وقت بدلتے دیر نہیں لگتی

691

افروز عنایت
شاہ زیب اور دلہن کو اُن کے کمرے میں بھیج کر زیب گل خود بھی سستانے کے لیے اپنے کمرے میں آگئی۔ باقی مہمان تو رخصت ہوچکے تھے، مراد خان اپنے چند دوستوں کے ساتھ باہر بیٹھک میں گپ شپ میں مصروف تھے۔ کھڑکی کے سامنے کرسی پر بیٹھے ہوئے وہ بڑبڑائی ’’عارف آج تمہارا خواب پورا ہوگیا، تمہارا بیٹا نہ صرف پڑھ لکھ کر اعلیٰ افسر بن گیا ہے بلکہ اس کی شادی بھی ہوگئی ہے‘‘۔ وہ بے ساختہ ہلکے سے مسکرائی، اس کے چہرے پر ایک اطمینان اور سکون تھا۔ پھر وہ ماضی کے دریچے کھولتے کھولتے بہت دور نکل گئی۔
…٭…٭…
ثروت: بابا یہ ناممکن ہے، میں بیوی بچوں والا ہوں، اور… زیب گل کو میں نے بہن کی نظر سے دیکھا ہے، وہ میرے مرحوم بھائی کی بیوی ہے۔
ثروت کی بیوی: ثروت صحیح کہہ رہے ہیں، اگر ایسا ہوگیا تو میں یہ گھر چھوڑ کر چلی جائوں گی۔
بابا: بیٹا میں مجبور ہوں، زیب گل کے باپ کی ایک ہی شرط ہے کہ آپ زیب گل کو اپنے بڑے بیٹے سے بیاہ دیں اور میرے قبیلے کی رسم کے مطابق مقررہ رقم میرے حوالے کردیں، دوسری صورت میں وہ ہر ماہ ہم سے رقم لیتے رہیں گے جب تک زیب گل اس گھر میں رہے گی۔
ثروت: (کچھ سوچتے ہوئے) بابا میں ہر ماہ رقم کا بندوبست تو کرسکتا ہوں لیکن اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرسکتا۔
اس طرح زیب گل کا باپ ہر پانچ چھ مہینے بعد آکر رقم وصول کرنے لگا۔
…٭…٭…
ثروت کی بیوی: بابا زیب گل کو اُس کے باپ کے حوالے کیوں نہیں کردیتا؟ ہر ماہ تم اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر اس کے باپ کو رقم دیتے ہو اور پھر ان ماں بیٹوں کا خرچہ الگ… تم اکیلے بندے دس کھانے والے… دن رات مصروف رہنے لگے ہو، اگر بیمار پڑ گئے تو…!
ثروت: میں بھی یہی سوچ رہا ہوں، شاہ زیب اور اپنے بچوں کی پڑھائی کا خرچہ ہی اتنا ہوجاتا ہے کہ دوسری طرف کا سوچ ہی نہیں سکتے۔ ابا بھی بیمار رہنے لگے ہیں۔ میں اس سلسلے میں پہلے آپا سے بات کرتا ہوں۔
آپا: ابا میں آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں، اس میں ہم سب کی بہتری ہے۔ زیب گل کی عمر ابھی بیس اکیس سال بھی نہیں، اتنی لمبی زندگی، چھوٹا بچہ… وہ کس سہارے زندگی گزارے گی؟ ثروت بھائی کی مالی حالت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ زیب گل کا باپ بارہا آپ سے کہہ چکا ہے کہ وہ گل کی دوسری شادی کروانا چاہتا ہے۔ یہ اس کا حق بھی بنتا ہے۔ میرے خیال میں تو…
بابا: گل اور شاہ زیب میرے مرحوم بیٹے کی نشانیاں ہیں، میں ان دونوں کو دیکھ کر ہی جیتا ہوں، میں اپنے دل کے ٹکڑوں کو اپنے سے کیسے دور کرسکتا ہوں!
آپا: بابا آپ صرف اپنا سوچ رہے ہیں، گل کا بھی تو سوچیں، خدانخواستہ کل کلاں کو… آپ کو کچھ ہوجاتا ہے تو…!
بابا اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے، میرے مالی حالات اچھے ہوتے تو شاید میں شاہ زیب کو اپنے پاس روک لیتی۔ لیکن ماں سے ایک بچے کو الگ کرنا بھی ظلم ہے۔
آخر بابا نے دل پر پتھر رکھ کر گل اور شاہ زیب کو اس کے والد کے حوالے کیا۔ گل خود بھی یہ گھر جس سے اس کے مرحوم شوہر کی یادیں وابستہ تھیں، چھوڑنا نہیں چاہتی تھی، لیکن ان سب کی مجبوریوں سے وہ واقف تھی، اس کے یہاں رہنے سے ان سب کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ لاچار وہ بیٹے کے ساتھ روانہ ہوگئی۔
…٭…٭…
