مسلم تھی حیاء تیری، حمیت وفا تیری۔۔۔۔

473

ماروی عبید
اسلام کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حیاء کے مادے کو فطرتِ انسانی کی گہرائیوں سے نکال کر علم و فہم اور شعور کی غذا سے اس کی پرورش کرتی ہے اور ایک مضبوط حاسہ اخلاقی بناکر اس کو نفسِ انسانی میں ایک کوتوال کی حیثیت سے متعین کردیتی ہے…!
اسلامی اخلاقیات میں حیاء کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ اس سے چھپا ہوا نہیں ہے… چنانچہ معاشرت کا جو شعبہ انسان کی صنفی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اس میں بھی اسلام نے اصلاحِ اخلاق کے لیے اسی چیز سے کام لیا ہے … معاملات میں نفس انسانی کی نازک سے نازک چوریوں کو پکڑ کر حیاء کو ان سے خبردار کرتا ہے اور اس کی نگرانی پر مامور کردیتا ہے…!
نئی تہذیب نے پیراہن بخشا ہے جسموں کو
کہ چھپ کر لاکھوں پردوں میں بھی عریانی نہیں جاتی
جس امت کے عہدِ اوّل کا یہ عالم تھا کہ کوئی خاتون بے حجاب نظر نہیں آتی تھی، افسوس آج اس امت کے طبقۂ نسواں کی اکثریت بے حجابی اور بے حیائی کی لعنت میں گرفتار ہے۔ جس امت کو مشرق و مغرب میں عروج اس نسل کے ہاتھوں ملا تھا جسے مائوں نے اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات کی روشنی میں پروان چڑھایا تھا، آج اس امت کی نوجوان نسل فکری انتشار کا شکار ہے اور بہت تیزی سے بے حیائی کی دلدل میں دھنس رہی ہے۔ یہ کس قدر بڑا ظلم ہے کہ عریانی، فحاشی، بے حیائی اور بدکاری پر مبنی شیطانی تہذیب کی تباہ کاریاں دیکھتے ہوئے بھی لوگ اس کی جانب دیوانہ وار لپک رہے ہیں!
موجودہ دور کی عظیم ترقی کا نقشہ یہ ہے کہ آج عورت کے اصل مقام کو پسِ پشت ڈال کر اسے اشتہار بناکر پیش کیا جارہا ہے اور مسلم خواتین غیر مسلم عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے لگ گئی ہیں۔ حالانکہ نبیٔ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ اسی قوم سے ہے۔ (ریاض الصالحین)
عریانی کی وجہ سے جو فتنہ اس معاشرے میں پنپ رہا ہے اس سے بچنا ضروری ہے، ورنہ یہ فتنہ فساد نہایت شدت اختیار کر جائے گا اور اس کا انجام نہایت تباہ کن ہوگا۔
اسلام جس طرزعمل سے عورتوں کو روکنا چاہتا ہے وہ حسن کی نمائش کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکلنا ہے۔ وہ ان کو ہدایت دیتا ہے کہ دورِ جاہلیت کی عورتوں کی طرح بن ٹھن کر نکلنا، چہرے اور جسم کے حسن کو زیب و زینت اور چست لباس یا عریاں لباس سے نمایا ںکرنا، اور نازو ادا سے دکھاوا کرتے ہوئے چلنا مسلم معاشرے کی عورتوں کا کام نہیں…! قرآن اس روش کو ’’تبرج الجاھلیۃ‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس سے مراد ہر وہ زینت اور ہر وہ آرائش ہے جس کا مقصد شوہر کے سوا دوسروں کے لیے مرکزِ نگاہ بننا ہو… اگر برقع بھی اس غرض کے لیے خوبصورت اور خوش رنگ منتخب کیا جائے تو یہ بھی تبرج جاہلیت ہے۔
عورت کی عزت و تقدس اور وقار و احترام کا انحصار اس کے رنگ و نسل اور قوم و وطن پر نہیں بلکہ خود اس عورت کی عزت و حرمت پر ہوتا ہے، اور اس کی عزت و حرمت پردہ و حجاب سے وابستہ ہے۔ یہ حجاب مسلمان عورت کو وہ عظمت و تقدس اور عزت و وقار عطا کرتا ہے جس کا عشرِ عشیر بھی مغربی تہذیب عورت کو نہیں دے سکی۔ اپنی نااہلی چھپانے کے لیے یورپ حجاب کو ظلم و تنگ نظری اور وحشت کی علامت قرار دیتا ہے۔ حجاب کو مسلم عورت پر جبر، ظلم اور قید کی علامت قرار دیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اہلِ مغرب اپنی ’’تحریکِ بے حجابی‘‘ کی وجہ سے آج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ انہوں نے دنیا میں کہنے کو معاشی ترقی تو حاصل کرلی لیکن انسانی اقدار کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ ان معاشروں کے اندر خاندانی نظام تباہ ہوگیا ہے… مرد کی سربراہی ختم ہوئی، عورت آزاد ہوئی، گھر سے باہر نکلی، پردے کی حدود و قیود توڑیں، ہوس ناک نگاہوں کا شکار ہوئی… جنسی بے راہ روی حد سے بڑھ گئی جس کی بدولت ہمارے گلی محلّوں میں سانحات برپا ہورہے ہیں جس کی تازہ ترین مثال قصور شہر میںہونے والا سانحہ ہے جس میں ایک معصوم بچی درندگی کا شکار ہوگئی…
جب کہ دوسری طرف حیا سے پاکیزہ معاشرہ جنم لیتا ہے۔ ساتر لباس پہننے اور حجاب اختیار کرنے والی مسلمان عورت نہ صرف استحصال سے مامون ہوجاتی ہے بلکہ وہ ایک مکمل اور حقیقی انسان بن کر اپنے فیصلے آپ کرتی ہے، اور یہ ثابت کرتی نظر آتی ہے کہ پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ عورت کے تحفظ کا ضامن ہے۔

حصہ