور رجحانات کے حساب سے حصہ ڈالتا ہے۔ لیکن بحیثیت مسلمان فرد ہم سب کو اپنی اپنی انفرادی و اجتماعی کاوشوں پر نظر رکھنی ہے کہ ہم اپنے کردار و اعمال سے حق کا ساتھ دے رہے ہیں یا باطل کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔
امتِ مسلمہ کے موجودہ حالات پر نظر کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ تقریباً تمام مسلم ممالک کو بارود کا ڈھیر بنانے کی کوششیں خاصی حد تک کامیاب ہوچکی ہیں۔ آگ کے جس گڑھے سے ہادیٔ برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو نکالا تھا، یہ امت دوبارہ اسی گڑھے کے کنارے پہنچ چکی ہے۔ دورِ جاہلیت کی اکثر و بیشتر برائیاں مسلمانوں میں رواج پاچکی ہیں۔ مزید ستم یہ ہے کہ ان برائیوں اور خرافات کی سنگینی اور ہولناک نتائج کا شعور و احساس بھی باقی نہیں رہا۔ ان حالات میں امت کے ہوش مند افراد انتہائی کرب و مخمصے کی کیفیت میں ہیں۔ اخلاصِ نیت کے ساتھ اجتماعی کوششیں اس وقت کی اوّلین ضرورت ہیں، جس کے لیے ہم سب کو اپنے مناصب کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کاوشوں میں حصہ ڈالنا ہے۔
گزشتہ ادوار میں جس طرح مسلمان خواتین اپنی اہمیت و حیثیت کا ادراک کرتے ہوئے معاشرتی اصلاح میں نمایاں کردار ادا کرتی رہی ہیں، موجودہ حالات بھی اس بات کے متقاضی ہیں کہ امت کی مائیں، بہنیں اس اہم نکتے کو اپنے مقاصدِ زندگی میں شامل کریں کہ معاشرے کے لیے صالح اور باعمل و باکردار افراد کی تیاری ہم خواتین کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔
اس وقت غیر مسلم طاغوتی طاقتوں کا بھی خاص ہدف مسلمان ممالک کے نوجوان اور خواتین ہی ہیں۔ نشریاتی اور ابلاغی اداروں کی حکمت عملی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ وہ ہماری اقدارو روایات اور اسلامی تشخص کے خلاف کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ عورت کی آزادی کے زہریلے پروپیگنڈے کے ذریعے خواتین کو اُن کے حقیقی کارِ مناصب اور مقاصد سے ذہنی و اخلاقی طور پر دور کیا جارہا ہے، جس کے واضح اور دوررس اثرات ہماری آئندہ نسلوں کی نظریاتی اور ملّی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ اس تباہ کن سیلاب کے آگے ہمیں ہی بند باندھنے ہوں گے۔ اللہ کے وہ معصوم بندے جو اولاد اور چھوٹے بہن بھائیوں کی صورت میں ہمارے گھروں اور خاندانوں کا حصہ ہیں انھیں طاغوتی لشکروں کی بھڑکائی گئی اس آگ کا ایندھن نہ بننے دیں۔ امت کی حیثیت سے اصلاحِ عمل کی جتنی شدید ضرورت ہمیں آج ہے، پہلے شاید نہ رہی ہوگی۔ تیزی سے بڑھتی سماجی تنزلی پر نظر ڈالی جائے، آگے دھند اور اندھیرے کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ افغانستان، عراق، فلسطین، شام، یمن، برما اور مقبوضہ کشمیر کے دل دہلا دینے والے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ ان حالات میں فکری بصیرت کے ساتھ مضبوط ارادوں پر مبنی حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ کچھ بعید نہیں کہ خدانخواستہ آنے والے دور میں ہماری نسلیں دین سے دست برداری کی صورت میں ہماری نااہلی اور غیر ذمہ داری کا قرض چکائیں۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم خواتین اسلام کی حقیقی نمائندہ بن کر اپنی دینی شناخت پر کسی قسم کا سمجھوتا نہ کریں۔ باطل نظریات پر مبنی دنیاوی معاملات پر اسلام کی روشن تعلیمات اور واضح احکامات کو فوقیت دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم و تحقیق کے میدان میں بھی دوسری اقوام سے مرعوب ہونے کے بجائے اپنی ترقی اور تربیت کی راہیں خود ہموار کرنی ہوں گی۔ ہمارا اور ہماری آئندہ نسلوں کا تحفظ اسی پر منحصر ہے۔ ورنہ آج جس طرح مسلم ممالک اور عوام کی قسمتوں کے فیصلے اقوام متحدہ، امریکا اور روس کے اجلاسوں میں کیے جاتے ہیں، آئندہ بھی ہمارے سیاہ و سفید کے مالک وہی باطل پرست بنے رہیں گے۔ ہمارے کٹھ پتلی اور بکاؤ حکمران امت کے وسائل اور قوتوں کو اپنے دنیاوی آقاؤں کی منشا پر اپنی کرپشن اور عوام کی تباہی کے لیے استعمال کرتے رہیں گے۔ آپ یقین کریں کہ یہ ایک بڑا خسارہ اور ہماری نظریاتی موت ہوگی۔
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
اللہ رب العزت ہمیں حق پر ثابت قدم رہنے والا، اور امت کے درد کا مداوا کر نے والا بنائے، آمین۔

حصہ