گل کے باپ نے اپنے منصوبے کے مطابق اپنے شہر پہنچ کر اس کو مطلع کیا کہ اس نے مراد خان سے اس کا رشتہ طے کردیا ہے۔ بدلے میں اس کی بیوہ بہن سے خود شادی کرے گا۔ گل اپنے قبیلے کے رسم و رواج سے واقف تھی کہ یا تو بابا اس کا ’’ٹکوں‘‘ کے عوض کسی سے بیاہ کردیتے، یا بدلے میں رشتہ لیا جاتا۔ اسے حیرانی اس بات پر ہورہی تھی کہ مراد خان کی بیوہ بہن بابا سے بہت چھوٹی تھی، لیکن ان کے قبیلے میں اس بات کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس شادی پر آمادہ تھی، لیکن اس نے ایک شرط مراد خان کے سامنے رکھی کہ وہ اپنے بیٹے کو کسی صورت بھی اپنے سے جدا نہیں کرے گی۔
شادی کا یہ بندھن اس کی مجبوریوں کی وجہ سے ایک سمجھوتا تھا۔ اس کے دل و دماغ پر اپنے سابق شوہر کی یادوں کا قبضہ تھا۔ اگرچہ دونوں کا ساتھ صرف تین سال رہا تھا، لیکن وہ بیٹے کی پیدائش پر بہت خوش تھا، اسے پڑھا لکھا کر بڑا افسر بنانا چاہتا تھا۔ زیب گل سوچتی کہ نہ جانے اب اس کے شوہر کا یہ خواب پورا ہوپائے گا یا نہیں۔
لیکن چند ہی دن میں اسے اندازہ ہوگیا کہ مراد خان ایک شفاف دل و دماغ کا مالک ہے۔ نہ صرف اس نے زیب گل کو عزت اور محبت دی بلکہ اس کے بیٹے کو بھی باپ کی شفقت سے نوازا، اور اسے شہر کے ایک اچھے اسکول میں داخل کروادیا۔
مراد خان: زیب گل تم ڈاکٹر کے پاس گئی تھیں؟
زیب گل: جی گئی تھی، یہ کچھ طاقت کی دوائیاں وغیرہ اس نے لکھ کر دی ہیں۔
مراد خان: ٹھیک ہے، یہ نسخہ مجھے دے دو، میں دوائیاں لے آئوں گا۔ ارے ہاں یاد آیا، آج آفس میں شاہ زیب کے چاچا کا فون آیا تھا۔
(زیب گل نے ہاتھ میں پکڑا گلاس وہیں ٹیبل پر رکھا) خیریت تو تھی! بابا… بابا کیسے ہیں؟
مراد خان: ہاں بابا کی طبیعت خراب ہے، وہ تم دونوں سے ملنا چاہتے ہیں، کیا تم اس حالت میں… میرا مطلب ہے سفر کرسکو گی؟ ورنہ میں شاہ زیب کو ان سے ملانے لے جائوں۔
زیب گل: (مشکور نگاہوں سے) میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ جائوں گی اگر آپ کی اجازت ہو تو۔
…٭…٭…
بابا پوتے اور بہو کو سینے سے لگائے اپنے آنسو نہ روک سکے۔
بابا: مراد خان میں تمہارا احسان مند ہوں، میں مرنے سے پہلے اپنے جگر کے ٹکڑوں سے ملنا چاہتا تھا، میں مرنے کے بعد بھی تمہارا یہ احسان نہیں بھولوں گا۔
مراد خان: بابا آپ کیسی باتیں کررہے ہیں! آپ کا ان پر حق ہے۔ یہ یہاں دو تین دن رہیں گے۔ یہاں میرے کچھ کام ہیں، اچھی بات ہے میں وہ نپٹالوں گا۔ کھانا کھانے کے بعد اس نے بابا سے اور سب سے اجازت چاہی۔
یہ چار دن بابا کی زندگی میں جیسے پھر سے ’’بہار‘‘ لے آئے۔
اسے قدرے اطمینان بھی ہوا کہ شاہ زیب اور زیب گل اپنی زندگی کے نئے سفر میں بہت خوش ہیں۔
…٭…٭…
زیب گل: مراد خان آپ کا ہم ماں بیٹے پر احسان ہے کہ آپ ہمیں بابا سے ملانے لے گئے، میرا بھی کئی دنوں سے بڑا جی چاہ رہا تھا ان سے ملوں۔ بابا بہت بوڑھے ہوگئے تھے، جوان بیٹے کی موت نے ان کی کمر توڑ دی تھی، اس لیے وہ زیادہ جی نہ سکے۔
مراد خان: (ہنستے ہوئے) گل! میں نہیں چاہتا کہ شاہ زیب کے دل میں کوئی کجی اور محرومی رہ جائے، وہ مجھے بھی اتنا ہی عزیز ہے جتنا تمہیں، اگر وہ اپنے مرحوم دادا سے ملنے نہ جاتا تو تمام زندگی اس کے دل میں ایک حسرت رہ جاتی۔
…٭…٭…
مراد خان نے ایک شفیق باپ کی طرح شاہ زیب کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھا۔ وہ اسے اپنے بیٹے راحیل خان سے زیادہ عزیز رکھتا۔ باپ کی شفقت و محبت کے سائے میں شاہ زیب آج اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ اس کی زندگی میں جس طرح ماں کے لیے پیار و محبت کی اہمیت تھی، اسی طرح مراد خان کے لیے بھی۔ اس نے ہوش سنبھالا تو باپ کے روپ میں مراد خان کو ہی ایک شفیق اور مہربان سایے کی طرح دیکھا تھا۔ مراد خان اپنے دونوں بیٹوں پر ناز کرتا تھا اور شاہ زیب نے باپ کے اس مان کو قائم رکھا۔
…٭…٭…
مراد خان: ارے گل تم ابھی تک جاگ رہی ہو…
شوہر کی آواز پر وہ ماضی سے حال میں آگئی۔

حصہ