کیو دیر گئے گھر آئے ہو

369

رُمانہ عمر
شہرِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے واپسی اُس کے لیے ہمیشہ سے ہی تکلیف دہ ہوا کرتی تھی، مگر آج تو جی تھا کہ ان گلیوں میں لپٹا چلا جاتا تھا اور نگاہیں ان فضائوں میں بھٹک کر راستہ بھول جانے پر بضد تھیں۔ ہر بار مدینہ سے واپسی پر اُس کی ایک ہی دعا ہوتی تھی کہ اے ربِّ کعبہ! اے ربِّ محمدؐ! اپنے محبوب کے شہر کی زیارت کے لیے جلد ہی بلانا۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ اَن گنت بلاووں کے باوجود نہ تو شوق میں رتی بھر کمی آئی تھی اور نہ جی بھرا تھا، اور اب کی بار تو خیر نینوں کے دونوں کٹورے چھلکنے کو بے تاب ہی رہے۔ اِدھر آنکھیں رگڑتی اور اُدھر یہ خیال آجاتا کہ اب آخری دیدار ہے اور وہ تڑپ اٹھتی۔ معیز نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے بارہا سمجھایا کہ اللہ کی بندی سعودیہ سے ہی جارہی ہو، دنیا سے تو نہیں۔ سانسوں کی ڈور سلامت رہی تو اللہ سبب بنا ہی دے گا، دوبارہ آئو گی۔ مگر وہ بچی تو نہ تھی کہ بہل جاتی۔ جانتی تھی کہ آگے روزی روٹی کا بندوبست تو ہے نہیں، عمرے کی عیاشی کسے نصیب ہوگی؟ یہ تو مولا کا کرم تھا کہ جو آدھی سے زیادہ زندگی اپنے گھر کے قریب گزروائی، اور نہ صرف گزروائی بلکہ بہت خوب گزروائی۔
جدہ سے واپسی کے لیے ٹیکسی میں بیٹھتے ہی وہ پھر بے حال ہوگئی۔ کھڑکی سے باہر بھاگتے مناظر الوداع کی کہانی سنا رہے تھے۔ اسے پھر یہی خیال ستانے لگا کہ آخری دیدار، آخری سفر، آخری ملاقات، آخری لمحات… درِ محبوب اور دوری کا سفر… کون جانے آگے سانس کی کتنی گنتی باقی رہ گئی ہے۔ تب اُس کا جی چاہا کہ چیخ چیخ کر روئے۔
دل وہیں رہ گیا، جاں وہیں رہ گئی
اک کیفیت دل نشیں رہ گئی
عارفہ شادی کے دو ماہ بعد ہی اپنے شوہر معیز کے ساتھ جدہ آگئی تھی۔ انجینئر ہونے کے باعث معیز کو معقول نوکری ملی تھی، مگر اس کا کنبہ بڑا تھا اور وہ گھر کا بڑا بیٹا تھا، سو ذمے داریوں کا پہاڑ وہ ساتھ لے کر آیا تھا۔ جس وقت عارفہ اس کی زندگی میں آئی، ماں باپ کے علاوہ چار بھائیوں اور دو چھوٹی بہنوں کی ذمے داری اسی نے اٹھائی ہوئی تھی۔ باپ نے شروع زمانے میں ٹھیکیداری کی تھی، مگر ایک بار تعمیراتی کام کے دوران ننھا سا پتھر آنکھوں میں لگا تھا، کہنے کو تو چھوٹا سا کنکر تھا مگر زخم ایسا گہرا لگا کہ رفتہ رفتہ بینائی متاثر ہونے لگے اور یوں کام چھوڑ کر گھر بیٹھنا پڑا۔
معیز ملک سے باہر گیا، حالات میں بہتری آئی… مگر ساتھ ہی ساتھ گھر سے آنے والے مطالبات میں بھی تیزی آنی شروع ہوگئی۔ کرائے کا گھر کھلنے لگا اور مطالبہ ہوا کہ دو کمروں کا اپنا گھر کھڑا کرلیا جائے۔ یہ بات تو معیز کو بعد میں پتا چلی کہ پلاٹ خرید لینا آسان ہے، گھر کھڑا کرنا بہت مشکل۔ اِدھر تعمیر شروع ہوئی اوراُدھر خرچے کا گراف بڑھنا شروع ہوا۔ دو کے بجائے چار کمرے اور پھر امریکن کچن کا ارادہ باندھ لیا گیا، پھر یہ شور مچا کہ سیمنٹ بجری آئی پڑی ہے، مزدور لگے ہوئے ہیں، کیا حرج ہے کہ اوپری منزل پر بھی دو کمرے کھڑے کرلیے جائیں۔ چھت بعد میں ڈلواتے رہیں گے، کام ایک ہی ساتھ نپٹ جائے تو اچھا ہے۔ معیز کو انکار کا یارا نہ تھا، سو مکان کی تعمیر مکمل ہوئی جس میں پلاٹ خریدنے کے سوا سارا مال مسالہ معیز نے ہی ڈلوایا۔ عارفہ طبیعت کی صلح جو تھی اور کچھ لاپروا بھی۔ معیز کتنا ماں باپ کو بھیجتے ہیں، اس کی اُسے کوئی خاص پروا نہ تھی، اور نہ ہی معیز نے اُسے کبھی بتایا۔ کبھی میکے والے پوچھتے کہ گھر تو معیز بھائی نے ہی بنوایا ہے ناں؟ تو اس کا جواب ہوتا ’’مجھے خبر نہیں کتنا پیسہ معیز کا لگ رہا ہے اور کتنا ابا کا، معیز کہتے ہیں کہ پلاٹ ابا نے لیا ہے تو مکان بھی ابا ہی کا ہے‘‘۔ یا کبھی کہتی ’’مجھے اس سے کیا لینا دینا، وہ خود کما رہے ہیں، جیسے چاہیں خرچ کریں۔ جب مجھے تنگی میں نہیں رکھتے تو میں کیوں شکایت کروں!‘‘
اور پھر یوں یوا کہ وقت نے پائوں میں پہیّے لگائے، بلکہ عارفہ کو تو یوں محسوس ہوا کہ جہاز کی طرح وقت کے بھی پر لگ گئے ہیں جو انتہائی تیز رفتاری سے اڑا جارہا ہے۔ ایک ایک کرکے اس کے آنگن میں تین پریاں چلی آئیں۔ جدہ کی جس فرم میں معیز کی نوکری تھی وہاں ترقی کے امکانات صفر تھے، جس پوسٹ پر آیا تھا اسی پر دس برس گزارنے کے بعد دوستوں کی صلاح پر امریکا یا یورپ جانے کا ارادہ باندھا تو اس موڑ پر عارفہ نے اپنی عادت کے برخلاف بڑا واضح اور دوٹوک فیصلہ سنایا:
’’نہیں معیز! ہمیں وہاں حرمین کی متبرک زمین اور اذانوں کی یہ آوازیں تو نہیں مل سکیں گی۔ ڈالر کی چاہت میں اس صاف ستھرے ماحول کو چھوڑ دوں؟ یہاں تو سکون، اطمینان، بچیوں کو مناسب اسکول سب کچھ ملا ہوا ہے، ہمیں اور کیا چاہیے! اور پھر میرا ایمان اتنا مضبوط نہیں کہ کافروں کے ملک میں اپنی بچیوں کی درست اسلامی تربیت کرسکوں۔‘‘
سو معیز نے ہاتھ پیر مارنے ہی چھوڑ دیے۔ وہ بھی ’جو ہے سو ہے‘ پر قانع ہوگیا۔ اس دوران دو ایک بار وطن واپس لوٹنے کی ہوک اٹھی۔ بیٹی کی تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھا تو اس نے فیصلہ کیا کہ بہت ہوگیا اب واپس پلٹنا چاہیے۔ ایسے میں ابا کا جملہ اسے بالکل ہی سُن کر گیا ’’بیٹا کیا رکھا ہے اس ملک میں! شہر میں بدامنی ہے، یہاں کے بچوں کو نوکری مل نہیں رہی، تمہیں کون دے گا! لگی بندھی نوکری پر کیوں لات مارتے ہو، بچت بھی ہورہی ہے۔‘‘
’’لیکن ابا جی بچیوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے، واپس تو لوٹنا ہی ہوگا۔‘‘ اس نے دھیمی آواز میں کہا۔
’’عقل کے ناخن لو معیز! تمہارا کون سا بیٹا دھرا ہے، پرائیویٹ کالج کروالو۔‘‘
ایسے جملوں پر معیز بالکل خاموشی اختیار کرلیتا۔ عارفہ سے مسائل بیان کرنے کی عادت اس نے شروع ہی سے نہ رکھی تھی۔ عموماً فیصلہ کرکے ہی بتاتا تھا۔ سو اِس بار بھی اُس نے فیصلہ سنایا ’’ایسا کرتے ہیں میں یہیں رہتا ہوں، تم بیٹیوں کو لے کر کراچی شفٹ ہوجائو۔ گھر کے دو اوپر والے کمروں کے لیے ابا سے بات کرلیتا ہوں، کھانا پینا تو ویسے بھی سب کے ساتھ ہی ہوگا۔‘‘ عارفہ کو بحث کی عادت نہ تھی۔ بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کی شوقین بھی تھی، سو یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی ٹھیرا۔ مگر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ جب بڑی بیٹی نائلہ کے اسکول سے ٹرانسفر لیٹر، رزلٹ کارڈ، داخلے کی معلومات وغیرہ کے عمل سے فارغ ہوئے اور ٹکٹ خریدنے کی نوبت آئی تو کراچی کال ملائی گئی۔ اب ایک نئی کہانی سننے کو ملی۔
(جاری ہے)

حصہ